• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • مضر صحت دودھ،کوکنگ آئل و گھی فروخت کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے

مضر صحت دودھ،کوکنگ آئل و گھی فروخت کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے

مضر صحت دودھ،کوکنگ آئل و گھی فروخت کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا جائے
طاہر یاسین طاہر
یہ امر واقعی ہے کہ ہم دودھ،کوکنگ آئل ،مرچیں اور گھی سمیت کئی اشیائے ضروریہ خالص استعمال کرنے کے بجائے ملاوٹ شدہ استعمال کر رہے ہیں۔اس حوالے سے کئی شواہد میڈیا پہ شائع بھی ہوتے رہتے ہیں،جبکہ کئی ایک بیکری اور ہوٹل اس بنا پر سیل کر دیے جاتے ہیں کہ وہ مبینہ طور پر منتھلی پابندی سے نہیں پہنچاتے،وگرنہ بیکریوں میں بھی فروخت ہونے والی بیشتر چیزیں زائد المعیاد یا صحت کے بنیادی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔حال ہی میں افسوس نال خبریں اور فوٹیج بھی سامنے آئے کہ انسانوں کو گدھوں اور کتوں کا گوشت فروخت کیا جا رہا ہے۔ بالخصوص ہوٹلوں میں یا بڑی بڑی گوشت مارکیٹوں میں ایسا ہو رہا ہے۔
کہنے کو ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں،مگر عملاً ہمارا معاشرتی رویہ اسلام کے اخلاقی و آفاقی اصولوں سے یکسر متضاد ہے۔منافع کی ہوس اور غیر عادلانہ معاشی نطام نے بھی سماجی اخلاقیات کو تباہ کیا ہے۔لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ حکومتوں کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔ ترقی یافتہ ممالک کیپیٹل ازم کے بانی ہیں،وہاں بھی منافع کی ہوس موجود ہے۔معاشیات کی بہتری انسان کی اولین ضرورتوں میں سے ایک ہے۔لیکن اس کے لیے دوسروں کی جانوں سے کھیلنے کی کسی بھی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں دی سکتی۔بد قسمتی سے ہمارے ہاں باقاعدہ مافیاز ملاوٹ والا دودھ،کوکنگ آئل،گھی،حتیٰ ادویات تک مارکیٹ میں سپلائی کرتے اور منافع سمیٹتے چلے جا رہے ہیں اور یہی لوگ معاشرے کا عزت دار اور با وقار طبقہ بھی شمار کیا جا رہا ہے۔ریاستی مشینری اگر چاہے تو دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کو ہر چوک پر چیک کیا جا سکتا ہے۔
ایک شہر یا دیہات سے دوسرے بڑے شہر میں دودھ سپلائی کرنے والوں کو اگر تین سے چار جگہوں چیک کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کو روکا نہ جا سکے۔مگر چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے سبب دودھ فروش باقاعدہ قیمت طے کرتے ہیں۔ پانی ملا دودھ قدرے کم قیمت پہ اور ملاوٹ والا زیادہ قیمت پہ۔غالباً دودھ کی فروخت تین درجوں میں کی جا تی ہے۔خالص،کم پانی ملا،اور پانی ملا۔اعلانیہ ایسی جرات کا ایک ہی جواز ہے کہ احتساب کا ڈر نہیں۔کچھ دن پہلے کی خبر تھی کہ مضر صحت کیمیکل ملا دودھ لاہور کے قریب تلف کیا گیا۔اسی طرح دوسرے شہروں میں بھی ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جب منتھلی بر وقت نہ پہنچائی جائے تو ایسی کارروائی کی جاتی ہے۔بعض اوقات ایماندار افسران منتھلی کے بجائے ملزم پہ ہاتھ ڈالتے ہیں،ایماندار مگر کم ہیں۔
میڈیکل سٹورز پہ بھی غیر رجسٹرڈ فارما کمپنیوں کی ادویات کی ترسیل وسیل جاری ہے،اسی طرح سرخ مرچوں میں اینٹیں اور چائے میں سیاہ چنے کے چھلکے ملائے جانے کی افوہیں بھی گرم ہوتی رہتی ہیں۔الیکٹرانک میڈیا کی چھاپہ مار ٹیموں نے تو کئی مرتبہ کوکنگ آئل میں ملاوٹ کے مناظر بھی دکھائے۔ کچھ ایام سے کھلے و ڈبہ بند دودھ کو بھی غیر معیاری قرار دے کر عدالت عظمیٰ اس حوالے سے سخت ریمارکس دے چکی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے گذشتہ روز عدالت کی تسلی ہوجانے تک یوٹیلٹی اسٹورز میں گھی اور تیل کی فروخت روکنے کا حکم جاری کردیا۔عدالت کا کہنا تھا کہ کوالٹی کنٹرول کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد یوٹیلٹی اسٹورز کے گھی اور تیل کو تلف کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے غیر معیاری گھی اور تیل کی فروخت کے خلاف لیے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت یوٹیلٹی اسٹورز کے وکیل مصطفیٰ رمدے نے عدالت کے سامنے یوٹیلٹی اسٹورز پر موجود گھی اور تیل کی رپورٹ جمع کرائی۔جسٹس ثاقب نثار نے مصطفیٰ رمدے کو ہدایت کی کہ وہ عدالت کو زمینی حقائق سے آگاہ کریں اور رپورٹ میں شامل تھیوری کو نہ دہرایا جائے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنے اداروں پر بھروسہ ہے مگر انسانی حقوق کی خلاف ورزی برادشت نہیں کی جائے گی۔اس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے یوٹیلٹی اسٹورز کے وکیل سے استفسار کیا کہ اسٹورز پر غیرمعیاری مصنوعات کیوں فروخت کی جارہی ہیں اور سنی بناسپتی، انمول گھی، شمع تیل اور راج بناسپتی نامی برانڈز کہاں فروخت ہوتے ہیں؟جس پر مصطفیٰ رمدے نے جواب دیا کہ چھوٹے شہروں کے مقامی افراد ان برانڈز کے گھی اور تیل خریدنا پسند کرتے ہیں۔
عدالت نے حکم جاری کیا کہ ملک بھر میں فروخت ہونے والے تمام برانڈز کے گھی اور تیل کی کوالٹی رپورٹ 10 دن میں جمع کرائی جائے اور ساتھ ہی پاکستان میں ٹیسٹنگ لیبارٹریز کی موجودگی اور ان کی استطاعت کے بارے میں بھی رپورٹ پیش کی جائے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ایک ڈاکٹرز کے وفد نے دوران ملاقات انہیں بتایا کہ غیر معیاری گھی کا استعمال بچوں میں دل کے امراض میں اضافے کی وجہ ہے۔چیف جسٹس نے وکیل سے مزید استفسار کیا کہ کیا نمک کی قسم اجینوموتو انسانی صحت کے لیے شدید نقصان دہ ہے؟ اور کیا اس کے استعمال سے دل کے امراض اور بلڈ پریشر سمیت الرجی میں اضافہ ہوتا ہے؟ساتھ ہی انہوں نے پاکستان کوالٹی کنٹرول کو ہدایت دی کہ وہ اجینو موتو کی جانچ کرکے اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ جلد ہی ٹیٹراپیک، پلاسٹک پاؤچ اور پلاسٹک کی پانی کی بوتلوں پر بھی نوٹس لیں گے کیونکہ یہ پلاسٹک کی بوتلیں دھوپ میں پڑے رہنے پر مضرِصحت ہو جاتی ہیں۔
اہم سوال یہ ہے کہ اگر عدالت ِعظمیٰ از خود نوٹس نہ لے تو حکومت ایسے معاملات کو اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتی۔ہم سمجھتے ہیں کہ ملاوٹ شدہ اشیا فروخت اور ذخیرہ کرنے والوں نیز ان کے سہولت کاروں کو بھی کڑی سزا دی جائے۔یہ لوگ جو معاشرے میں بیماریاں اور مسائل تقسیم کر رہے ہیں کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ میڈیکل سٹورز پہ فروخت ہونے والی غیر رجسٹرڈ کمپنیوں کی ادوایات کے حوالے سے بھی نوٹس لیا جائے اور اتائی ڈاکٹروں اور ان کے پشت بانوں پر بھی قانون کی گرفت کو یقینی بنایا جائے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply