جبری گمشدگی اور نظریۂ ضرورت کا پائے چوبیں!

جبری گمشدگی اور نظریۂ ضرورت کا پائے چوبیں!
——————————–
محترم جناب رعایت اللہ فاروقی صاحب نے جبری گمشدگی کے موضوع پر میرے مضمون پر اپنی تفصیلی رائے کا اظہار کیا ہے اور اختلاف کے باوجود مجھے بہت ہی اچھے الفاظ میں یاد کیا ۔ میں خود کو ان الفاظ کا اہل نہیں سمجھتا۔ یہ ان کی محبت ہے۔ اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیر دے۔
تاہم مجھے کہنے دیجیے کہ ان کی پوسٹ کئی بار پڑھنے کے بعد بھی مجھے ان سے بالکل بھی اتفاق نہیں ہوسکا۔
پہلی بات یہ ہے کہ قانون کے طالب علم کی حیثیت سے میں کوئی موقف تبھی اپناتا ہوں جب پہلے میں ہر فریق کے دلائل سمجھوں، خود کو ان کی پوزیشن پر کھڑا کروں، ان کی نظر سے مسئلے کو دیکھوں، اور پھر فیصلہ کروں کہ کس حد تک کس فریق کی بات قبول کی جاسکتی ہے۔ قانون دانوں کے متعلق ویسے ہی تو نہیں کہا گیا کہ:
He is no lawyer who cannot take two sides!
اس بات کو عموما منفی سمجھا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ امام سرخسی کو پڑھنے والے جانتے ہیں کہ وہ پہلے مخالف فریق کا موقف تمام تر دلائل کے ساتھ یوں ذکر کرتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ اس موقف کے خلاف کیا دلیل ہوسکتی ہے؟ اس کے بعد وہ ایک ایک کرکے ایک ایک دلیل کا تیاپانچہ کرکے رکھ دیتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کہ کیوں یہ موقف ناقابل قبول ہے۔ استاد محترم نیازی صاحب نے ہماری تربیت اسی نہج پر کی ہے : کسی بھی مسئلے پر سوال در سوال در سوال ۔ اپنے طلبہ کو بھی میں قانون اسی طرح سکھاتا ہوں۔ ایک اسٹوڈنٹ کو ٹاسک دیا کہ دہشت گردی کے ملزموں پر تشدد کے جواز کے دلائل اکٹھے کردو۔ وہ حیران کہ تشدد کے خلاف دلائل کیوں نہیں؟ میں نے کہا وہ تو کوئی بھی لاسکتا ہے۔ پھر اسے بتایا کہ سب سے پہلے امریکہ کے شعبۂ انصاف کی دستاویزات کا جائزہ لو۔ البرٹو گونزالیز نے کیوں اور کیسے جنیوا معاہدات کو فرسودہ اور غیر متعلق قرار دیا تھا؟ تشدد کے کن طریقوں کو امریکی محکمۂ انصاف نے امریکی دستور اور حقوقِ انسانی کے معاہدات سے متصادم نہیں مانا؟ Torture Papers اس سے پڑھوائے ۔ پھر کئی امریکی ماہرینِ قانون کے مقالات اس سے پڑھوائے جس میں کتنے ہی خوش نما دلائل اکٹھے کیے گئے تھے جن کی رو سے ایسے لوگوں پر تشدد نہ صرف جائز بلکہ مستحسن نظر آنے لگتا تھا ۔ اس کے بعد ہی اسے کہا کہ اب ان دلائل کے جواب لے آؤ اور ثابت کردو کہ اس سب کچھ کے باوجود یہ تشدد قانون اور اخلاقیات کی رو سے ناجائز ہے ۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ کوئی پہلی دفعہ ایسا نہیں ہوا کہ کسی نے جبری گمشدگی کے جواز کے لیے نظریۂ ضرورت ، یا زیادہ مناسب الفاظ میں “اضطرار” کا سہارا لیا ہو ۔ یہی تو بنیادی ہتھیار ہے اور اسی کو ہم غلط قرار دیتے ہیں ۔ آپ امریکی نظریۂ ضرورت کی بات کرتے ہیں ۔ سوچنے کی بات ہے کہ آخر کیوں امریکیوں کو امریکا سے دور گوانتانامو کے جزیرے میں عقوبت خانہ بنانا پڑا ؟ پھر یہ بھی سوچیے کہ اس عقوبت خانے میں کسی امریکی قیدی کو کیوں نہیں رکھا جاسکا؟
اس موضوع پر اپنے تمام طلبہ کو میں امریکی سپریم کورٹ کے تین فیصلے پڑھنے کے لیے کہتا ہوں ۔ ایک یاسر حمدی بنام رمسفیلڈ جس میں مسئلہ امریکا کے خلاف لڑنے والے امریکی کا تھا جسے افغانستان میں گرفتار کیا گیا تھا ۔ دوسرا شفیق رسول بنام بش جس میں امریکہ کےبعض اتحادی ممالک کے باشندوں کی امریکا کے خلاف جنگ میں گرفتاری کا مسئلہ تھا ۔ یہ دونوں فیصلے 2004ء میں آئے اور ان کے بعد بش کو Combatant Status Review Tribunal بنانے پڑے جنکے ذریعے ایک ایک گرفتار شخص کی قانونی حیثیت کے تعین کے لیے الگ الگ فیصلے کرنے پڑے۔ تیسرا فیصلہ حمدان بنام رمسفیلڈ تھا جو 2006ء میں آیا۔ اس فیصلے میں ان لوگوں کے متعلق اصول طے کیے گئے جو القاعدہ کے ساتھ پوری طرح متعلق تھے اور اسامہ بن لادن کی بیعت بھی کرچکے تھے ۔ حمدان خود اسامہ بن لادن کا ڈرائیور اور باڈی گارڈ رہ چکا تھا ۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے بش کو صاف الفاظ میں بتادیا تھا کہ حالتِ جنگ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کو “خالی چیک” دے دیا گیا ہے ۔
نظریۂ ضرورت ہی تو ہر جابر قوت کا خصوصی ہتھیار رہا ہے ، خواہ وہ قوت ریاستی جبر کا استعمال کرنے والی ہو یا انھیں غیر ریاستی عناصر کہا جاتا ہو۔ دور کیوں جائیے؟ تحریکِ طالبان پاکستان ہو ، داعش ہو ، یا القاعدہ ، سب کی پہلی اور آخری دلیل کیا ہوتی ہے؟ شیخ یوسف القرضاوی نے فقہ الجہاد کے نام سے ڈیڑھ ہزار صفحات کی ضخیم کتاب لکھی جس میں انتہاپسندوں کے مختلف دلائل کی تفصیلی تردید کی ، اسلامی قانون کے قواعد و ضوابط نہایت تفصیل سے واضح کیے اور تمام اخلاقی پہلووں کو نمایاں کرکے سب کے سامنے رکھ دیا لیکن جب مسئلۂ فلسطین پر بحث کرنے آگئے تو جتنی قیود و حدود انھوں نے ایک ہزار صفحات میں ذکر کی تھیں ان سب کی نفی ایک ہی دلیل کے ذریعے کردی: کہ ہم یہاں اضطرار میں ہیں اور اس لیے یہ قیود و حدود غیر متعلق ہیں ! انھوں نے اس کے لیے “الجھاد الاضطراری” کی ترکیب بھی وضع کرلی ! قصہ ختم!
جہاد پر میں نے جو تفصیلی کتاب لکھی ہے اس میں ایک پورا باب اسی لیے اس بات کی وضاحت کے لیے لکھا کہ اضطرار کے نام پر ہر چیز جائز نہیں ہوسکتی بلکہ اضطرار کی بھی حدود اور قیود ہیں اور کچھ ناجائز کام اضطرار میں بھی بدستور ناجائز ہی رہتے ہیں ۔
اہم بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اضطرار یا نظریۂ ضرورت کا تعین کون کرتا ہے اور کس بنیاد پر کرتا ہے؟ اس کے لیے سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں بچتا کہ چند پارسا و پاک باز لوگوں کو معصوم عن الخطا مان لیا جائے اور ان کے ہر فیصلے پرآمنا و صدقنا کہا جائے اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ وحی کا سلسلہ رکنے کے بعد یہ پوزیشن میں نہ غیر ریاستی عناصر کے لیے مان سکتا ہوں ، نہ ہی ریاست کے کسی ادارے کے لیے ۔
فاروقی صاحب کا کہنا ہے کہ جب ان کے بھائی گمشدہ تھے تو اس اذیت کے وقت بھی اور اس کے بعد بھی ان کی اور ان کے بھائی کی رائے یہی رہی کہ جو ہوا صحیح ہوا ۔ میں کتنے ہی لوگوں کی مثالیں دے سکتا ہوں جن پر یہ اذیت گزری اور وہ کبھی یہ نہیں مان سکے کہ یہ صحیح تھا!
میں جبری گمشدگی کو پہلے بھی قانون اور اخلاق کے ہر اصول کی رو سے غلط سمجھتا تھا اور اب بھی ایسا ہی سمجھتا ہوں ۔ فاروقی صاحب کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اگر وہ اسے اب جائز سمجھتے ہیں تو پہلے بھی ان کا یہی موقف تھا ۔ مسئلہ ان لوگوں کا ہے جن کا موقف موسم کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فاروقی صاحب نے اپنے اس نظریۂ ضرورت کو آخر میں پاکستانی عدالتوں کے نظریۂ ضرورت سے مختلف قرار دیا ہے ؛ یعنی جب فوج اقتدار پر قبضہ کرلے اور سپریم کورٹ سے نظریۂ ضرورت کے تحت سندِ جواز لے تو سپریم کورٹ لعنت کی مستحق ٹھہرتی ہے لیکن جب فوج خود نظریۂ ضرورت کے تحت کسی کی گمشدگی کا فیصلہ کرلے تو اسے صحیح ماننا چاہیے! مرے کو مارنے سے کیا فائدہ ہے؟ سپریم کورٹ کے نظریۂ ضرورت پر تبرا بھیجنے والے تو ہر جگہ مل جائیں گے۔ اصل ضرورت “عسکری نظریۂ ضرورت ” پر تنقید کی ہے ۔

Facebook Comments

محمد مشتاق
قانون کے پروفیسر ہیں اور قانون اسلامی میں دسترس رکھتے ہیں۔ آپ اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بطور پروفیسر وابستہ ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply