نوٹ: سلطان مصر الملک المظفر سیف الدین قطز غلامان مصر میں سے تھا۔ اس نے تقریبا ایک سال مصر میں حکومت کی لیکن منگولوںکے طوفان آگے بند باندھ کر ہمیشہ کے لیے تاریخ میں اپنا نام رقم کر لیا۔ روایت کے مطابق شام کے بازار میں بکنے کے لیےسلطنت خوارزم سے لایا گیا، وہاں سے مصر کے بازار میں فروخت ہوا اور ترقی کرتا ہوں تخت مصر پہ متمکن ہوا۔ اس کے زیرقیادت عین جالوت پہ منگولوں کو جو شکست دی گئی، اس کے بعد منگول اس خطے پہ ایک قدم آگے نہ بڑھا سکے۔ عین جالوت کیجنگی اہمیت تاریخی اعتبار سے بہت زیادہ ہے۔ اس علاقے میں پہلی بڑی مزاحمت اور غیر متوقع شکست، اور پھر منگول قیادتکے مسائل نے ایشیا کے اس حصے اور افریقہ کو منگولوں کے حملوں سے محفوظ رکھا۔
پہاڑ کے ٹیلے پر کھڑا سلطان سیف الدین مظفر القطز عین جالوت کے میدان جنگ کو ایسے دیکھ رہا تھا جیسے شاطر کھلاڑی بچھیبساط پر مہروں کو دیکھتا ہے۔ اس ٹیلے کے دائیں بائیں ٹیلے کھلے بازووں کی طرح پھیلے ہوئے تنگ گھاٹی سی بناتے ہوئے میدان میںکھل رہے تھے۔ پتھریلے ٹیلوں پر انسانی قد کے برابر جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ اونچے درخت کہیں کہیں ہی نظر آتے تھے۔ گھاٹیسے آگے مملوک فوج اپنی ترتیب مکمل کر چکی تھی۔ شور کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس شور میں تلواروں کے ڈھالوں سے ٹکرانےاور گھوڑوں کے ہنہنانے کی آوازیں شامل تھیں۔ سورج آج ظاہر ہوتے ہی چمک رہا تھا، خبر دے رہا تھا کہ آج کا دن گرم ہو گا۔مملوک فوج کے پیادے دیوار کی مانند کھڑے تھے۔ نیزہ برداروں نے ڈھالوں کی مدد سے دیوار کھڑی کر رکھ تھی جن کے پیچھے تیراندازمستعد کھڑے تھے۔
گھوڑ سواراس صف بندی کا آخری اور اہم حصہ تھے جن کا مقابلہ ان منگول گھڑ سواروں سے تھا جنہوں نے آدھی دنیا کو اپنےگھوڑؤں کے سموں تلے روند دیا تھا، جنہوں نے کئی ریاستوں کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔ اسلامی عظمت کا نشان “بغداد” بھی جن کےسامنے ریت کی دیوار ثابت ہوا تھا۔ گھڑ سواری میں مملوک بھی کم نہ تھے یہ گھڑ سوار اپنی بہادری اور شجاعت کو صلیبیوں کےخلاف ثابت کر چکے تھے۔ منگول فوج کی شکست کے لئے ان کے گھڑ سواروں کو قابو پانا ضروری تھا ۔ سلطان کے ترپ کا پتہ اسصف بندی کے اختتام پہ کھڑے گھڑسواروں کے محفوظ دستے تھے جن کو سلطان نے منگولوں کی کمر توڑنے کے لئے رکھ چھوڑا تھا۔
میدان جنگ میں سرخ رومال پہنے مملوک فوج کا سالار اعلٰی “رکن الدین بیبرس” دور سے پہچانا جا رہا تھا۔ وہ اپنے دستوں کی ترتیبکا جائزہ لیتا، ان کے ہتھیاروں کو سیدھا کرانے میں مصروف، میدان جنگ کا چکر لگا رہا تھا۔ بیبرس منگولوں کی جنگی حکمت عملیاور ان کے مزاج کو بہت اچھے طریقے سے سمجھتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ منگولوں کی پھرتی اور ڈسپلن ہی ہے جو انہیں پوری دنیا میںفتوحات دلوا رہا ہے۔ ان کے گھڑ سواروں کی مہارت اور جنگی حکمت عملی پر بغیر کسی غلطی عمل کرنا ایسی خوبی ہے جس کا توڑ کرنالازمی تھا۔ اس نے منگولوں کے گھڑ سواروں کے مقابلے میں اپنے گھڑ سواروں کی تیاری کروائی تھی جبکہ منگولوں کے گھوڑوں کابندوبست “مدفا” سے کیا تھا۔ عربوں کی تاریخ میں پہلی دفعہ بارود بطور ہتھیار استعمال ہونے جا رہا تھا۔ بیبرس نے بارودی ہتھیاروالے دستے کا خصوصی جائزہ لیا۔ وہ جانتا تھا کہ گھڑ سوار کی ساری مہارت اس وقت تک ہے جب تک گھوڑا اپنے سوار کی سنتاہے۔ “مدفا” گھوڑوں کے خلاف ہتھیار تھا، جس سے گھوڑے بدک جاتے تھے اور سوار کو قابو کرنے میں مشکلات ہوتی تھیں۔منگول سواروں کا ایسا امتحان کسی نے نہ لیا ہو گا جیسے بیبرس لینے جا رہا تھا۔
محفوظ دستے منگولوں کو دکھانے کے لیے “ترپ کے پتے“، “دوہرے دھوکے” کے طور پہ استعمال ہو رہے تھے ورنہ اصل منصوبہکچھ اور ہی تھا۔
سلطان نے ٹیلے پہ موجود اپنے دستے پہ نظر ڈالی۔ سپاہیوں کی آنکھوں میں وہ عزم نظر آرہا تھا جو کسی بھی کمانڈر کی خواہش ہوتا ہے۔سلطان ٹیلے سے نیچے اتر کر ایک کمانڈر کو اطراف کے ٹیلوں پر موجود دستوں کا جائزہ لینے کا حکم دیتا ہے۔ ایک قاصد جمال الدیناکوش کی طرف روانہ کرتا ہے جس کے ذمے ایک بہت ہی اہم مشن ہے۔ اس مشن کے ساتھ خصوصی طور پر ہوشیار رہنے کاحکم بھی ہے۔
منگول آندھی کے سامنے اسلام کا یہ آخری بند تھا۔ یہ آخری پہاڑ تھا جو سلطان سیف الدین مظفر القطز کی قیادت میں اس منگولطوفان کے سامنے ڈٹا ہوا تھا۔ اس کے بعد بحر اوقیانوس تک ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہ تھا۔ اس آندھی نے تین سو سال سےقائم خلافت عباسیہ کا نام و نشان مٹا کر مسلمانوں کی انا اور غرور پر وہ چوٹ لگائی تھی جس پر بقیہ اسلامی دنیا بلبلا اٹھی۔ شام میںقائم ایوبی خلافت کے وارث صلاح الدین ایوبی کی بہادری اور حمیت کا عشر عشیر بھی ثابت نہ ہو پائے۔ آخری ایوبی وارثسلطان ناصر اسلام کا علم اٹھائے شہادت کی جذبے سے سرشار ہو کے لڑنے کی بجائے، اپنی جان بچا کر بھاگنے کو ترجیح دیتا ہے۔
“سلطان معظم! ہم منگولوں کے مقابلے میں کمزور نہیں ہیں۔ ہم ان کو شکست دے سکتے ہیں”
رکن الدین بیبرس نے شام کے قصر سلطانی میں تقریبا فریاد کرتے ہوئے کہا۔
“ہلاکو کی فوج کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم اس کو شکست دے سکیں” سلطان ناصر کی شکست خوردہ آوازنرخرے سے باہر آئی۔
“سلطان! ہم مسلمانوں نے بہت دفعہ اپنے سے بڑے لشکر کو شکست دی ہے“، قالون الصالح نے حوصلہ بڑھایا۔
“سلطان، ہم ان کا سامنا کھلے میدان میں نہیں کر سکتے لیکن قلعہ بند ہو کر ہم انہیں زچ کر کے رکھ دیں گے۔ ہم اگر ان کو کچھعرصہ روک پائے تو قاہرہ سے مدد مانگ سکتے ہیں” بیبرس نے منصوبہ سلطان کے سامنے رکھا۔
” رکن الدین۔۔۔ سوچنا بھی مت“، سلطان چلایا۔ “میں کبھی بھی قطز کو معاف نہیں کروں گا، اس کی تباہی میرے ہاتھوں لکھیہے“
“عالی جاہ، امیر مصر سے ہمیں بھی کوئی خاص لگاؤ نہیں۔ وہ ہماری جان کا دشمن ہے۔ لیکن وہ ایک بہادر اور ہوشیار جنگجو ہے اورخطرہ ان کو بھی ہے۔ منگول کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہمیں ہر مقام پہ ان کے لئے بند باندھنے ہیں” بیبرس نے کوشش جاریرکھی۔
“سلطان معظم! امیر مصر بھی یقینا واقعات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس کو احساس ہو گا کہ منگول یہاں رکنے والے نہیں۔ وہہماری خاطر نہیں، اسلام کی خاطر بھی نہیں تو کم از کم اپنی خاطر ہمارا ساتھ ضرور دے گا” قالون نے رکن الدین بیبرس کی کوششمیں حصہ ڈالا۔
“یہ نہیں ہوگا قالون۔ میں قطز سے مدد مانگنے کی بجائے ہلاکو سے صلح کرنا پسند کروں گا” سلطان ناصر ہٹ دھرم تھا۔
“عالیجاہ! منگول صلح نہیں کرتے، ہتھیار ڈلواتے ہیں” بیبرس کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔
“رکن الدین! تم نے ہماری حیثیت کا غلط اندازہ کیا ہے۔ ہم کوئی عام آدمی نہیں۔ ہم صلاح الدین ایوبی کے وارث ہیں اورہماری فوجی طاقت کا اندازہ منگولوں کو بھی ہے۔ ہم ان سے اپنی شرطیں منوائیں گے”
“سلطان، ہمارے پاس طاقت ہے۔ ہم لڑ سکتے ہیں، ہم منگولوں کا مقابلہ کریں گے۔ شامی سپاہی منگولوں کے لئے تر نوالہ نہیںہیں”
“لیکن تباہی ہو گی۔ میں بلاوجہ کا خون خرابہ نہیں چاہتا۔ اسے ہماری کمزوری نہ سمجھا جائے”
“عالی جاہ! ان کی شرائط پر صلح سے بہتر ہے کہ ہم میدان جنگ میں اپنے آخری سانس لیں“
“سلطان معظم! ہم نے کہیں کم تعداد میں ہونے کے باوجود صلیبیوں کو شکست دی ہوئی ہے۔ ہم پھر سے یہ کر سکتے ہیں۔ ہم نےان کو گھٹنے ٹیکنے پہ مجبور کر دیا تھا۔ امیر مصر جانتا ہے کہ ہم یہ کام پھر سے کر سکتے ہیں۔ وہ ہمارا ساتھ دے گا۔ وہ مجبور ہو جائے گاہمارا ساتھ دینے کے لئے” رکن الدین بیبرس نے صلیبی جنگ کا حوالہ دیا جس میں مسلمانوں نے فرانسیسی بادشاہ لیوس کو شکستسے دوچار کیا تھا۔
“میں قطز کا نام نہیں سننا چاہتا۔ بہت جلد اس کی گردن پر میری تلوار ہوگی۔ کل ہم منگول شہزادے کے ساتھ شرائط کا بتائیں گےاور پھر اس پہ بات کریں گے“
“سلطان معظم۔۔۔ ہم اگر۔۔۔۔۔۔۔“
“ہم یہ فیصلہ کر چکے رکن الدین! ہم منگولوں کے ساتھ جنگ سے اجتناب برت کر اس ریاست کو تباہی سے بچائیں گے“
“ہم ایسے بچ نہیں پائیں گے سلطان معظم” بیبرس نے دبی آواز اور مایوسی کے عالم میں کہا۔
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں