• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دُھند تو خوشگوار ہوتی ہے لیکن یہ آلودہ کیوں؟۔۔۔ شاہد یوسف خان

دُھند تو خوشگوار ہوتی ہے لیکن یہ آلودہ کیوں؟۔۔۔ شاہد یوسف خان

نجانے یہ دُھند مجھے کیوں اچھی لگتی ہے، اس میں یا تو بچپن کے سنہرے دِن چُھپے ہیں جب اس بہانے سکول سے چھُٹیاں کر لیتے تھے۔ لیکن دُھند ہو اور بندہ کسی گاؤں میں ہو ورنہ یہ شہروں کی دُھند تو سانس لینا بھی دشوار کردیتی ہے۔ ماہرین موسمیات کہتے ہیں کہ یہ زہر آلودہ دھواں ہے لیکن یہ کیوں ہے، یہ پہلے تو بڑی ٹھنڈی  اور صحت مند ہوتی تھی لیکن اب ہر لحاظ سے زہریلی بن گئی ہے ۔ سانس لینے سے لے کر  سڑک چلتے تک یہ خطرناک ہے، دُھند بڑھنے سے جہاں ایک تو بڑھتی ٹریفک میں حادثات کا ریشو بڑھ چُکا ہے وہیں  اس سے  سانس لینا بھی دشوار ہورہا ہے۔

ماحولیاتی ماہرین اس کی بنیادی وجہ یہی بتاتے ہیں کہ ٹریفک  کا اضافی، صنعتی انڈسٹریز کا قیام، درختوں کی کٹائی،  بجلی کے لیے کول پراجیکٹ یا  ایسے ذرائع جو  فضاء میں آلودگی چھوڑتے ہیں۔ گزشتہ سال صرف چند دن لاہور اور گردو نواح میں رہی اور زیادہ تر یہ ہمسایہ ممالک چین کے شہر بیجنگ اور بھارتی شہر دہلی میں ہوتی رہی لیکن رواں سیزن میں پاکستان کے اکثر میدانی علاقے  بلکہ پنجاب  پورےکا پورا اس زہر کی لپیٹ میں ہے۔ لاہور شہر میں صورتحال یہ ہے کہ گزشتہ دس دن سے سورج نہیں نکل رہا، باہر نکلتے ہی سانس لینا دشوار اور آنکھوں میں جلن اور پانی بہنا شروع ہوجاتا ہے۔ ایک چلتے پھرتے انسان پر اس کا یہ اثر تو اندازہ لگائیں کہ یہی زہر کھانے پینے کی اشیاء میں بھی تو گُھل رہا ہے۔ محکمہ صحت اس حوالے  سےکڑوروں کے اشتہارات سے لوگوں کو آگاہ کر رہا ہے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ اشتہاری مہم نہ چلانے پر اپنے افسران پر غصہ کیے ہوئے ہیں لیکن اس زہر کا کسی کے پاس مستقل حل نہیں  تلاش کیا جا رہا۔

اس زہر کی بنیادی وجوہات میں سے   ایک  اہم وجہ  تو یہی ہے کہ چھوٹے شہروں کو نظر انداز کر کے صرف چند بڑے شہروں کو  متعدد صنعتوں ، زہر آلودہ فیکٹریوں  میں تبدیل کر دیا گیا  اب اس کا خمیازہ بھی زیادہ تر بڑے شہر بھگت رہے ہیں ۔روز برروز آبادیوں کا  روزگار کے سلسلے میں شہر کی جانب منتقل ہونا جس کی وجہ سے آئے روز ٹریفک کا بڑھنا  پھر اسی ٹریفک کے لیے سڑکوں کا کم ہونا ، نئے نئے زہریلے منصوبے قائم کرنا جس میں ایک تو قوم کا پیسہ ضائع ہورہا ہو  اور دوسرا لوگوں کی زندگی اذیت ناک بنائی جا رہی ہوں۔ حکمرانوں کے شاہی مھل آج بھی شہروں سے دور ہیں اگر شہروں میں یہ رہتے ہیں تو یہاں پر  سینکڑوں کنالوں پر مشتمل ان کی قیام گاہیں جو عارضی قیام کے لیے بنائی جاتی ہیں۔
خیر  اب بھی ا س برھتی آلودگی کو اس صورت کم کیا جا سکتا ہے کہ شہروں میں نئی فیکٹریاں قا      ئم کرنے پر پابندی عائد کی جائے اور انڈسٹریز کو دوسرے شہروں تک وسیع کیا جائے تو یہ زہر بھی کم ہوسکتا ہے اور  بہت سی افرادی قوت بھی کام میں  لائی جا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر لاہور شہر کو ہی لے لیں ، لاہور  میں قائم کی جانے والی انڈسٹریز کو چھوٹے شہروں میں ہی قائم کیا جاتا تو اس سے بے شمار فوائد حاصل  ہو سکتے تھے، لوگوں کو تعلیم و روزگار کے لیے اپنا شہر نہ چھوڑنا پڑتا، نہ ہی ٹریفک بڑھتی نہ ہی مزید، میٹرو بسز، اورنج ٹرینز جیسے پیسہ خور منصوبے بنانے پڑتے اور نہ  ہی ہر روز ٹریفک کے مسائل کا سمانا ہوتا اور نہ ہی یہ آلودگی بڑھتی۔ لاہور میں جتنے سڑکوں کے جال بچھائے گئے   یا نئے نئے ٹریفک کے منصوبے بنائے گئے ہیں ان کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب ایک  چھوٹی سی گاڑی سڑک پر رُک جائے تو گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک بُلاک رہتی ہے، پیرس بننے والا لاہور بارش کے وقت اپنی پیرسی دِکھا رہا ہوتا ہے جب جگہ جگہ   بارش کا پانی سیلابی منظر دکھا رہا ہوتا ہے۔ ٹریفک حادثات کا ریشو پندرہ سے بیس فیصد ان دو سالوں میں بڑھا ہے۔
آپ دیکھ لیں پاکستان بہت وسیع ہے، پہاڑوں سے لے کر میدانی علاقے ویران پڑے ہیں، ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس وقت   دس فیصد پانی ذخیرہ کرنی کی سہولت موجود ہے لیکن ہمسایہ ملک بھارت کے پاس چالیس فیصد جب یہاں سیلاب آتے ہیں تو  ذمہ دار حضرات بڑی شعلہ بیانی سے پانی چھوڑنے کا الزام بھارت کی نذر کردیتے ہیں ، سندھ طاس معاہدے کی اگر بھارت خلاف ورزی کرتا رہا ہے تو آپ کی خارجہ پالیسی کمزور تھی اور سید جماعت علی شاہ جیسے بندے گُم ہوچکے ہیں لیکن کبھی آپ نے پیچھا ہی نہیں کیا  کہ بھارت ایسی خلاف ورزیاں کیوں کرتا رہا ہے آپ کمزوری نہ دکھاتے۔ خیر یہ ایک اور وسیع موضوع ہے لیکن پانی ذخیرہ کرنے سے بیشتر خشک علاقے سیراب ہوسکتے ہیں  اور زراعت کو خاطر خواہ فائدہ مل سکتا ہے۔ بدقسمتی نا کہیں بلکہ  نااہلی یہی ہے کہ اس وقت  سب سے زیادہ ذریعہ معاش زراعت ہے لیکن زرعی پیداوار کی کوئی خاطر خواہ قیمت نہیں مل رہی  اور سب سے مظلوم اور پسماندہ طبقہ اس وقت کسان ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر  صنعتوں کے قیام کو چھوٹے بڑے شہروں تک پھیلا دیا جائے تو کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ویسے بھی صنعتی سرمایہ داروں کے پاس اپنے ہوائی طیاروں سے لے کر بے شمار لگژری گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آنے جانے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ایک صوبے میں ایک سے دوسرے شہر تک سفر کرتے ہوئے صرف چند ہی  گھنٹے لگتے ہیں۔ اس سے  کاروباری حضرات کا کاروبار بھی وسیع ہوسکتا ہے اور انڈسٹریز کا دائرہ کار بھی دوسرے شہروں تک  جانے سے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی  آسان ہو سکتے ہیں ساتھ کسانوں کو زرعی ا جناس کو شہروں تک لانے میں جتنی مشکلات آتی ہیں وہ کم ہوسکتی ہیں کیونکہ کسان بیچارہ اس وقت بیوپاری اور آڑھتیوں کے ہاتھوں اپنے خون پسینے کی  محنت لُٹوا بیٹھتا ہے جبکہ عوام کو زرعی ملک میں رہتے ہوئے کبھی ٹماٹر تین سو روپے کلو ملتا ہے تو کبھی پیاز دو سو روپےکلو تک چلا جاتا ہے اور کوئی کنٹرول نہیں۔ بس دعوے ہی دعوے  ہیں جو ہر روز مائیک پھاڑجلسوں  کی صورت میں ملتے ہیں یا پھر اخبارات اور میڈیا کی زینت۔
شہروں میں بڑھتی آبادی کا  صرف اور صرف سیاسی حضرات فائدہ حاصل کرتے ہیں باقی عوام کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ دیکھ لیں کراچی میں بڑھتی آبادی سے متحدہ کا ووٹ بڑھتا ہے، لاہور ، فیصل آباد کی آبادی سے نون لیگ کو فائدہ رہتا ہے۔ دوسرے بڑے شہروں میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے۔۔ایک تو روزگار کی تلاش میں گھر ، ہمسایے رشتہ دار چھوڑ کر شہروں کی جانب بھاگنا اور پھر شہروں  میں روزگار سے حاصل ہونے والی آمدنی کا دو تہائی حصہ اسی شہر میں رہنے کا کرایہ دینا باقی ایک تہائی اپنے بچوں پر خرچ کرنا۔ صرف  فیکٹریاں ہی نہیں بلکہ بڑے تعلیمی اداروں کا قیام شہروں سے دور کیا جائے اور شہر میں رہنے والوں کو بھی سکون فراہم کیا جائے۔ ساتھ  پرسکون دُھند کو آلودگی سے بچانے کے لیے شہر میں درختوں  کو لگایا جائے تاکہ شہر کے لوگ بھی پرسکون رہ سکیں تو دیہاتوں سے شہر کی طرف لوگ اپنے قریب ہی روزگار  حاصل کر سکیں تو آپ سب کی حکومت اور پالیسی سازوں کا کوئی عوام کو فائدہ ہوگا ورنہ سب ڈرامے  اور نااہلیاں ہیں۔ ورنہ دُھند تو بڑی خوشگوار ماحول قائم کر سکتی ہے ۔

Facebook Comments

شاہد یوسف خان
علم کی تلاش میں سرگرداں شاہد یوسف خان ایم اے سیاسیات اور صحافت مکمل کر چُکے ہیں ۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر سوالات کرتے رہتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply