بدصورتوں کی یونین

آخرکار سکول کے بد صورت لڑکوں نے انجمن بنانے کا فیصلہ کر لیا. اب وہ اس کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف ہو گئے جس میں انہوں نے باقی لڑکوں کے سامنے اپنے مقاصد رکھنے تھے.
انہوں نے ایک بری سی شکل والے لڑکے جو شاید سب سے عقلمند تھا کو منشور لکھنے کا کہا جس کے خطوط پر انجمن بدصورتاں کی بنیاد کھڑی کی جانی تھی.
انہوں نے ایک میلے سے لڑکے کو صدر بننے کی پیشکش کی جسے اس نے ''سقراط'' کہلوائے جانے کی شرط سے قبول کر لیا. ایک اور لڑکے کو جو نہ نہانے کی وجہ سے مشہور تھا اور جس کے پاس سے عجیب سی بو آتی رہتی تھی کو اطلاعات کی ذمہ داری دے دی جسے بنا کسی عذر قبول کر لیا گیا.
ایک بری لکھائی والا سیکرٹری جنرل کے لئے چنا گیا جو کاغذ پہ ایسا گند مچاتا کہ کوئی بھی اسکی شکل اور تحریر کے متعلق فیصلہ نہ کر سکتا کہ ان میں زیادہ برا کیا ہے.
اس طرح یہ خفیہ میٹنگ برخاست ہوئی. پہلی دفعہ ان میں سے ہر کسی کو دوسرا ان سے زیادہ بدصورت لگا اور پہلی بار انہیں اس سے حسد ہوا کہ وہ اتنا بدصورت کیوں نہیں جتنا دوسرا ہے.
آنے والے دنوں تک سکول کے سب بری شکل والوں کے پاس وہ پمفلٹ پہنچا دیے گئے.
یہ پیلے رنگ کے پمفلٹ تھے جن پر وکٹر ہیوگو کے"کواسمودو" کی تصویر چھپی تھی. شروع میں سب پریشان ہوئے کہ کیا کسی نے "کواسمودو" کو دیکھا بھی ہوا ہے لیکن جلد ہی پملفٹ کے اوپر لکھے منشور نے انکی توجہ اپنی طرف موڑ لی.
یہ کافی مشکل تحریر تھی جسے جابجا کاٹا اور لکھا گیا تھا اور ایسے ہی اسکی فوٹو کاپیاں کروا کر بانٹ دی گئیں. تین چار ایسے لڑکے جن کے باپ میڈیکل سٹور چلاتے تھے کو انہیں پڑھ کر سنانے کا کہا گیا.
اس منشور کے چند نکات جو بعد میں گم ہونے سے محفوظ رہے کو دوبارہ پڑھا گیا تو جو سمجھ آئے یا یاد رہ گئے یہ تھے.
1. انجمن کے ہر فرد کے لئے لازمی ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو دوسرے سے بدصورت سمجھے گا اور اس پہ باقاعدہ فخر کرے گا.
2. ہر فرد جو کسی بھی شعبہ میں بہتر ہوگا, دوسروں پہ لازم ہوگا کہ اس کام میں اس کیساتھ شریک ہوں خواہ اسکی نوعیت جیب تراشی سے لیکر کھیل کے میدان میں جگہ بنانے تک کیوں نہ ہو
3. کوئی فرد کسی استاد کی خوشامد کی خاطر اکیڈمی نہیں جائے گا اور نہ کسی پی ٹی ماسٹر کو جواب دیا جائے گا.
4. کوئی فرد کسی خوبصورت لڑکے کے کام نہیں آئے گا جب تک کہ اس منشور میں ایسی کوئی ترمیم نہ کر دی جائے.
5. انجمن میں شامل نہ ہونے یا چھوڑ جانے والے سے مکمل قطع تعلق کر لیا جائے گا.
اور یوں سب کے اتفاق رائے سے اس تنظیم کا دفتری انعقاد وقوع پزیر ہوا. جس کےبعد سب نے گھروں سے لائے ہوئے سالن کو آپس میں بانٹا, لیکن ہر کسی نے روٹیاں اپنی لائی ہوئی کھائیں کہ بعض لوگوں نے مختلف اقسام کی گندم اگائی تھی اور ہر کسی کو اپنے کھانے کی عادت لگ چکی تھی.
اگلے سوموار انجمن نے کام شروع کر دیا. جس کا پہلا مظاہرہ طلبا نے اکیڈمی سے مکمل بائیکاٹ کی شکل میں کیا. اگلے دن انہوں نے باسکٹ بال کی ٹیم سے تمام خوبصورت لڑکے نکال دیے.
اس سے اگلے دن انہوں نے اساتذہ کو جن کا انکے ساتھ رویہ اکیڈمی کی وجہ سے خراب ہو گیا تھا سے درشت لہجہ میں بات کرنی شروع کر دی کہ وہ انہیں اچھے سے نہیں پڑھا رہے اور اگر یہ سلسلہ ایسے ہی چلا تو وہ احتجاج کو وسیع کر سکتے ہیں جن میں سے پہلا کام انکے بچوں سے قطع تعلق اور پھر مظاہرہ ہوگا.
اساتذہ نے بھی ہنگامی اجلاس بلا لیا کہ اس مصیبت سے کیسے نمٹا جائے. اس دوران مختلف تجاویز دی گئیں لیکن بالآخر پی ٹی ماسٹر کی تجویز کو مان لیا گیا.
اگلے چند روز ایسے ہی گزر گئے اور کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا. مگر پھر ایک دن انہوں نے خوبصورت لڑکوں کو اکٹھے کھاتے پیتے اور سینما جاتے دیکھا. انہوں نے ایک دوسرے سے فلموں کے بارے باتیں کی اور دوسرے سکولوں کے طلبا کے بارے بھی. انہوں نے انہیں لڑتے ہوئے دیکھا اور ایک دوسرے کے بوسے لیتے ہوئے بھی. اس میں کچھ بھی بناوٹ نہیں تھی اور پہلی دفعہ انہیں محسوس ہوا کہ انجمن غلامی کی ایسی زنجیریں ہیں جو انہیں بھاگنے سے روکتی نہیں آگے بڑھنے دیتی ہیں اور کھینچ کر اوندھے منہ گرا دیتی ہیں.
اب انجمن کے اجلاسوں میں تلخی بڑھنے لگی تھی. حالانکہ اس عرصہ میں انہوں نے کئی مقابلے جیتے اور مشکل سوالوں کی مشقیں حل کیں. لیکن یہ سب بناوٹی تھا. جس کا کرنا ان کی ذمہ داری بن چکا تھا.
اب یہ انجمن آزاد جیل بن چکی تھی جس میں جانے کیلئے انہوں نے باقاعدہ حلف نامے تیار کروائے اور اپنی وفاداریوں کے پیماں باندھے. انہیں اپنی بحث کسی طوطے کی رٹی باتیں محسوس ہونے لگیں اور انکی جیت اکیلے آدمی کی اپنے آپ کو ہرا کر جیتنے والے شخص کی مانند لگنے لگی.
آخری دن پھر انجمن دفتر میں کھانے کا انتظام کیا گیا. کھانا شروع ہوا مگر روٹیاں بدل چکی تھیں. ہر کسی نے روٹیاں پھینکیں اور پوسٹر پھٹنے شروع ہو گئے.

Facebook Comments

جنید عاصم
جنید میٹرو رائٹر ہے جس کی کہانیاں میٹرو کے انتظار میں سوچی اور میٹرو کے اندر لکھی جاتی ہیں۔ لاہور میں رہتا ہے اور کسی بھی راوین کی طرح گورنمنٹ کالج لاہور کی محبت (تعصب ) میں مبتلا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply