مہم جوئی تھی شادی

مہم جوئی تھی شادی
صہیب جمال
جوانی میں دماغ کے حدود اربع میں جو چیز ۔ چیز تو نہیں کہیں کہ ۔۔۔ ہاں ! کیڑا ۔۔۔ جو کیڑا سب سے زیادہ جگہ گھیرتا ہے وہ عشق ہوتا ہے ۔۔ مگر ہماری جوانی تو جمعیت نے لے لی تھی ۔۔۔ تقویٰ کا کبھ نکل آیا تھا یا نکال دیا گیا تھا ۔۔۔ اب سوچیں جس نے منٹو کو پندرہ سال ایک سو سولہا سال کی عمر میں پڑھا ہو اور مولانا مودودی کی خلافت و ملوکیت پندرہ سال ایک سو انتیس دن میں پڑھی ہو ۔۔۔ وہ کس دوراہے پر ہوگا اور دونوں کو سرِ عام پڑھا کیونکہ اعتراض دونوں پر ہی ہوتا ہے لوگ کہتے ہیں ان کو پڑھو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے ۔۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں گم ہوئی راہ پر ایل ای ڈی لائٹ تھے۔
خیر جناب ۔۔۔ جب تک جمعیت میں رہے تو جو لڑکی کم شکل ہوتی اس کو ہم صرف بہن کہہ کر پکارتے اور جو ذرا خوبصورت ہوتی تو اس کو بہنا کہہ دیتے تھے ۔۔۔ بہنا میں چاہت بہت چھلکتی ہے ۔۔۔ اب جب جمعیت سے فراغت کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھا تو سارے چہرے یاد آتے ہیں اور اب کیا رہ گیا ۔۔۔ کفِ افسوس ۔۔۔ آہ ۔۔۔۔ کافی داستانیں جنم لے سکتی تھیں ۔۔
عملی زندگی میں آکر اب عشق برائے بیاہ ہی ہوتا ہے ۔۔۔ گھر میں بات ہوتی تھی کہ جناب کے لئے لڑکی ڈھونڈیں ۔۔۔ یہ بڑی بہنیں یہ بھابھیاں ان کو کماتا ہوا گھر میں صوفے پر پاؤں پسارے لڑکا اور فیلڈر سے کیچ گرنے پر شٹ شٹ کرتا جوان اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ شادیوں ، تقریبات میں پسلیوں پر کہنیاں مار مار کر ہر آتی جاتی لڑکیوں کی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔۔۔ ہماری پسلیوں پر اب بھی نیل کے نشان ہیں ۔۔۔ خود بھی بہت شوق تھا یہ بھی لڑکیاں تاکنے کا خاندانی اجازت نامہ ہوتا ہے ۔۔۔
بھونچال تو اس دن آیا جب پندرہ دفعہ کہنیاں کھانے کے باوجود ایک ایسی لڑکی پر نظر ٹک گئی جس پر کہنی نہیں ماری گئی تھی ۔۔۔ خود ہی بہن جی کی کہنی پکڑ کر مار لی تو وہ چونکیں اور کہا “کون ہے ۔۔ کون ہے ؟ “جس طرف ہم نے اشارا کیا ۔۔۔ اس کو دیکھ کر ہماری بہن بھیڑ میں گم ہوگئیں ۔۔۔ استفسار پر بتایا یہ پٹھان ہیں ۔۔
لو جی اب کیا اندر سے مہم جو طبیعت نے ٹھان لی ۔۔۔ جہاں سے سکندر اعظم ، برٹش ، رشیا اب امریکہ نامراد لوٹا ہے ہم اس خطے میں فتح کے جھنڈے گاڑ کر تاریخ میں نام لکھوائیں گے ۔۔
یہ تو طے تھا دیوار پھلانگ کر نہیں جانا ،جانا دروازے سے ہے ۔۔۔ خیر جناب گھر میں تو کوئی راضی نہیں تھا ۔۔۔ جنرل نیازی کی طرح سب نے ہتھیار ڈال دیئے ۔۔۔ ہم نے کہا چلو خود کچھ کرنا ہوگا ۔۔۔ اب معاملہ یہ تھا کہ محترمہ کے چھوٹے بھائی کو بھی پیغام رسانی کے لئے استعمال نہیں کرسکتے تھے ان کے یہاں تو وہ جو غیرت ہوتی ہے وہ شیرخوار میں بھی ہوتی ہے ۔۔۔ کیسا لگتا کہ ایک انتیس سال کا جوان آٹھ سال کے بچے کے ہاتھوں قتل ہوگیا ۔۔۔ بچہ تو کم عمری کی وجہ سے گرفتار بھی نہ ہوتا ہم مگر نہ ہوتے ۔۔۔ رب راستے بناتا ہے ۔۔۔ کراچی میں برسوں رہنے کی وجہ سے یہ لوگ اپنی روایات سے ذرا مختلف تھے ۔۔۔ بس ! یہ ہی کمزوری تھی ۔۔۔سامنے والے لشکر کی ذرا سی کمزوری دوسرے لشکر کو فتح کا موقع دیتی ہے ۔۔ محترمہ اپنے گھر میں بڑی ہونے کی وجہ سے محلے میں آتی جاتی تھیں ۔۔۔ ہمارے دوست کی بہن کا بھلا ہو کہ اس نے ہمارا سلام پہنچا ہی دیا ۔۔۔ جب سلامتی کا پیغام پہنچ جائے تو سخت سے سخت دل بھی نرم پڑجاتا ہے ۔۔۔ یوں سترہ اٹھارہ سلام پہنچاہی دیئے ۔۔۔ سلام کے ساتھ اپنی دعوتی صلاحیتوں کا استعمال بھی جاری رہا ۔۔۔ محترمہ کے والد محترم کو مسلسل رابطے میں رکھا ۔۔۔ ان کی پسند ناپسند پر زہر مار کر تبادلہ خیال کیا باہمی امور بلکہ انفرادی امور کی دلچسپی پر گفتگو جاری رکھی ۔۔۔ بور ترین فیلڈ ٹھیکیداری پر گھنٹوں باتیں کی ۔۔
یہ پہلی قسط ہے ۔۔۔ عشق ابھی انجام کو پہنچے گا ۔۔۔

Facebook Comments

صہیب جمال
جب کھیلنے کودنے کی عمر تھی تو رسالہ ساتھی کا ایڈیٹر بنادیا گیا ۔۔۔ اکیس سال کھیلنے کودنے کی عمر ہوتی ہے ۔۔۔ تھوڑے بڑے ہوئے تو اشتہارات کی دنیا نے اپنی طرف کھینچ لیا ۔۔۔ پھر تو لائیٹ کیمرہ ایکشن اور خاص کے حسیناؤں کے ایکشن نے ایسا گھیرا کہ اب تک ۔۔۔ کٹ ۔۔ کٹ ۔۔۔ اور پیک اپ سے نہ نکل سکے ۔۔۔ مگر قلم کا ساتھ نہیں چھوٹا ۔۔ ڈرامہ ، پولیٹیکل سٹائر ، نظمیں ، ترانے ، گانے ،نثری شاعری سب کی ریڑھ لگائی ۔۔۔ بچوں کی تحریریں لکھتے لکھتے ۔۔۔ بچوں کے لئے کمارہے ہیں ۔۔۔ شہر کراچی میں رہتے ہیں ہم ۔۔۔ جہاں لوگ کھل کر جیتے ہیں اگر کچھ دن جی لیے تو ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply