گورو نانک دیو ایک کردار ایک تاریخ۔سائرہ ممتاز

اک اونکار سَتِ نام، کرتا پرکھ، نِر بھَو، نِرویر – اکال مورتِ ، اجونی، سے بھنگ، گُر پرساد۔
صرف ایک خدا کا وجود ہے جو حقیقتاً خالق ہے، وہ خوف اور نفرت سے عاری ہے، وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا اور لافانی ہے، وہ بذات خود قائم، عظیم اور رحیم ہے۔

شری گرنتھ صاحب کی جلد اول، جپ جی کا پہلا شعر

انسانیت کی تاریخ کا محفوظ حصہ وہی ہے جس میں عالمگیر صداقتوں کی تلقین کرنے والے خدائی پیشواؤں کی زندگی کے حالات درج ہیں. یہ لمحات اور یہ صفحات اس لیے بھی اہم ہیں کہ یہ نیکی اور سچائی کے قانون کی تصدیق اور ترجمانی کرتے ہیں. پندرہویں صدی کا ہندوستان بھی ایسے لمحات اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے جن سے انسان دوست اور حساس شخصیتوں کا ان درد و کرب اور بحران کے لمحات میں پایا جانا ایک خدائی تحفہ ہے. اسی صدی میں جب ہندوستان میں دو نہایت طاقتور اور بعض معنوں میں متضاد تہذیبی قوتیں ہندو دھرم اور اسلام مرکزی حیثیت رکھتے تھے. ایسی ہستی کا ظہور ہوا جس کی معیت میں ان دو قوتوں کے درمیان افہام و تفہیم کی راہ پیدا ہونا شروع ہوئی. اس صدی میں لاہور کے چالیس میل جنوب مغرب میں ایک. چھوٹے سے گاؤں رائے بلار کی تلونڈی میں ایسی  شخصیت نے جنم لیا جن کے بارے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو کہنا پڑا..
پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اک. مرد کامل نے جگایا خواب سے
بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا
نورِ ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا

کلیان چند کے خاندان میں 15 اپریل 1429 کو علی الصباح پیدا ہونے والے لڑکے کو بعد میں آنے والی نسلیں انسانیت کے عظیم ترین رہنماؤں میں شمار کرتی ہیں. گورو نانک دیو کے بارے میں معلومات بظاہر وافر اور سہل الحصول  معلوم  ہوتی ہیں ان کی شخصیت کے بارے میں واقعاتی خط و خال خاصے متعین ہیں زمانے کے اعتبار سے دنیا کے عظیم مذہبی رہنماؤں میں وہ سب سے زیادہ ہمارے دور لے نزدیک ہیں. ان کا زمانہ پانچ صدی سے زیادہ پہلے کا نہیں ہے. ان کی زندگی اور تعلیمات دونوں تاریخ کی نظروں کے سامنے ہیں.

انہوں نے جو مذہبی رہنماؤں کا سلسلہ شروع کیا اس سے نو جانشین ہوئے جس کی بنا پر ان کا نام اور تعلیمات کا تسلسل 1807 تک یعنی اٹھارہویں صدی کی ابتداء تک پہنچ جاتا ہے. جن دسویں اور آخری گورو گو بند سنگھ کا انتقال ہوا. ان سے گورو نانک کے جا نشینوں کا سلسلہ ختم  ہوا اور ان کی وراثت کتاب مقدس (گورو گرنتھ صاحب) کے سپرد کی گئی . ان کے ماننے والے سکھ کہلائے اور وہ گورو نانک کی ابدیت پر نہایت درجہ مستحکم اور وفادارنہ اعتقاد رکھتے ہیں.

پورے شمالی ہند کے لوگوں کے شعور اور احساس میں سب سے زیادہ حلیم اور امن دوست رہنما کی حیثیت سے ان کی تصویر بڑی محبت کے ساتھ محفوظ ہے. گیتوں اور کہانیوں میں اس کے چرچے ہیں. ان کی اپنی شاعری اسی شکل میں ہم تک پہنچی ہے جس شکل میں ان کے لبوں سے ادا کی گئی تھی. اس کی مخصوص رمزیت اور امیری ان کی روح کی گہرائیوں میں ڈھلی اور اس کے اوزان اور موسیقی ان کے ہونٹوں نے مرتب کئے. کتاب مقدس میں ان کے نو سو سے زیادہ شبد موجود ہیں.

میلہ بابا گورو نانک دیو ، گورو پرب!

ہر سال کی طرح اس سال بھی بابا گورو نانک دیو کا 549 واں جنم دن مکمل جوش و جذبے اور مذہبی عقیدت و احترام سے منایا گیا. یوں تو بابا جی کا جنم دن پندرہ اپریل ہی لکھا جاتا ہے تاہم گورو نانک دیو کی پیدائش کی ایک اور تاریخ جو اسی تاریخ کے ساتھ مروج ہے، کاتک کے مہینے (وسط اکتوبر تا وسط نومبر) کی پورنماشی (یعنی چاند کی چودہ تاریخ کی رات) ہے. اور بابا گورو نانک کی سالگرہ اسی تاریخ کو منائی جاتی ہے. یہ تاریخ بعد کی جنم ساکھیوں سے حاصل کی گئی  ہے. جن میں ” بھائی بالا کی جنم ساکھی” بھی شامل ہے. پراتن اور مہربان جیسی جنم ساکھیوں میں اپریل ہی کی تاریخ دی گئی  ہے. بھائی منی سنگھ کی جنم ساکھی اور مہیما پرکاش میں بھی یہی تاریخ ہے. سنتوکھ سنگھ کی “نانک پرکاش” میں گو کاتک پورنماشی کی تاریخ دی گئ ہے مگر وفات کے وقت ان کی عمر 70 برس 5 ماہ اور سات دن بتائی گئی  ہے جس کا حساب لگانے سے ان کی تاریخ پیدائش اپریل ہی میں قرار پاتی ہے. کرم سنگھ نے اپنی کتاب “کاتک کہ بیساکھ” نامی کتاب مطبوعہ 1912 میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کی ہے اس وقت تک گورو نانک پر سبھی کتابیں بیساکھ یا اپریل کی تاریخ کو ہی مستند مانتی آئی ہیں. یوں کاتک کے مہینے میں بابا جی کا یوم پیدائش منانے کی رسم کس طرح شروع ہوئی یہ تاحال نامعلوم لیکن ہنوز جاری ہے.

میلے کی تقریب کا احوال!

بابا نانک دیو کا گرپرب یا جنم دن کا میلہ نومبر کی یکم سے چار تاریخ تک منایا گیا البتہ اس کے لیے تیاری کا آغاز کئی  ماہ پہلے سے ہی شروع کر دیا گیا تھا گوردوارہ جنم استھان کے رنگ و روغن اور سجاوٹ کے لیے محکمہ اوقاف کے علاوہ سکھ کمیونٹی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی طرف سے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا گیا . گوردوارہ جنم استھان کی انتظامیہ کے مطابق اس مرتبہ بھی نذرانوں اور چیرٹی کی مد میں پاکستان کے علاوہ بھارت اور امریکہ. کینیڈا و برطانیہ میں مقیم سکھ برادری کی طرف سے لاکھوں روپے دیے گئے جن سے گوردوارہ کی عمارت میں تعمیر و توسیع کا کام. بخوبی انجام پایا اور عمارت کے مخصوص طرز تعمیر کے لیے کاریگر انڈیا ہی سے بلوائے گئے تھے جنہوں نے دربار صاحب کی طرز پر عمارت کی تزئین و تعمیر کی. گوردوارہ صاحب کی عمارت خوبصورت سفید رنگ سے پینٹ کی گئی ہے جس کے گنبدوں پر خالص سونے کے کلس بھی لگائے گئے ہیں. میلے کی وجہ سے گوردوارہ جنم استھان کو دلفریب گلدستوں اور پھولوں سے سجایا گیا جس سے عمارت کی دلکشی میں دوگنا اضافہ نظر آ رہا تھا. نگر کیرتن کے لیے ننکانہ صاحب جنم استھان گوردوارہ سے گوردوارہ کھیرا صاحب تک جلوس کے گزرنے کے راستے پر سرخ قالین ایک مسلمان عقیدت مند کی جانب سے ہدیہ کیا گیا جس کی قیمت اسی لاکھ بتائی جاتی ہے. اسی طرح میلے میں طرح طرح کی دکانیں اسٹال لگائے گئے جن میں غیر ملکی یاتریوں کی مکمل دلچسپی کا سامان موجود تھا. گوردوارہ کی انتظامیہ. کی جانب سے ہر سال فری میڈیکل کیمپ بھی گرپرب کے دنوں میں لگایا جاتا ہے.


سکیورٹی انتظامات!

اس سال جنم دن کی تقریبات کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کے لیے ڈیڑھ ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کیے گئے تھے جن میں ایک ایس پی، پانچ ڈی ایس پی، سترہ انسپکٹر، ایک. سو پانچ اسسٹنٹ سب انسپکٹر، ایک سو اکتالیس ہیڈ کانسٹیبل، ایک ہزار ایک سو چھیالیس کانسٹیبل، اکتیس لیڈی کانسٹیبل اور ایک سو سکھ رضاکار شامل تھے تمام گوردواروں اور اہم مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے بھی لگائے گئے. جبکہ محکمہ سول ڈیفینس اور پولیس کا عملہ گوردواروں کے روٹ پر چلنے والی گاڑیوں کو چیک کرتا رہا

لنگر کی تقسیم اور انتظامات!
سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک دیو جی کے پانچ سو انچاسویں جنم دن کے موقع پر امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور بھارت سمیت پاکستان بھر سے تقریباً تیس ہزار سکھ یاتری ننکانہ صاحب پہنچے، دو سے چار نومبر تک جاری رہنے والی تقریبات میں اندرون و بیرون ملک سے آنے والے سکھ یاتریوں کی خاطر تواضع کے لیے مقامی سکھ برادری کی جانب سے ہر قسم کی موسمی سبزیاں مفت فراہم کی جاتی ہیں. اور تین دن تک چوبیس گھنٹے بلا تعطل لنگر دیا جاتا ہے. جس کے لیے ایک کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے.یہ فنڈ مقامی سکھ برادری سارا سال ماہانہ بنیادوں پر اکٹھا کرتی ہے. گوردوارہ کے اندر لاتعداد رہائشی کمرے اور ہال بھی تعمیر کیے گئے ہیں جن میں رہائش مفت فراہم کی جاتی ہے اور اس کے لیے کسی قسم کا. نذرانہ یا فیس وصول نہیں کی جاتی. آل پاکستان گوردوارہ پر بندھک کمیٹی کے چیئرمین سردار تارا سنگھ کے مطابق بابا گورو نانک کے جنم دن کے لیے مقامی سکھ برادری کی جانب سے تین ماہ پہلے تیاری شروع کر دی جاتی ہے. لنگر خانے میں دو سو سے زائد رضاکار تین شفٹوں میں بلامعاوضہ کام کرتے ہیں.

بابا گورو نانک دیو کی تعلیمات ، پس منظر اور ان کی زندگی پر صوفیاء کے اثرات!
سکھ مت کے بانی گورو نانک کی مذہبی شاعری خدا کے تصور اور انسان کے فرائض کے بارے میں ہے. خود ان کی اپنی شخصیت کے بارے میں نہیں ہے. اس میں معاصرانہ واقعات یا ذاتی زندگی کے بارے اپنے تجربات کے حوالے تلاش کرنا بے کار ہے. جن سے ان کے معتقدات کی تشکیل ہوئی ہوگی بلکہ یہ تو ان کی شاعری کے مزاج کے عین برعکس ہوتا. ان کا کہنا ہے کہ ” جس طرح خدا نے اپنا کلام بھیجا میں نے اسی شکل میں اسے ادا کردیا”. وہ ایسے گورو ہیں جو سچائی کی روشنی پھیلاتے ہیں اور اب کے ذریعے حق کی تبلیغ اپنے ماننے والوں تک پہنچائی گئ وہ اکال پرکھ کے (واحد ذات، حق تعالٰی) بھگت ہیں. حقیقت یا روح مطلق کا تذکرہ اور انسانی وجود کی اس عرفان کے ذریعے تکمیل ہی سکھوں کی مقدس کتاب کا موضوع ہے جس میں صرف گورو نانک کی تخلیقات ہی نہیں بلکہ پانچ دوسرے گورو صاحبان اور عہد وسطی کے ہندوستان کے بعض ہندو بھگت اور مسلمان صوفیاء کی تخلیقات بھی ہیں.

گورو نانک کے حالات سب سے پہلے “جنم ساکھیوں” کے نام سے لکھے گئے. یہ صنف سولہویں صدی کے آخر یا سترہویں صدی کے شروع میں مقبول ہونے لگی. ان کی زندگی کے بارے جنم ساکھیاں ہی معلومات کا ذریعہ ہیں. گورو نانک کے اپنے اقوال اور تعلیمات کے پس منظر کی توثیق مذہبی روایات کی مدد سے کی جا سکتی ہے مگر ان سے علمی حقائق سامنے نہیں آئیں گے. گورو نانک کی جنم ساکھیوں سے یہ تو معلوم ہو سکتا ہے کہ گورو نانک کے پیروکاروں نے گورو نانک کے پیغام کو کسی مخصوص عہد میں کس طرح سمجھا. مگر یہ تحریریں جنم ساکھیوں کے فراہم کردہ تاریخی چوکٹھے سے اوپر نہیں اٹھ سکی ہیں. گورو صاحب کے نام سے منسوب مختلف جگہوں پر رائج مقامی روایات کو گورو نانک کی تحریروں سے متاثر مذہبی زندگی کے مختلف طور طریقوں کی نشانی دہی تو کرتی ہیں مگر معتبر اور مستند اطلاعات نہیں پہنچاتیں.

عہد وسطی کے ہندوستان میں دو متضاد تہذیبوں کے متوازی چشموں کے درمیان باہمی اختلاط کے مقامات کم تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ جب اس قسم  کی صورتیں پیدا ہوئیں تو وہ محض سطحی اور معمولی تھیں. باہمی لین دین اور مراعات کے نقوش مکمل طور پر ناپید تو نہیں تھے البتہ تہذیبی، سماجی اور مذہبی شعبوں میں ہونے والی نشوونما ایک نئے تہذیبی سنگم کی طرف اشارہ کرتی ہے. خانہ بدوش قبیلوں اور وسط ایشیا اور مغربی علاقوں سے حملہ آوروں کے جو لشکر پے بہ پے ہندوستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے تھے وہ غیر محسوس طریقے پر ہندو سماج میں ضم ہو چکے تھے. شاید ہی دنیا کے کسی حصہ میں اتنی مختلف نسلیں  اور تہذیبیں مل کر ایک ہوئی ہوں جتنی شمالی ہندوستان میں ایرانی، یونانی، پرتھی، سیتھین، کشان اور ہن سب کے سب ایک نا ختم ہونے والے سلسلہ میں ہندوستان آئے. انہوں نے عارضی طور پر ہلچل پیدا کی مگر آخرکار یہ سب ایک ہی منظر کا جزو بن کر رہ گئے. انتہا یہ  کہ  یونانی بھی جو ایک واضح اور بعض حیثیتوں سے برتر تہذیب لے کر آئے تھے اس ناگزیر عمل سے نہ بچ سکے. ہندو مت کے فلسفیانہ مزاج پر انسان دوستی اور حسن اور فن کے یونانی تصورات اثر انداز نا ہوسکے.

مسلمان اپنے ساتھ ایک نئے مذہبی عقیدے کا جوش لے کر آئے اور یہ  نقطہ ء نظر بعض بنیادی معاملات میں ہندوؤں سے قطعی مختلف تھا. ان کے زمانے میں ہندو مت دیوتاؤں کی کثرت، مورتی پوجا، اور ترک دنیا کی طرف مائل تھا جب کہ اسلام وحدت خداوندی، بت شکنی اور عملی و سماجی زندگی پر زور دیتا تھا. سولہویں صدی میں بابر سے لے کر شاہجہاں اور پھر آخری مغل بادشاہ ظفر تک ہندوستان نے پے بہ پے مختلف تاریخی سماجی، شخصیاتی، معاشرتی اور مذہبی شکست و ریخت کا سامنا کیا. اس دوران مختلف تہذیبوں کے تصادم اور میل  جول سے زبانوں کے  آمیزے نے جنم لیا تصوف کو فروغ بھی حاصل  ہوا اور اس کے خلاف مختلف تحاریک بھی چلائی گئیں موسیقی کے شعبے میں ہندو مسلم اختلاط کا امتزاج عمل میں آیا اور اس میں بھی مسلمانوں نے اوج و کمال حاصل کیا.

قوالی اور سماع کی اہمیت اجاگر ہوتی رہی اور ہندو مسلم اختلاط پڑھتا رہا. بھگتی تحریکوں کو شہرت حاصل ہوئی اور ہندومت پر اس کا گہرا اثر پڑتا رہا یوں کئی  ہندو بھگت وحدت الوجود کے قائل  ہوئے انہوں نے وحدانیت کے درس دیئے اور عبادت فی الذات و فی الصفات میں شرک کی ممانعت کی. انہی حالات میں بابا گورو نانک دیو کا جنم بھی ہوا اور انہی حالات میں ان کی وفات بھی ہوئی. اجودھن چشتیہ سلسلے کے بزرگ خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکر رحمت اللہ علیہ کی تعلیمات کا بابا گورو نانک دیو پر انتہائی اثر ہوا کیونکہ بابا گورو نانک شیخ فرید الدین عطار کی پندرہویں پشت میں ان کے ایک پوتے شیخ ابراہیم فرید چشتی کے مرید ہوئے. اور مسلمان صوفیاء کا بابا نانک دیو کی زندگی ہر گہرا اثر ہوا.

ڈاکٹر تارا چند نے اپنی کتاب میں influence of Islam on hindu culture میں لکھا ہے کہ گورو نانک جو سکھ مذہب کے بانی ہیں 1429 میں پیدا ہوئے ان کی ہمشیرہ کے خاوند کا نام جے رام تھا جو نواب دولت خان لودھی کا ملازم تھا. نواب دولت خان سلطان بہلول لودھی کا رشتہ دار تھا. ہمشیرہ  نے نانک کو بلا کر نواب دولت خان کے ہاں مال زکوٰۃ کا منشی تعینات کرایا. تیس سال کی عمر میں انہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور گھر بار چھوڑ کر فقیری اختیار کر لی. گورو نانک نے ہندوستان، لنکا، ایران اور عرب کے چار سفر کئے اور چالیس سال تک ان ممالک کے مقدس مقامات کی زیارت میں مشغول رہے. شیخ شرف الدین بو علی قلندر پانی پتی کے آستانہ پر وہ ایک مدت رہے. علاوہ ازیں وہ مشائخ ملتان کی صحبت میں بھی رہے. نانک دیو کا مشن ہندو اور مسلمانوں کو ایک کرنا تھا. صوفیائے اسلام کی صحبت میں رہ کر انہوں نے ہندو عقائد مثل بت پرستی، اوتار کے متعلق عقائد ترک کر دیئے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ ” خدا ایک ہے اور اس کا خلیفہ نانک سچ بولتا ہے”

ڈاکٹر تارا چند لکھتے ہیں کہ.:
” اس سے صاف ظاہر ہے کہ گورو نانک پیغمبر اسلام کو اپنا راہبر سمجھتے تھے اور ان کی تعلیمات پر بھی یہی اسلامی رنگ ہے. پیغمبر اسلام کی طرح گورو نانک بھی خدائے واحد کی اطاعت کا مطالبہ کرتے ہیں. صوفیوں کی طرح نانک گورو یا راہبر کی متابعت ضروری سمجھتے ہیں. ان کے نزدیک روحانی سفر کے چار مراحل تھے. سرن کھنڈ، انان کھنڈ، کرم کھنڈ اور سچ کھنڈ. کتاب نانک پرکاش کے مصنف لکھتے ہیں   کہ گورو نانک کے یہ چار مراحل صوفیاء کے چار مقامات، شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت پر  مبنی ہیں. اسلام کا گورو نانک پر کتنا گہرا اثر ہوا یہ بات خود بخود ظاہر ہے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ان کے اقوال و افعال اس کی شہادت دے رہے ہیں.

چند معروف شخصیات کا بابا گورو نانک کے جنم دن کے حوالے سے خصوصی پیغام!

گورو نانک دیو بین المذاہب اور معاشرتی ہم آہنگی کا نشان تھے اور ہماری سرزمین اپنے اس بیٹے پر فخر کرتی ہے. میں پوری پاکستانی قوم خاص طور پر سکھ کمیونٹی کو بابا گورو نانک کے جنم دن پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور سکھ کمیونٹی کو یہ تجویز دینا چاہتا ہوں کہ ان کے پاس نا صرف بابا گورو نانک جیسی شخصیت موجود ہے جس کا صحیح طور پر اپنی اگلی نسل سے تعارف بہت ضروری ہے صرف گورو نانک کا ہی نہیں بلکہ سکھ مذہب کی دوسری مشہور شخصیات جیسے بھگت سنگھ، سردار ہری سنگھ (تحریک پاکستان میں قائد اعظم کے ساتھی) کے بارے میں اگلی نسل کو بتانا بہت ضروری ہے. یہ تعارف پاکستانی کی نظریاتی، اساسی معاشی اور معاشرتی ترقی میں اگلی نسل کا معاون ثابت ہو سکتا ہے
اعظم معراج صاحب شہور مسیحی اسکالر اور کتابوں کے مصنف بابا گرونانک امن، بھائی چارے اور مذہبی روادی کے علم بردار تھے، جنھوں نے لاکھوں افراد کو متاثر کیا۔ ان کی زندگی سے یہ پیغام ملتا ہے کہ یہ فقط محبت ہے، جو دلوں کو  مسخرکرسکتی ہے۔
مشہور صحافی، انٹرویو نگار، ناول نگار اقبال خورشید صاحب

جاری ہے!

Save

Save

Save

Save

Save

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

سائرہ ممتاز
اشک افشانی اگر لکھنا ٹھہرے تو ہاں! میں لکھتی ہوں، درد کشید کرنا اگر فن ہے تو سیکھنا چاہتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply