سمر کیمپ،ریاست کہاں ہے؟۔۔آصف محمود

گرمیوں میں ریاست یہ فیصلہ کرتی ہے موسم کی حدت بڑھ گئی ہے اس لیے بچوں اور اساتذہ کو چھٹیاں دے دی جائیں۔ اس فیصلے کے ساتھ ہی ریاست کے اندرموجود ریاست، بروئے کار آ جاتی ہے اور نجی سکولوں میں سمر کیمپ، شروع ہو جاتے ہیں۔ دن رات ٹوئٹر پر داد ِ شجاعت دینے والی ضلعی انتظامیہ بھی ایک کونے میں دہی کے ساتھ کلچہ کھانے بیٹھ جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی حکومت کی رٹ نام کی چیز پائی جاتی ہے یا حکومت اور اس کے احکامات کو جو، جب اور جہا ں چاہے کاغذ کا جہاز بنا کر پھونک سے اڑا دے۔ دو سوالات پر ہمیں غور کرنا چاہیے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ تعلیم کیا ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں بد قسمتی یہ ہے کہ فکری طور پر نا پختہ لوگوں نے رٹے لگا کر پاس ہو جانے اور سارا بچپن اور لڑ کپن نصاب کی کتابوں میں غرق کر دینے کو تعلیم کا نام دے رکھا ہے۔ چنانچہ اس فکر کے حاملین کے خیال میں گرمیوں کی چھٹیوں میں اگر بچے کی کمر نصابی سرگرمی سے دہری نہ کر دی جائے تو اس سے بچے کا تعلیمی نقصان ہو گا۔ اس سوچ میں خلوص کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا لیکن امر واقع یہ ہے کہ اللہ بعض لوگوں کو عقل کی جگہ بھی خلوص عطا فرما دیتا ہے۔ خلوص کی یہ دولت والدین کو مل جائے تو ان کی رائے میں گرمیوں میں سمر کیمپ سے اچھی کوئی چیز نہیں ہوتی اور یہ دولت سکول انتظامیہ کو میسر آ جائے تو پھر بچوں کو ملا نصیر الدین کے گدھے کی طرح نصاب کے ڈنڈے سے ہانکنا ہی علم و فکر کے حصول کا واحد رستہ قرار پاتا ہے۔ نیم خواندہ سماج میں بعض والدین چاہتے ہیں کہ بچہ کولہو کی بیل کی طرح جتا رہے اور سکول اس نفسیات کا استحصال کر کے اپنے کاروباری مفادات کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ سماج کی تہذیب کا بھاری پتھر اب کون اٹھائے، اہل مذہب سے لے کر اہل سیاست تک اور بازار سے لے کر تعلیم تک سبھی کے ہاں اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ اس سماج کی نیم خواندگی کا تاوان سود سمیت وصول کرنا ہے۔ تعلیم ایک مکمل پیکج ہے، جس میں ایک حصہ نصاب کا ہے۔ تعطیلات کو سود مندبنانے کے اور کئی طریقے ہیں۔ یہ بچے کے مسلمہ انسانی حقوق کا ابطال ہے کہ نجی سکول اپنے کاروباری مفادات کے لیے ان سے ان کا بچپن چھین لیں۔ گرمیوں کی تعطیلات غیر نصابی سرگرمیوں، شہروں سے گاؤں جانے، خاندان سے میل ملاپ، کھیل کود اور سیاحت تک کے بے شمار امکانات کا نام ہے۔ ان تعطیلات میں اپنے مشاہدے اور تجربے سے بھی بچہ سیکھتا ہے جو عملی زندگی میں اس کے کام آتا ہے۔ ان تعطیلات میں مناسب حد تک چھٹیوں کے کام کے عنوان سے بچوں کو نصابی سرگرمیاں دی جا سکتی ہیں لیکن یہ تو مکمل جہالت اور غیر انسانی رویہ ہے کہ سمر کیمپ کے نام پر بیگار کیمپُ کھول لیے جائیں۔ ہمارے ہاتھ کوئی چیز آ جائے ہم اس کا ایسا احمقانہ استعمال کرتے ہیں کہ الامان۔ کورونا کے دنوں میں آن لائن تعلیم کا نظام متعارف ہوا۔ ایمر جنسی تھی اور یہ ایک مناسب متبادل تھا۔ لیکن اب ایک نیا تماشا شروع ہو گیا ہے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں چھوٹی کلاسز کو آن لائن تعلیم پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ دوسری اور تیسری جماعت کے بچے روزانہ چار چار گھنٹے گیجٹ تھامے آن لائن لیکچر لے رہے ہوتے ہیں۔ کیا کسی کو احساس ہے کہ اس کے بچوں کی نظر اور اعصاب پر کیسے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟ آخر ایسی کون سی مجبوری آن پڑی ہے کہ معصوم بچے چار چار گھنٹے موبائل سکرینوں پر نظرین جما کر سکول انتظامیہ کے فکری افلاس کی سزا کاٹتے رہیں۔ جس سکول سے اتنا بھی نہ ہو سکے کہ وہ دوسری تیسری جماعت کے بچوں کو تعطیلات سے کچھ دن پہلے ہی معقول انداز سے سمر ٹاسک دے سکے اس سکول کی انتظامیہ کو پہلی فرصت میں کسی نفسیاتی معالج سے رجوع کرنا چاہیے۔ اب

Advertisements
julia rana solicitors

آئیے دوسرے سوال کی طرف۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی بھی ریاست میں طوائف الملوکی کیسے پھیلتی ہے؟ اس کا جواب ہم بہت دور جا کر تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جب کچھ بلائیں ریاست کی عمل داری کو چیلنج کرنے میدان میں اتر آتی ہیں۔ لیکن یہ بہت بعد کا مرحلہ ہے۔ اس کی ابتداء ایسے ہی چھوٹے چھوٹے واقعات سے ہوتی ہے جو بچوں کے لاشعور میں بیٹھ جاتے ہیں کہ ریاست کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بچے رات کو ٹی وی پر حکومتی اعلان پڑھ اور سن رہے ہوتے ہیں اور خوش ہورہے ہوتے ہیں کہ فلاں تاریخ سے گرمیوں کی تعطیلات ہو رہی ہیں اور ان تعطیلات میں سمر کیمپ کی اجازت نہیں ہو گی اور صبح وہ سکول سے آنے والا پیغام پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ پیارے بچو! حکومتی فیصلے کی ایسی تیسی، سمر کیمپ لگے گا اور اس کے اوقات کار یہ ہوں گے۔ سماجیات تو اس ملک میں کسی کا موضوع نہیں ورنہ اس کا مطالعہ ہونا چاہیے تھا کہ ایسے رویے بچوں کے لاشعور میں کیا بیٹھا رہے ہیں۔ یہی کہ ریاست کے فیصلوں کی حیثیت بس اتنی ہی ہوتی ہے کہ سن لیجیے اور بھول جائیے۔ یہی کہ سکول کی اپنی مرضی وہ حکومت کی بات مانے یا نہ مانے۔ اب ذرا غور کیجیے، بچے کے لاشعور میں کیا بات نقش ہو رہی ہے؟ کیا یہ ریاست کے اندر ریاست، کا تصور نہیں جو آپ بچوں کو عملا کر کے دکھا رہے ہیں۔ موبائل پر سب سے فضول میسجز ضلعی انتظامیہ کی طرف سے آتے ہیں۔ ایک آدھ بار کسی ضرورت سے رابطہ کر لیجیے، اس کے بعد آپ کے واٹس ایپ نمبر کو امان نہیں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر کو چھینک بھی آئے گی تو اسسٹنٹ کمشنر صاحب آپ کو واٹس ایپ کر دیں گے کہ آج ساری ضلعی انتظامیہ ڈی سی صاحب کے ویژن کے مطابق چھینکتی رہی۔ کسی غریب مرغی فروش کو پکڑ لیں گے، کسی ٹماٹرا ور تھوم بیچنے والے کی ریڑھی کو قبضے میں لے لیں گے اور اس طرح کی فتوحات آپ سے باتصویر شیئر کی جائیں گی کہ ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے کمالات فرما دیے ہیں۔ آپ بھی دیکھ لیجیے۔ لیکن نجی سکولوں کے سمر کیمپ کی واردات پر آپ اسی ضلعی انتظامیہ سے بات کرنا چاہیں تو وہ ایسے لاتعلق ہو جاتے ہیں جیسے کوئی گونگا اندھا اور بہرہ ہو جائے۔ کل سے ٹوئٹر پر لوگ اپنے اپنے شہروں کے لاٹ صاحب کو لوگ عرضیاں بھیج رہے ہیں کہ جناب حکومت کی واضح ہدایت کے باوجود سمر کیمپ کیسے لگائے گئے ہیں اور آپ کہاں ہیں۔ لیکن وہاں قبرستانوں جیسی خاموشی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب، وزیر تعلیم اور دیگر تمام صاحبان اختیار سے سوال ہے کہ حکومت اگر اپنے فیصلوں پر عمل نہیں کروا سکتی تو فیصلے کیے ہی کیوں جاتے ہیں؟ اور اگر فیصلے کر ہی لیے جاتے ہیں تو ان پر عمل درآمد کیوں نہیں کروایا جاتا؟ ضلعی انتظامیہ کا کام کیا صرف کمشنر سرگودھا کی طرح 104 کنال کے سرکاری محل میں زندگی اور اختیارات سے لطف اندوز ہونا ہے یا اس کی کوئی ذمہ داریاں بھی ہیں؟

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply