بس کہ دُشوار ہے ، انساں ہونا

گلی کے نکٹر پر یہاں وہاں رنگ برنگی پتنگوں کو آسمان میں تنا دیکھ ،میں سخت حیران تھا کہ کس طرح ایک کمزور سا دھاگہ ایک کاغذ کے ٹکٹرے کو آسمان کی بلندیوں میں انگلیوں پر نچاتا ہے، ابھی اسی حیرانگی کے عالم میں تھا کہ ایک ہلکی سی دھپ میرے سر پر لگی، پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک صاحب، کرتہ پاجامہ زیب تن کیے کھڑے تھے لمبے بال چہرے پر برہمی،
کیوں میاں ،مقصود صاحب کے صاحبزادے ہو نا؟
جی!
پھر تمہارا یہاں کیا کام، جاو گھر پر پڑھو، یہ کیا بازاری لڑکوں کی طرح یہاں وہاں پھدک رہے ہو!
یہ انجم فوقی بدایونی سے میرا پہلا تعارف تھا، حضرت ہماری پچھلی گلی کے ایک مکان میں رہتے تھے ، بچپن کی معصومیت میں معلوم نہیں تھا کہ اس وقت جس شخص نے دھپ لگائی ہے وہ اپنے وقت کا ایک بڑا شاعر ،ادیب، عروض دان اور محقق تھا،بہت سا وقت گزرا، انجم فوقی کے لیے کئی فون ہمارے گھر بھی آتے تھے، پھر ایک اور صاحب سے محلے میں ہی ملاقات ہوئی، یہ نور احمد میرٹھی تھے،شاعر تھے، نور احمد میرٹھی سے پھر بہت بعد میں جامعہ کراچی کے ایک دوست کےتوسط سے کئی بار سلام دعا رہی نور احمد میرے دوست کے پڑوسی تھے، دیکھئے صاحب بات کہاں سے کہاں جا نکلتی ہے،مجھے یاد ہے جب میں جماعت دہم کا طالب علم تھا، کتابوں کا رسیا تھا، ایک شام انجم فوقی صاحب کے پاس تھاانجم صاحب کی طعبیت ناساز تھی، میں انہیں اپنی لکھی ہوئی ایک غزل دکھا رہا تھا، ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے، فوقی صاحب نے کہا ذرا دیکھیں، مقصودصاحب کے صاحبزادے ہیں ، ان کے والد اکثر ہمارا علاج کرتے ہیں، داخل ہونے والے صاحب نے ایک نظر غزل پر ڈالی اور کہا، ابھی پڑھو، بہت سا، تم نثر میں اچھا مقام بنا سکتے ہو، درپردہ انہوں نے یہ کہا میاں کہ یہ شاعری تمہارے بس کا روگ نہیں، یہ صہبا اختر تھے، پھر مزید کہا، جون ایلیا کی چھاپ محسوس ہوئی، اُس کی طرز پر منہ پھٹ اور فوزوی، لبرل، یہ صہبا اختر سے میری پہلی اور آخری ملاقات تھی،جون ایلیا سے تو میں واقف تھا، سسپینس ڈائجسٹ میں ہر ماہ ان کا انشائیہ لازمی پڑھتا تھا، لبرل اور فوزوی کے الفاظ بھی میرے لیے نا آشنا نہیں تھے مگر میں ان کی روح سے واقف نہ تھا، یاد آیا جس دن صہبا اختر انجم فوقی کے گھر آئے تھے ان کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے، منیر سیفی ان صاحب کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہوا کہ آپ بھی شاعر تھے، یہ ہماری کم نصیبی ہے کہ علم و دانش کے کیسے کیسے خزینے ہمارے اردگرد ہوتے ہیں مگر ہم بے خبری اور لا علمی میں ہی وقت گزار دیتے ہیں۔وقت گزرا، پھر ایک ملاقات جون ایلیا سے بھی ہو گئی، بڑے اہتمام سے ہم اس شخص سے ملے کے جس کی دانش عمر کے پیمانے بھی قید نہ کر سکے، بہت نرمی سے ہاتھ تھاما، جو صاحب ہمیں لے کر گئے تھے اُن کا نام یاد نہیں بس یہ یاد ہے کہ شاعر تھے سروش اُن کے نام کا لاحقہ تھا اور حبیب بینک میں ملازم تھے، امروہے کی نسبت سے جون ایلیا سے کوئی رشتے داری بھی تھی اور صاحب کتاب بھی تھے، یہ جون ایلیا سے میری ملاقات تھی میں اُس وقت قلم پکڑنا سیکھ رہا تھا، اُس نشست میں تین یا چار لوگ تھے، گفتگو بلکل بھی علمی نہیں تھی، یہ ایک ایسی نشست تھی جس میں چند بہت قریبی دوست ملتے ہیں، اور کھل کر محبت اور قہقہے بکھیرتے ہیں، میں اجنبی بنا بیٹھا بس دیکھ رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کا اچھا یہ ہیں لبرل یکدم جون ایلیا نے کہا ارے ، بچےکچھ پیو گے، پیچھے کہیں سے جواب آیا، بچے کہاں پیتے ہیں! اور پھر بات قہقوں میں کہیں گم ہو گئی، یہ اپنے وقت کے ایک لبرل سے میرا پہلا تعارف تھا ، جو مذہب بیزار نہیں تھا مذہب کی روح کو سمجھتا تھا، انسانیت کو مقدم جانتے ہوئے برائی کو نشان ذد کرتا تھا۔ شام کی اُداسی میں، ایک دیا جلتا ہے روشنی جو ہوتی ہے لگتا ہے وہ زندہ ہیں !
ستر کی دہائی میں ، جب پاکستان میں لبرل ازم کی اصطلاح خواص تک محدود تھی، تب کسی کسی گھر میں آزاد خیالی کا لفظ پروان چڑھ رہا تھا، بوسیدہ روایات اور عقل سے عاری مرتب کردہ اصولوں سے انکار، آپ کو خاندان بھر میں آزادخیال مشہور کر دیتا تھا، غضب خدا کا بزرگوں کے سامنے سگریٹ سلگا لیتا ہے، کچھ زیادہ ہی آزادخیال ہو گیا ہے، چند دہائی بعد، اس لڑکی کو دیکھو، کیسے پتلون پہنے یہاں وہاں مٹک رہی ہے کچھ زیادہ ہی لبرل ہو گئی ہے، افسوس ہم شروع سے ہی لفظوں کو صرف برتتے ہیں، اور آگے چل کر الفاظ کا یہ غلط استعمال ایک ایسی سرحد کی بنیاد رکھ دیتا ہے جس کی بنیاد تعصب اور عدم برداشت پر رکھی گئی ہوتی ہے۔
سترہویں صدی میں ایک فلسفی تھے، جان لاک جنھیں لبرل ازم کا بانی تصور کیا جاتا ہے، بنیادی طور پر لبرل ازم آپ کو کہتا ہے کہ ہر شخص آزاد ہے، مذہب کے لیے، رائے کے اظہار کے لیے، تجارت کے لیے،شہری حقوق کے لیے، جمہوری اقدار کے مطابق حکومت کرنے کے لیے، دنیا میں جتنے بھی ازم ہیں اُن سب کی بنیاد اخلاقیات پر رکھی گئی ہے جیسے کہ بدھ ازم،کمیونیزم، اور دنیا میں اسلام سمیت جتنے بھی مذہب ہیں وہ ازم سے چند درجے آگے ہیں، مثال کے طور پر، اسلام، عسائیت، یہودیت، بنیادی فرق ازم اور مذہب میں ضابطہ اخلاق اور ضابطہ حیات کا ہے، دنیا کا کوئی بھی ازم مکمل ضابطہ حیات نہیں دیتا، جب کے مذہب آپ کو ایک ضابطہ حیات دیتا ہے اسلام آپ کو ایک مکمل ضابط حیات دیتا ہے، معاشرت، تجارت، تعلقات، وراثت ، قانون و عدل،ہر چیز کے متعلق ایک ایسا نظام حیات جو آپ کی طرز زندگی کو خود آپ کے اور تمام انسانوں کے لیے سہل اور باعث امن بنا دیتا ہے۔
لبرل ازم میں جتنے بنیادی نکات ہیں وہ سب، دنیا کا ہر مذہب مانتا ہے کچھ ردو بدل کے ساتھ، برسوں ہوئے کہیں پڑھا تھا کہ اسلام میانہ روی اور اعتدال پسندی کا سبق دیتا ہے، اسلام بھی آپ کو آزادی دیتا ہے، آپ آزاد ہیں رائے دینے میں ، اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے اور اپنی عبادت گاہوں میں جانے کے لیے ، آپ آزاد ہیں اپنے حقوق کے لیے ، آپ آزاد ہیں برابری کی سطح پر رہنے اور زندگی بسر کرنے کے لیے، اسلام شدت کی مخالفت کرتا ہے ، شدت منفی ہو یا مثبت بے اعتدالی کا سبب بن ہی جاتی ہے اور بے اعتدالی پھر کہیں نہ کہیں بگاڑ کو جنم دیتی ہے۔
لبرل ہوں یا بقول لبرلز کے مولوی دونوں گروہوں میں سے کوئی بھی بنیادی طور پر اپنی اساس سے واقف نہیں، اور اگر واقف ہو بھی تو اس سے نظریں چُراتا ہے، لبرلز مولوی حضرات کو شدت پسند بولتے ہیں جب کہ اُن کا یہ رویہ خود ایک طرح کی شدت پسندی ہے، ایک دوسرے کے نظریات کا احترام نہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ کے دونوں طرف کے لوگ اپنی سوچ کی بنیادی تعلیمات سے آگاہ نہیں ، ااچھے اخلاق، نظریات اور مذہب کا احترام دونوں طرف کی تعلیم کا بنیادی جز ہے۔
اُردو میں لبرل کے معنی آزاد خیال کے ہیں ، آزاد خیالی بذات خود اپنی جہت میں فطرت سے متصادم ہے کیوں کے فطرت کبھی بھی کہیں بھی آپ کو مکمل آزادی نہیں دیتی، پابندی فطرت کا حصہ ہے، اور اگر آپ اس پابندی کے خلاف جائیں گے تو جو بھی خمیازہ ہو وہ بھگتنا پڑتا ہے،یہ ہی وجہ ہے کہ مادر پدر آزادی دنیا کا کوئی بھی ازم یا مذہب نہیں دیتا، پابندی لازمی عائد کی جاتی ہے، لبرل ازم کہتا ہے آزادی رائے، مگر نفرت انگیز رائے کی اجازت نہیں، مذہب کہتا ہے، آزادی رائے کی اجازت ہے مگر کسی کی دل آذاری کی قطعی اجازت نہیں، کسی بھی نفرت انگیز نظریے کو فروغ دینا یا اُس کا حامی بن جاتا کسی بھی ازم یا مذہب کا خاصہ نہیں، ایک دوسرے کے عقیدے اور نظریات کا احترام معاشرے میں برادشت اور محبت کے عمل کو مہمیز کرتا ہے۔ انفرادی یا اجتماعی عمل سے کسی مذہب یا ازم کی پہچان نہیں کریں، آپ کا غلط عمل کسی بھی طرح ازم یا مذہب کی پہچان نہیں!
میں اپنے ارد گرد واضح طور پر لوگوں کو دو انتہائی سمتوں میں تقسیم ہوتا دیکھ رہا ہوں، دونوں طرف شدت ہے اور برداشت کی کمی حقائق کو جانے بغیر الزام لگانے کی جلدی اور مثال کو سمجھے بغیر مذاق اُڑانے کا جنون، بیرون ملک قیام کے دوران مجھے ایک سیمنار میں شرکت کا موقع ملا ، ڈاکٹر پروفیسر برن ہارڈ نکل ہارورڈ یونی ورسٹی میں فلسفہ کے اُستاد ہیں، زبان،اور رویہ اُن کی تحقیق کا خاص موضوع تھا، انہوں نے سیمنار میں ایک اہم نکتہ اُٹھایا، انہوں نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں نفرت یا تعصب زبان اور لوگوں کے برتاو کی بنیاد پر ہوتی ہے، یہ بھی ایک عنصر ہے، مگر اس سے کہیں زیادہ محبت یا نفرت کا تعلق لوگوں کے نظریات سے ہے لوگ کسی بھی ایک نظریے پر قائم رہ کر زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں اور اُسی نظریے کی بنیاد پر اردگرد کے لوگوں سے برتاو کرتے ہیں، اس برتاو میں اگر اعتدال ہے تو آسانی ہے مگر جیسے ہی اس میں شدت آتی ہے یہ آگے جا کر نفرت کے فروغ کا سبب بن جاتا ہے۔
پاکستان میں یہ ہی عنصر غالب ہے، دونوں سمت شدت ہے، بہت تھوڑے لوگ ہیں جو برادشت اور آزادی رائے کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے چلتے ہیں، سوشل میڈیا کو ہم محبت برادشت کے فروغ کے بجائے مذاق اُڑانے، اپنے نظریات دوسروں پر ٹھوسنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، مجھے اپنے اردگرد بہت کم لبرل اور عالم نظر آتے ہیں جن کے پاس محبت اور برداشت ہے، مختلف بلاگ سائٹ منظر عام پر آچکی ہیں، بد قسمتی سے ہر سائٹ کا ایک مسلک ایک بلاک ہے، پاکستان میں چند ہی بلاگ سائٹ مشہور ہیں اور یہ بھی بدقسمتی ہے کے اُن کے مدیران سے لے کر لکھنے والوں تک کی تحریر میں کہیں نہ کہیں شدت پسندی نظر آتی ہے، لفاظی سے مخالف کے پرخچے اُڑانے اور مذاق اُڑانے کی عادت، یا فتوی لگانے کی جلد بازی!
مشہور سے مشہور لبرل بھی اندر سے شدت پسند ہے اور نفرت کا داعی ہے، جب کے نام نہاد مولوی تو ہے ہی شدت پسند، ایسے میں صرف میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی معاشرے میں برداشت ، امن اور محبت کو فروغ دے سکتی ہے، ضرورت صرف اسے اختیار کرنے کی ہے!میانی روی جو آپ کو آزاد خیالی نہیں روشن خیالی کی طرف لے جاتی ہے، روشن خیالی جو ہر ازم اور مذہب کا بنیادی خاصہ ہے، روشن خیالی جو مثبت بھی ہے اور اپنے اوپر لگی اخلاقی پابندیوں کو قبول کرتی ہے!

Facebook Comments

منصور مانی
صحافی، کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply