اب تو بھٹو کی جاں بخشی کر دیں۔۔عطا الحق قاسمی

ہم لوگ بہت طعن و تشنیع کر چکے ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے سے! اب طعن و تشنیع چھوڑ دیں اور ایک اچھے انسان کی طرح مرحوم کی لغرشیں معاف کرتے ہوئے اُنہیں اُن کے اچھے کاموں کا صلہ عطا کئے جانے کی دعا کریں۔
میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں اُن کے حامیوں میں سے نہیں تھا بلکہ میرا شمار اُن کے مخالفین میں ہوتا تھا۔ میں نے اُن کے حوالے سے اتنے تند و تیز کالم لکھے کہ مخالفین کی ’’خبر‘‘ لینے والی فورس ’’ایف ایس ایف‘‘ کے سربراہ مسعود محمود نے وقار انبالوی (مرحوم) کی وساطت سے مجھے پیغام بھیجا جس کے الفاظ یہ تھے ’’تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی خوبصورت ہے‘‘ میں نے اس کا جواب خاصی بیہودہ زبان میں اُس بےضمیر شخص کو بھجوایا جو بعد میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن گیا تھا اور آج کل اگر جسمانی طور پر زندہ ہے تو امریکہ میں مقیم ہے، یہ تو میری موت کا وقت ابھی تعین نہیں تھا کہ اُس دھمکی کے سترہ دن بعد پی پی پی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔ اس دور میں میرے سمیت بہت سے لوگ صحیح اور غلط پراپیگنڈے کے زیر اثر نام نہاد تحریک نظامِ مصطفیٰ کے جلسوں میں شریک ہوتے تھے اور اُن میں میرے سوشلسٹ دوست ڈاکٹر سعادت سعید بھی سر پر سفید ٹوپی پہنے ہمارے ساتھ ہوتے تھے، جلوس لاہور کی نیلا گنبد مسجد سے روانہ ہوتا تھا اور اس کی اطلاع بی بی سی کے رپورٹر مارک ٹیلی سے پاکستانی عوام کو ملتی تھی، بعد میں یہ ثابت ہو گیا کہ مارک ٹیلی سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔ بھٹو سے میری مخالفت کی دو تین وجوہ تھیں۔ ایک ان کا رویہ، اپنی ہی پارٹی کے لیڈر جے اے رحیم کو ٹھڈے مارے گئے، کئی سیاسی کارکن موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ احمد رضا قصوری کو ٹارگٹ بنایا گیا مگر ایف ایس ایف کی فائرنگ کی زد میں احمد رضا کے والد آ گئے۔ بھٹو مخالفت کی دوسری وجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں ایوب خان اور یحییٰ خان کی کوششوں کے تسلسل میں بھٹو نے بھی اُدھر تم اِدھر ہم کے بیانیہ میں اپنا کردار ادا کیا۔

سو یہ اور چند دوسری وجوہ تھیں کہ میں بھٹو مخالف کیمپ میں گیا مگر سچی بات یہ ہے کہ میرے سمیت کسی کو یہ سمجھ نہ آئی کہ تحریک نظام مصطفیٰ کے پیچھے سی آئی اے سمیت کچھ دوسرے ہاتھ بھی گردش میں تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے نامہ اعمال میں چند بہت عظیم کام بھی درج تھے۔ عالمِ اسلام کے رہنماؤں کی پاکستان میں آمد اور پاکستان کے ساتھ اظہار یکجہتی، شاہ فیصل شہید کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ تیل کو مغرب کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا جائے گا۔ چنانچہ شاہ فیصل بھی شہید کر دیے گئے اور بھٹو کا عدالتی قتل بھی ہوا۔ بھٹو مرحوم کا ایک عظیم کارنامہ ایٹم بم کی بنیاد رکھنا تھا اور یہ بھی مغرب کے لئے ہضم کرنا مشکل تھا، اس طرح اسٹیل مل بھی بھٹو ہی کے دور میں قائم ہوئی۔ بنگلہ دیش کے قیام کے دوران ہمارے جو فوجی اور سویلین انڈیا کی قید میں تھے اُنہیں واپس لانے میں بھی بھٹو کی سفارت کاری نے اہم کردار ادا کیا مگر پراپیگنڈہ بری بلا ہے اور یوں ہمیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ دن آ گیا جب بھٹو کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا گیا، اس روز لاہور کی سونی سڑکوں پر میں بھٹو کی روح کے ساتھ بھٹکتا پھر رہا تھا۔ بھٹو کی میت خاموشی کے ساتھ ان کے گائوں بھجوا دی گئی اور نماز جنازہ میں اہلِ خانہ کے سوا کسی کو شمولیت کی اجازت نہیں تھی۔ جنرل ضیاء الحق کا دور شروع ہوا تو مجھے برے بھلے میں کچھ تمیز کرنا آ گئی تھی۔ میں نے ضیاء الحق کے خلاف بھی بہت کچھ لکھا مگر بھٹو کی سابقہ مخالفت کے سبب بعض متعصب دانشوروں نے مجھے بھی ضیاء کے حامیوں کے کھاتے میں ڈالے رکھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا آج کا کالم بظاہر بےموقع لگ رہا ہے مگر درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ پی پی پی کے کارکنوں اور لیڈر شپ نے بھٹو کی شہادت کے بعد جلسے جلوسوں میں ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرہ سے دلوں کو گرمانا شروع کر دیا۔ ظاہر ہے اس کا مفہوم یہ نہیں تھا کہ بھٹو میرے اور آپ کی طرح زندہ ہے بلکہ مفہوم یہ تھا کہ وہ دلوں میں زندہ ہے، مگر کچھ عرصے سے اس سلوگن کا بہت سنگدلی سے مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ مثلاً پتہ کریں کہ بھٹو نے ویکسین لگوائی ہے کہ نہیں وغیرہ وغیرہ، میرے نزدیک یہ ایک غیر انسانی ہی نہیں غیراسلامی فعل بھی ہے۔ بھٹو اگر چاہتا تو اپنی جان بچا سکتا تھا مگر جس شان سے وہ مقتل میں گیا اس کے بہت سے گناہ بھی معاف ہو گئے۔ ہم مسلمان ہیں اور ہمیں مرحومین کی خطائیں معاف کرکے اُن کی دعائے مغفرت کے لئے کہا گیا ہے جبکہ بھٹو سے اگر کچھ غلط کام سرزد ہوئے تو وہاں اس نے بےشمار اچھے کام بھی کئے اور یوں وہ مر کر بھی امر ہو گیا۔ بھٹو کا سارا خاندان مار دیا گیا جبکہ ہمارے درمیان کتنے ہی مردے ایسے ہیں جو بقول منیر نیازی زندوں کا رزق کھا رہے ہیں، اگر ایک شخص عزت کی موت مرا ہے تو میرے نزدیک بھی وہ زندہ ہی ہے۔ ﷲ ذوالفقار علی بھٹو کی لغرشیں معاف کرے اور انہیں وطن عزیز کے لئے کی گئی خدمات کا صلہ عطا کرے۔آخر میں میرا ایک شعر
مجھے تو یاد نہیں شکل اپنے منصف کی
مجھے تو یاد سزائیں ہیں جو سنائی گئیں
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply