دوبئی میں مکالمہ

فیسبک پر مٹر گشت کرتے ہوئے میں اپنی کسی حسرت ناتمام کی آسودگی واسطے کوئی تلاش کر ریا تھا کہ اچانک فیسبک کے ہرکارے نے کسی جگہ ٹیگے جانے کی خبر کی تو میں اپنا دستی سامان بلاکیت لے کر اس نامراد کی طرف عازم سفر ہوا کہ ٹیگنے والے کو شرف بلاکیت واصل کر کے آتا ہوں – جیسے ہی میری چشم مبارک پڑی تو دیکھا کہ مکالمہ کے روح رواں انعام رانا نے اپنے پیرو مرشد قاری حنیف ڈار کو سندیسہ دیا ہوا تھا کہ مرشد میں راہ سلوک کی منزلیں مارتا ہوا لاہور سے دوبئی ارہا ہوں تاکہ سینہ بہ سینہ فیض کی منتقلی کا کوئی احتمام کیا جا سکے اسی میں کہیں ہمیں بھی اشارہ تھا کہ پہنچنے والی کرو – مگر ہماری نوکری ایسی ھے جہاں چھٹی کا نام سن کر چھٹی مانگنے اور دینے والے دونوں حضرات اکثر کومے میں چلے جاتے ہیں یعنی چھٹی کا نام لو اور پھر لمبی خامشی ہوتی – اسی واسطے ہم نے جمعہ کے روز چھٹی مانگنے کی بجائے بیمار ہو جانا زیادہ مناسب جانا اور "دوا دارو" کے لیے دوبئی روانہ ہو گئے – پرگوام یوں ترتیب پایا تھا کہ احقر اپنے احباب کے ہمراہ انعام کو سڑکو سڑکی ابوظہبی قاری صاحب کے پاس لے آوے گا اور وہیں پر "مکالمہ" ہوئے گا – خیر ہمارے تو کبھی اپنے مستقبل کے بارے میں بنائے گئے منصوبے کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئے تو یہ منصوبہ کیونکر پورا ہوتا- خبر آئی کہ فلائٹ میں کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر ھے تو فورن قاری صاحب کو مطلع کیا کہ معاملہ ایں است – قاری صاحب نے اپنا منہ ول دوبئی کر لیا کہ اب انعام کو دوبئی ایر پورٹ پر ہی مراقبہ کرا کر واپس آجائیں گے – یہ سنتے ہی ہم پر ایک انکشاف ہوا کہ پی آئی اے کے علاوہ امارات کی ائیر لائن بھی دیر سویر کرنے میں کچھ مضائقہ بہرھال نہیں سمجھتی اور گاھے بگاھے کرتی رہتی ہیں – اسی خیال سے میں نے ایر پورٹ پر بہت تلاش کیا ہر بینچ کے آگے پیچھے گزرا کہ شاید کہیں کوئی اس نمبر ون ائیر لائن کو مغلظات عنایت کرتا ہوا مل جائے جیسا کہ عمومی طور پر ہم پی آئی اے کے بارے میں سنتے دیکھتے یا کرتے ہیں مگر افسوس ایسا کوئی ذی روح نہ ملا جو کوسنے دے رہا ہو اور کرپشن و لوٹ مار کے نقصانات کے نتیجے میں ہونے والی اس تاخیر کا ذکر کر رہا ہو – ہمارے ساتھ میرے دوست عاطف ملک تھے کہ وہیں پر( محمد ثاقب مکالمہ کے قارئین میں سے) اپنے گروپ کے ہمراہ وارد ہوئے اور ہمارے بہت ہی پیارے پختون بھائی شفیق بھی وہیں پر نسوار سے شغل کرتے ہوئے پائے گئے – میں تو فورن ایر پورٹ پر اپنی ناہنجار حرکتوں میں مصروف ہو گیا اسی دوران کہیں قاری صاحب فون کرتے رھے مگر اس میں انکا کوئی بھلا نہ ہوا اور میں کسی منظر میں غرق تھا سو سن نہ پایا – کچھ دیر بعد پھر قاری صاحب کا فون آیا کہ وہ بین الاقوامی آمد پر ہیں تو میں نے سوچا تھا کہ شاید کوئی الگ وضع قطع والے مولوی ہوں گے مگر جونہی قاری صاحب پر میری چشم نیک پڑی تو میرا "تراہ" نکل گیا کیونکہ سالم اور اصلی مولوی ہیئت لیے قاری صاحب تھےاور تو اور شلوار تک پائنچے سے اوپر کر رکھی تھی – ابھی بیٹھے ہی تھے کہ اندر سے انعام رانا شرارتی مسکراہٹ ہونٹوں پر سجائے اور دو عدد بیگ کندھے پر لٹکائے نمودار ہوے – تو بعد از جپھیاں قاری صاحب نے کہا کہ از روئے شریعت فوٹو لینا جائز و حلال ھے تو تم لوگ کچھ فوٹو ہی بنا لو – سیلفی پروگرام و اجتماعی تصویر کشی کا انعقاد کیا گیا – مگر مزے کی بات یہ تھی کہ انعام رانا نے تین چار دفعہ کہا یار میرا گلہ سوکھ رہا ھے پانی پلا دو ہم نے کہا پانی کو مارو گولی اور لو یہ ہمارے ساتھ سیلفیاں لے کر من کی آگ کو ٹھنڈا کرو کیونکہ آنکھیں تو وہاں ویسے بھی ٹھنڈی ہو ہی رہی تھیں – یعنی کل ملا کر ہم نے تصویریں بناتے بناتے انعام رانا کو اس حد تک مجبور کر دیا کہ وہ اچانک ایک سمت بھاگ نکلے میرا تراہ نکل گیا کے ایسی کونسی میسنی نظر آگئی جسکے پیچھے یوں دیوانہ وار انعام بھاگ کھڑا ہوا مگر یہ حیرت زیادہ دیر قائم نہ رہی – چند سیکنڈز میں دیکھا تو انعام پانی والے کولر کے پاس ایک عربی کا منت ترلا کر رھے تھے کہ پردیسی ہوں اور اپنے دیشیوں کے ہاتھ چڑھ گیا ہوں" یا رفیقہ سویر دا پانی نئیں او پیتا "اب یہ حالت دیکھ کر ہم نے ش اور ح کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مہمان کو آپنی کس ٹڈی میں لیا اور پانی عنایت کیا – چونکہ دوبئی میں کھانا ہو نہ ہو گاڑی ہر دوسرے بندے کے پاس ہوتی تو انعام کے استقبال واسطے ایر پورٹ پر پہنچنے والی گاڑیوں کی تعداد چار پانچ ہو چکی تھی-چونکہ مومن ہر کام مشورے سے کرتا ھے تو یہاں بھی مشورے میں طے پایا کہ انعام کو قاری صاحب کی گاڑی میں بمعہ فہیم رضا صاحب روانہ کر دیا جائے تاکہ وہ انکو سیدھی راہ دکھاتے ہوئے ایک مشہور و معروف چائے والے کے پاس لے جا سکیں اور وہیں سے بیچ گردی بھی کر لی جائے گی – اب جو بیس پچیس منٹ گاڑی ہماری چل چکی جس میں ہمارے دوست عاطف ملک جوکہ شاید دوبئی کے نقشہ بنانے میں شامل تھے کیونکہ چپہ چپہ جانتے ہیں- قاری صاحب کا فون آتا ہے اور خبر دیتے ہیں کہ یار ہم تو ایر پورٹ سے نکلتے ہی گواچ گئے ہیں تم لوگوں نے ہم دو نئے بندوں کو ایک ساتھ کر دیا اور خود سب نکل گئے ہو – میرا مزید ایک دفعہ پھر تراہ نکلا کہ فہیم رضا آپ لوگوں کا گائڈ کدھر گیا؟ اس پر ہمیں پتہ چلا کہ وہ تو اپنی گاڑی میں تھا اس پر ہم انگشت بدنداں رہ گئے-اخر کار بچھڑے سجن ایک چوک میں ہمیں آہ و زاری و شکوہ شکایت کرتے مل ہی گئے – قاری صاحب جس سپیڈ سے لکھتے ہیں اس سپیڈ سے گاڑی بھی چلاتے ہیں – ہماری منزل یعنی چائے والا جو کہ پاکستان میں کئی میسنیوں کی منزل ہے پر پہنچ گئے – چائے ہی تو پینی تھی وہ پی لی تو بیچ کی ٹھنڈی ہوا پر قاری صاحب کا نان سٹاپ والا سوئچ آن ہو گیا اور پھر بلا تعطل گفتگو فرمائی مگر بوریت کا احساس نہیں ہوا کہ وہ عمومی طور پر مزاح کے پیرائے میں تھی – وہاں بھی جتنی باتیں کی گئیں کم و بیش اتنی ہی تصاویر لی گئیں انعام گفتگو کرتے ہیں مگر سننے کے روادار بھی پائے گئے اور ماشاءاللہ اچھی خاصی جگتیں بھی کر لیتے ہیں – باتوں سے کس کا پاپی پیٹ بھرتا ھے خاص کر جب وہ پیٹ مولوی اور وکیل کا ہو تو پھر تو بالکل نہیں 'اسی کارن ایک کابل ریسٹورنٹ تلاش کیا گیا جہاں پر کھانا زیادہ مقدار میں میسر تھا اور وہی مدعا وہی منزل ٹھہرا_یھی وہ مقام ھے جہاں پر اصل مکالمہ ہوا جو کہ قاری صاحب اور انعام رانا کے درمیان رہا باقی حاضرین تو اس وقت غرق تھے کھانے میں اور کسی کو ہوش نہ تھا کہ آسے پاسے کیا ہو رہا ھے – اس مکالمے میں قاری صاحب نے شاد مردانوی کی شاعری کے فضائل پر روشنی ڈالی اور انعام نے عارف خٹک کی سیرت پر روشنی ڈالی مگر ہمیں وہاں اندھیرا ہی نظر آیا – جب ریسٹورنٹ والے ہمیں بار بار آکر پوچھنے لگے کچھ اور کچھ اور جو کہ اپنی اصل میں کوسنے تھے کے باقی دنیا نے بھی کھانا ھے آپ لوگ بھلے آدھے پیسے دے دو مگر ہماری جگہ تو خالی کر دو – وہاں پر قاری صاحب نے "رخصتی کا عندیہ دیا" کہ کل کے لیے جا کر تحاریر لکھنی ہیں البتہ انعام رانا سے گلے ملتے ہوئے ہم نے اپنی نیک آنکھوں سے دیکھا کہ ایک عدد آنسو قاری صاحب کی آنکھ سے ٹپکا جسے انعام رانا نے ایک عدد پپی دے کر صاف کیا اور یوں قبلہ قاری صاحب روانہ ہو گئے – چونکہ پیچھے تمام مشٹنڈے رہ گئے تھے تو فورن سے دوبئی مال و ڈانسنگ فاؤنٹین کا رخ کیا گیا وہاں جا کر انعام شدت جزبات سے مغلوب ہو کر ہم سے بالکل بیگانہ سے ہو کر رہ گئے اور وہاں موجود میسنیوں سے علیک سلیک کرنے میں مشغول ہو گئے جسے توڑنے کے لئے ہمیں انکو دو سے تین دفعہ کافی اور بیشمار سگریٹ پلانے پڑے تب جا کر انکے ہوش ٹھکانے آئے -وہاں پر پائے جانے والے محمد ثاقب گروپ کے محمد شعیب رانا نے اپنی محبت بھری جگتوں سے ماحول کو چار چاند لگا دیے حالنکہ ان سے پہلی پہلی ملاقات تھی ہماری اور انعام کی بھی – قہقہوں، مسکراہٹوں، آپنایتوں، سے بھرے مکالمے کے سبب ہونے والی اس یادگار ملاقات کا اختتامی وقت آن پہنچا جب گھڑیال نے بارہ بجا دیے-اڑھاءی بجے کی فلائٹ پکڑنے واسطے بارہ سوا بارہ کا عمل تھا جب انعام کو یار من (جو کہ تب تک انعام کے شاید مجھ سے زیادہ اچھے دوست بن چکے تھے) عاطف کے سپرد کیا کہ بندے کو آئر پورٹ لے جائے اور ہم مسکین مزدور آدمی محمد ثاقب اور محمد شعیب رانا کے ہمراہ ابوظہبی روانہ ہوگئے –
" دم رخصت میں نے انعام نے پوچھا کہ مکالمہ کا بہترین فائدہ کیا سمجھتے ہو؟ اس نے کہا لاہور کراچی کی تو چھوڑو، آج مکالمہ کے نام پر فقط کچھ گھنٹوں میں اٹھارہ اجنبی آپس میں دوست بن گئے، مکالمہ کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہو گی، اور یہ کہتے اور سنتے انعام اور میں جپھی جپھی ہو گئے۔ "

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply