پاکستانی ہی پاکستانی نہیں؟

ہم کم و بیش تیس لاکھ ہیں جو تعلیم، صحت، شناخت، ملازمت جیسی بنیادی ضروریات سے مستفید نہیں ہو پا رہے۔ ہم تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے، ہم ملازمتیں حاصل نہیں کر پا رہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ تیس لاکھ میں سے ایک میں بھی ہوں جو ان حالات کا شکار ہوں۔ پہلے یہ احساس نہیں تھا ،کیوں کہ کسی نے احساس دلایا ہی نہیں تھا۔ مگر اب شدت سے احساس دلایا بھی جا رہا ہے اور احساس ہو بھی رہا ہے۔ ہمیں وہ مانا نہیں جا رہا جو ہم ہیں، مگر ہم کو وہ مانا جا رہا ہے جو ہم نہیں ہیں۔ میری بہن اپنی تعلیم شناخت کے مسئلے کی وجہ سے جاری نہیں رکھ پائی۔ میرے جیسے ہزاروں نوجوان تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات کا شکار ہیں، روزگار حاصل کرنے میں مشکلات کا شکار ہیں۔ ایک انسانی المیہ ہے جو منتظر ہے۔ مگر ہمارے ارباب اختیار نہ تو اس جانب توجہ دے رہے ہیں نہ اس کو حل کرنے میں کسی قسم کی دلچسپی لے رہے ہیں۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے شاہدشاہ ،ان ہزاروں نوجوانوں میں شامل ہیں جو اپنی شناخت کے حوالے سے اپنوں کی بے مروتی کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ اپنوں کی بے مروتی اس لیے کہ یہ ان نوجوانوں میں شامل ہیں جنہوں نے بنگلہ دیشی وزیر اعظم حسینہ واجد کی بنگلہ دیش میں آکر بسنے کی پیش کش کے باوجود پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی ۔یہ ان ہزاروں لوگوں کی طرح سوچ رکھتے ہیں جو وطن ٹوٹنے کا دکھ نسل در نسل منتقل کر رہے ہیں، اور ان کے لیے 71ء کی تقسیم ایک ڈراؤنے خواب کی سی ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ اس ڈراؤنے خواب کو تعبیر مل گئی، اور مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ شاہد اپنے ہزاروں ساتھیوں سمیت آج شناخت کے مسئلے سے جنگ کر رہے ہیں۔ ان کا صرف قصور پاکستان سے محبت ہے۔ میں حیران ہوں اس نوجوان کی ہمت پہ جو اس سنگین ترین مسئلے کے باوجود نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ لکھنے جیسی مشکل صنف اپنائے ہوئے ہے۔ کہانیاں لکھتا ہے، کہانیوں میں اس کی شناخت کا دکھ واضح جھلکتا ہے۔ وہ احتجاج کی راہ پر ہے۔ پہلے پہل اس کے احتجاج کو واضح سمت نہ مل پائی مگر اب اس کے احتجاج کو میڈیا کے کسی نا کسی گوشے میں پذیرائی مل رہی ہے۔ اور یہ ایسا مسئلہ ہے کہ ہم سب کو اپنی اپنی جگہ اس کو اجاگر کرنا چاہیے۔ بنگلہ دیش میں پاکستان کی محبت میں پھانسی تک پہ جھول جانے والوں اور کراچی کے ان بنگالیوں میں کوئی فرق نہیں ان میں ایک قدر مشترک پاکستان سے محبت ہے۔ اغیار کس طرح ہمارے اہم لوگوں کو بھی راغب کر رہے ہیں(عدنان سمیع) اور ہم اپنوں سے ان کے یہاں قیام کی شناخت مانگ رہے ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ یہاں ملامنصور و شربت گلے کو شناخت مل جاتی ہے(بے شک مجرمانہ انداز میں )مگر ان لوگوں کو شناخت نہیں ملتی جو پاکستان کو اپنی رگوں میں بسا بیٹھے ہیں۔یہ اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جس سے نور الامین تعلق رکھتے تھے۔ جو تقسیم بنگال کے بعد یہاں آئے ،بنگالی تھے، اور اہم عہدے پر فائز ہوئے۔
ایک خبر نظر سے گزری کہ نریندر مودی نے پاکستان ، بنگلہ دیش ، نیپال، سری لنکا اور دیگر ایشیائی ریاستوں میں موجودہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے لیے شہریت کی فیس پندرہ ہزار سے کم کر کے ایک سو روپیہ کر دی ہے ۔ تا کہ دوسرے ممالک سے آنے والے ہندو مذہب کے افراد کو بھارت کی شہریت حاصل کرنے میں آسانی ہو اس کے علاوہ دیگر ممالک کے لوگوں کو بھارت کی شہریت کی طرف راغب کرنے لیے بھی مختلف اقدامات کرنے کی شنید ہے۔ اور دوسری طرف ہم ہیں جو اپنے ہم وطنوں کو ہی شناخت کی بھول بھلیوں میں الجھائے بیٹھے ہیں۔ اُن کے دل میں ہم یہ خیال مضبوط کرتے جا رہے ہیں کہ کیا اُن کا تقسیم بنگال کے وقت پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کہیں غلط تو نہیں تھا۔ ایم ایم عالم کی روح بھی کیا ہم سے سوال نہیں کرئے گی کہ میں نے تو اس وطن کے دفاع میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں رکھا تو آج میرے ہم نسل لوگوں کو شناخت کے مسائل کا سامنا کیوں کرنا پڑ رہا ہے۔ کیا قرارداد پاکستان پیش کرنے والے ایک بنگالی کی روح آج تڑپ نہیں رہی ہو گی کہ متحدہ پاکستان سے محبت کی ایسی سزا کیوں کہ اپنے دیس میں ہوتے ہوئے بھی بے وطن کیوں ہیں۔
وزارت داخلہ سے گذارش ہے کہ اس مسئلے کو اس لیے بھی سنجیدہ لیجیے کہ ایسا نہ ہو شناخت کے بغیر نوجوان نسل جرائم پیشہ افراد کے ہتھے چڑھ جائیں۔ اور وہ ان کو لبھا کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیں۔ کیوں کہ شاہد جیسا صبر و استقامت تمام نوجوانوں میں نہیں ہو سکتا کہ وہ محنت مزدوری تو کر لیں مگر پاکستان سے محبت نہ چھوڑیں۔ ہم بنگلہ دیش میں موجود ان پاکستان سے محبت کرنے والوں کو تو اپنا ہیرو مان رہے ہیں جو پاکستان کے نام پہ اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ مگر ہم ان زندوں کو کیوں بھلا بیٹھے ہیں جو پاکستان میں غربت کی چکی میں پس کر بھی پاکستان چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہم ان کے لیے کوئی ایسا نظام کیوں بنانے میں کوتاہی کر رہے ہیں جو اپنا سب کچھ پاکستان پہ لٹا چکے ہیں۔ یہ پاکستانی ہیں، ہمیشہ سے پاکستانی تھے، ان کو خدارا پاکستان سے محبت کرنے کی اتنی بڑی سزا نہ دیجیے ۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply