اکثر کہا جاتا ہے کہ ہم وہ آخری نسل ہیں جن کی مائیں سادگی میں ید طولی رکھتی ہیں اور دیکھا جائے تو یہ بات بھی درست معلوم ہوتی ہے۔ بسا اوقات لگتا ہے کہ ہم وہی آخری نسل ہیں جن کی ماؤں کو صرف محبت سے تخلیق کیا گیا ہے۔ جن کی مٹی میں وفا اور لفظوں میں خلوص ہے۔ جب ہم لفظ “ماں ” کہتے ہیں تو لبوں پر شیرینی سی چھا جاتی ہے۔ ایک ایسی ہستی کا چہرا سامنے آجاتا ہے جو مسکان چہرے پر سجائے، دعاؤں میں ہر الٹی سیدھی دعائیں ہمارے حق میں مانگتے اور ہماری خیریت کے لیے شدید متفکر ہے۔ ایک عورت جب “ماں ” بن جاتی ہے تو وہ دل سے اس لفظ ماں کا مان رکھتی ہے۔ ہم دن رات جدید موبائل پر بیٹھنے والی نسل جس کا اسی فی صد وقت موبائل پر ہی گزرتا ہے مگر ہماری مائیں موبائل سے زیادہ بچوں کو سامنے بٹھا کر باتیں کرتی ہے۔ وہ ان کے چہرے کو سکرین سمجھ کر ساری تحاریر پڑھتی ہے اور بچوں کی ہنسی کی آواز اس کے لیے دنیا کی سب سے خوب صورت رنگ ٹون ہوتی ہے۔ اس کی سوشل دنیا انہی بچوں کے گرد گھومتی ہے جہاں دستر خوان پر سارے بچوں کو بٹھا کر کھانا کھلانے کو وہ کائنات کا سب سے بڑا فن سمجھتی ہے۔ وہ کم پڑھی لکھی ہے لیکن بچوں کے پیچھے محدود علم کے ساتھ استانی بن کر پھرتی ہے۔ اسے شوہر کی محبت ملے یا نہ ملی وہ بچوں کو سینچ سینچ کر روز محبت کی وادی میں لے جاتی ہے۔ وہ بچوں کو وفا ، خلوص کی گھٹی پلاتی ہے۔ ہماری مائیں! شدید بیمار ہوں پھر بھی اولاد کی زرا سی آواز پر تڑپ اٹھتی ہیں۔ اپنی بیماری کو چھوڑ کر اولاد کے پیچھے محبت کا مرہم لیے پریشان پریشان سی پھرتی ہیں۔ ہماری مائیں صبح اٹھتے ہی ہماری بلائیں لیتی ہے۔ ماتھے پر بوسہ ثبت کرتے ہوئے ہر روز ہمیں آفس، سکول، کالج ، یونیورسٹی کے لیے ایسے وداع کرتی ہیں جیسے کسی فوجی کو بارڈر پر کیا جاتا ہے۔ اولاد سے دوری پر کہیں اثر پڑے یا نہ پڑے ماں کا آنچل صرف آنسوؤں کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ ہم وہ آخری نسل ہیں جن کی مائیں موبائل کے تراکیب نہیں جانتیں۔ وہ حیات کے تراکیب کو اولاد کی محبت میں ڈھونڈتی ہیں۔ جس رات بجلی کڑکتی ہے۔ بادل گرجتے ہیں اور باقی دنیا ایک کونے میں اپنی دنیا میں مصروف ہوتی ہے تو ماں کے ذہن میں صرف اولاد ہوتی ہے۔ جب زور سے بجلی کڑکتی ہے تو وہ اس چھوٹے سے بچے کو بانہوں میں بھر لیتی ہے جو صرف ڈر کے مفہوم سے آگاہ ہورہا ہوتا ہے۔ اسے کے بالوں میں ہاتھوں کی کنگھی کرتے ہوئے اسے دادی اماں کی کہانیاں سنانے والی ہماری سیدھی سادھی مائیں نہ کسی دن کو جانتی ہیں نہ کسی رات سے آگاہ ہیں۔
ہماری مائیں موبائل سے قدرے ناآشنا ہیں۔ وہ کم پڑھی لکھی ہیں مگر گھر کو یوں سنھبالتی ہیں جیسے کسی کمپنی کا سی ای او اپنے دفاتر کو سھنبالتا ہے۔ یہ ماں بسا اوقات شوہر کی اور اپنوں کی محبت کو ترستی پائی جاتی ہے۔ اولاد ہونے کے بعد اس کو طرح طرح کے طعنے بھی ملتے ہیں اور اگر اولاد میں بیٹی ہوجائے تو اسے سینے سے لگائے سارے جہاں سے لڑتے، روایتوں سے لڑتی یہ ماں کسی جنگ میں کھڑی سپہ سالار کی مانند کھائی دیتی ہے۔ اس ماں کو فیس بک کا نہیں پتا۔ یہ سبزیاں کاٹتے ہوئے یا کھانا بناتے ہوئے اپنی اولاد کی فیس کو مکمل کتاب سمجھتی ہے۔ یہ وٹس ایپ پر رسمی پیغامات نہیں بھیجتی۔ یہ مدر ڈے بھی نہیں مناتی۔ اسے نہیں پتا کہ کوئی مدر ڈے بھی ہوتا ہے۔ یہ بس روز گھر کے آنگن کو محبت سے سجاتی ہے۔ برداشت کی موتیاں چن کر انہیں وفا کے پردوں میں پروتی ہے۔ محبت کے گملے میں روز خوب صورت لفظوں کا پانی دیتی ہے۔ اسی لیے یہ “ماں ” کہلاتی ہے۔ جب کوئی اس کے بچوں کی طرف ٹیڑھی آنکھوں سے دیکھتا ہے تو بپھری ہوئی شیرنی بن جاتی ہے۔
آج ماؤں کا عالمی دن ہے ۔ ہم ہر اس ماں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جو جدید دنیا سے آگاہ ہیں مگرکسی گاؤں میں ہل جوتتے، فصل اگاتی وہ ماں جو گوبر کے تھاپے لگاتے ہوئے سرسوں کے ساگ اور مکئی کی روٹی سے عرصے بعد گھر لوٹنے والے بچوں کی تواضع کرتی ہے ہم اسے خراج کم ہی پیش کرتے ہیں۔ صحن میں رکھی چارپائی پر روز شہر میں بسے بیٹے کی محبت میں آنسو بہاتی ماں سے اکثر ہم نظریں چرا جاتے ہیں۔ وہ ماں جس کے پلو سے پھر اولاد کی صرف یادیں بندھی رہ جاتی ہیں۔ جو روز کچی چھت پر جاکر پکے سڑکوں پر دنیا کی دوڑ میں آگے نکلتی ہوئی اولاد کا انتظار کرتی ہے تو کبھی پردیس میں بسے بچوں کی یاد میں پردیس سے آنے والے ہر شخص میں انہیں ڈھونڈتی ہے۔ یہ ماں جو کبھی ٹیپ ریکارڈو میں لمبی گفتگوئیں بھر کو اولاد کی بلائیں ہاتھوں سے لے کر اسے بھیجا کرتی تھی ، کبھی خطوں کی خوشبو کو دامن سے سجائے اپنے حرف حرف پر بچوں کا گماں کرکے روز انہیں یاد کرکے آنسو بہاتی تھی وہ ماں وٹس ایپ پر اولا دے سے ویڈیو کال کرتی ہے تو جیسے بکھر جاتی ہے۔
آج اسی سادہ سی ماں کا عالمی دن ہے۔ جوصرف محبت سے معمور ہے ۔ جسے اس کے شوہر سمیت خاندان والے اکثر جاہل کا طعنہ بھی دیتے ہیں مگر وہ بڑے بڑے علم والوں سے زیادہ عالمہ ہے کیوں کہ اس کے پاس محبت اور اپنائیت کا علم ہے۔ وہ محبتیں تقسیم کرتی ہے اور ہم فخر سے کہہ دیتے ہیں ہماری مائیں بہت سادہ ہیں وہ کچھ نہیں جانتیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں