مبتلائے محبت۔۔ ۔ٹیبی شاہدہ

آج ماریا کچھ زیادہ ہی محبت سے بچوں کو سکول جانے کے لئے تیار کروا رہی تھی ۔ ناشتہ بھی ان کی پسند بنوایا اور لنچ بھی ان کا من چاہا ۔ ان کے بال بنانے کے دوران وہ بےاختیار ان کو چوم لیتی ، ہر گھڑی دو گھڑی بعد وہ مارے محبت کے انھیں گلے لگا لیتی ۔ بڑی بیٹی رومانہ حیرت سے ماں کو دیکھتی اور سوچتی آج ان کو کیا ہو گیا ہے ۔ وہ چڑا چڑا پن کہاں کھو گیا۔ ۔  ؟ آج تو ڈانٹ ڈپٹ کی چھٹی ہی کرا دی ہے ماما نے ۔  لگتا ہے جیون بھر کا سارا پیار آج ہی انڈیل دیں گی ہم ہر ۔  آج ان کے چہرے پر  مسکراہٹ  ہے اور آنکھوں میں پیار کی جوت   اور لہجہ بھی موم جیسا نرم ملائم ۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا اس نے چھوٹی بہن کا ہاتھ تھاما  ماں کو خدا حافظ کیا اور باہر چل دی ۔  سکول بس انہی کے انتظار میں کھڑی تھی ۔ اس نے مڑ کے دیکھا ماما ان کے پیچھے پیچھے سڑک تک چلی آئیں تھیں ۔ ایک بار پھر اسے تعجب ہوا  ۔ یہ حسب معمول نہیں بلکہ خلاف معمول بات تھی ۔ ماریا دور تک بس کو جاتا دیکھتی رہی ۔

جیسے ہی بس ماریا کی نظروں سے اوجھل ہوئی وہ واپس گھر کی طرف چل دی ۔ اس نے چاروں اور نظر بھر کے دیکھا ۔ اس کے دل و دماغ میں کھلبلی سی مچی ہوئی تھی ۔ بوجھل دل کے ساتھ اس نے اپنا سوٹ کیس جو وہ رات ہی کو تیار کر چکی تھی اٹھایا اور گیٹ کی جانب بڑھی ۔ باہر نکل کر اس نے ایک بار پھر مڑ کے گھر کی عمارت کو دیکھا  جہاں اس نے بارہ سال تک بے کیف دن اور بے مہر راتیں بسر کی تھیں ۔ جہاں وہ اک مشین کی مانند ہمہ وقت کام میں جتی رہتی ،سب کی راحت کا سامان کرتی، پر اس کی دلجوئی اور دل گی کا کسی کو خیال تک نہ تھا  ۔ وہ جو ایک چہچہاتی آزاد چڑیا تھی  اس سے تین بار ، قبول ہے ، قبول ہے ، قبول ہے کہلوا کے زندگی بھر کے لئے اک  قفس میں قید کر دیا گیا تھا ۔ اس قفس کے مالک کا نام راشد تھا جسے تخلیق کرتے وقت رب جلیل نے محبت کا خانہ خالی چھوڑ دیا تھا ۔ مہر و محبت سے عاری خالی خالی آنکھوں سے جب وہ ماریا کے ساتھ بات کرتا تو  لگتا وہ غلطی سے اس دنیا میں پیدا ہو گیا ہے اور یہ جیون اس کے لئے اس  غلطی کی  سزا ہو جیسے ۔ ایسے میں ماریا اس کڑوے کسیلے منظر سے آنکھیں چرا کے کہیں اور دیکھنے لگتی تو اس کے کان زیر عتاب آ جاتے ۔ اس کا سرد لہجہ اور کھردرے الفاظ ڈرل مشین کی طرح اس کے کانوں سے ٹکراتے ۔ وہ چڑیا کی مانند اپنے پھڑپھڑاتے پروں کے ساتھ اپنے کمرے میں دبک جاتی ۔ وہ کمرے کی دیواروں اور چھت کے چاروں اور متلاشی نظروں سے دیکھتی کہ شاید  کہیں کوئی راستہ کوئی روزن نظر آ جائے اور وہ پھر سے اڑ جائے ۔ پر بند کمرہ کسی آس کی کوئی خبر نہ دیتا ۔ ہر طرف یاس کی دھند سی چھائی رہتی ۔ اس نے جھر جھری لی اور آگے کی جانب قدم بڑھا دیے ۔

اب اسے اپنے بچوں کے چہرے یاد آنے لگے ۔ اس کے قدم  ڈولنے لگے ،  ہمت کی دیوار میں دراڑیں سی پڑنے لگیں، دل میں درد کی شدید  ٹیسں اٹھیں  اور یکا یک بے قابو آنسوؤں کی یلغار نے اس کی آنکھوں کو دھندلا دیا ۔ ایک لمحے کے لئے  اس کا دل چاہا واپس مڑ جائے ۔ لیکن سامنے لینڈ کروزر میں بیٹھا اس کا شہزادہ بےقراری سے اس کا منتظر تھا ۔ آگے آس ہی آس تھی اور پیچھے یاس ہی یاس ۔”

مڑ کے دیکھنے والے پتھر کے ہو جاتے ہیں ” بچپن میں سنی اس  بات نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور اس کی ممتا کے دروازوں پر ٹھنڈا آہنی قفل ڈال دیا ۔ وہ تیز تیز قدم اٹھاتی اپنے شہزادے کی اور بڑھی ۔

گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے اپنے شہزادے کا ہاتھ تھام لیا اور سامنے سڑک پر نگاہیں جما دیں ۔ باغی آنسوؤں کی دھار چپکے چپکے اس کے رخسار بھگونے لگی کہ ایک قطرہ راہ بھول کے شہزادے کے ہاتھ پر بھی گر گیا ۔ وہ چونک گیا ” تم رو رہی ہو ۔ ۔؟ ” اس نے تعجب سے پوچھا  ۔ ” کیا خوش نہیں ہو ۔ ۔ ؟ ”
” خوش ہوں ۔۔۔” اس نے شہزادے کا ہاتھ مزید مضبوطی سے پکڑ لیا

” پر یہ آنسو ۔ ۔ ” شہزادہ نرمی سے بولا
” پتہ نہیں کہاں سے آ رہے ہیں ، سچ مجھے نہیں پتہ ” اس نے آنسوؤں کی دھار کو پیتے ہوئے بے بسی سے کہا ۔ آنسوؤں کا نمکین گولا اس کے حلق میں اٹک کے رہ گیا ۔
گاڑی سڑک پر پوری رفتار سے بھاگ رہی تھی ۔ ماریہ اور اس کے قفس کے بیچ فاصلہ تیزی سے بڑھتا جا رہا تھا ۔ چڑیا آزاد ہو چکی تھی ۔

شہزادے  کے محل میں قدم رکھتے ہی اس کی کھوئی ہوئی چہچہاٹ عود کر آئی ۔ سارا محل اسے خوش آمدید کہہ رہا تھا ۔ محبت اور دوستی سے معطر فضا نے اسے مسحور کر دیا ۔ اس نے مسکراتے ہوئے چند لمبے لمبے سانس لئے اور ڈھیر ساری خوشبو اپنے اندر اتار لی ۔ اک مدت کے بعد اس کے ہونٹوں نے آزاد مسکراہٹ کا ذائقہ چکھا ۔ اس کی آنکھوں کی جوت نے بھی واپس اس کی آنکھوں میں بسیرا کر لیا ۔ شہزادے کی ہمراہی میں زندگی خواب جیسی حسین تھی  ۔ وہ آنکھیں موندے اس خواب میں جی رہی تھی ۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ پانچ سال بیت گئے ۔ اس دوران قدرت نے اسے ایک بیٹے سے بھی نواز دیا ۔

شہزادہ اکثر کام کے سلسلہ میں چار پانچ روز کے لئے شہر سے باہر جاتا تھا ۔ اس روز بھی وہ شہر سے باہر گیا ہوا تھا ۔ شام کو چائے پینے کے بعد وہ چہل قدمی کرنے لان میں چلی گئی ۔ رنگ برنگے پھولوں سے بھرے تختوں اور مہکتی ہوا کے خنک جھونکوں نے اس کو ایسا مدہوش کیا کہ وہ چلتے چلتے بہت دور آگے نکل گئی ۔ انیکسی کے پاس پہنچ کے اس کے قدم رک گئے ۔ وہ اس طرف پہلے کبھی نہیں آئی تھی ۔ اس کا دل چاہا وہ واپسی جانے سے پہلے  کچھ دیر یہیں سستا  لے  ۔ یہ سوچ کے اس نے انیکسی کا رخ کیا ۔ بند دروازہ ہلکے سے دھکے سے ہی کھل گیا ۔  اسے اندر سے ہنسی کی آوازیں سنائی دیں  ۔ ” کون ہو سکتا ہے “؟ – اس نے حیرت سے سوچا ۔ وہ آگے بڑھی اور جو نا قابل یقین  منظر اس  کو نظر آیا اس  نے گویا اسے کسی پاتال میں پٹخ دیا ۔ اس کا شہزادہ شہر سے باہر نہیں بلکہ  محل سے چند کوس کے فاصلے پر اک لڑکی کے ساتھ مصروف تھا ۔ اس نے بے یقینی کے عالم میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے بار بار دیکھا لیکن ہر بار اسے وہی منظر نظر آیا ۔ اس سے قبل کہ شہزادے کو اس کی موجودگی کا احساس ہوتا وہ دبے پاؤں باہر نکل آئی ۔ اسے لگا کوئی ریل گاڑی سیٹی بجاتی گڑگڑاتی شور مچاتی اس کے دل پر سے گزر گئی ہو ۔ اس بھیانک شور سے اسے اپنے کان بند ہوتے محسوس ہوئے ۔ اسے لگا دل میں لگے گہرے گھاؤ سے خون رس رہا ہے ۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے  ٹٹول کے محسوس کرنا چاہا کہ کہاں کہاں سے خون بہہ رہا ہے ۔ اس نے اپنے دل کو زور سے دبایا اور پوری طاقت سے چیخنے کی کوشش کی لیکن ریل گاڑی کے شور میں اس کی آواز گم ہو گئی ۔ اس نے اپنے ارد گرد دیکھنے کی کوشش کی لیکن سوا ئے اس منظر کے اسے کچھ اور نظر نہیں آ رہا تھا ۔ وہ ہمت کر کے گرتی پڑتی اپنے کمرے تک پہنچی  اور اپنے بستر پر  ڈھیر ہو گئی۔ دھوکے کی ایک ہی پھونک نے اعتماد کے سارے فانوس گل کر دیے ۔

محبت کا محل شہزادہ  سمیت زمین بوس ہو گیا تھا ۔اسے لگا وہ زیر زمین اندھی تاریکی میں ،  نیچے بہت نیچے ، اتھاہ گہرائی میں گرتی جا رہی ہے  ۔ اتنی نیچے کہ برسوں سے مدفون خاموش زخموں سے بھی ٹیسیں اٹھنے لگیں ۔ اس کے سامنے رومانہ  برف جیسے ٹھنڈے چہرے کے ساتھ آ کھڑی ہوئی ” کچھ معلوم ہے آپ کو ، اس دن سکول سے  واپس آئی تو آپ کو گھر میں موجود نہ  پا کے ہم کتنے پریشان ہوئے ، ہر طرف تلاش کیا لیکن آپ کہیں نہیں تھیں ۔ ہم سہم گئے ، ڈر گئے اور سوچنے لگے کبھی ماں بھی گم ہو سکتی ہے بھلا  ؟۔ ہم بے تکان آپ کو تلاش کر رہے تھے ، ہماری بھوک مر گئی تھی ۔ ہمیں اک پل چین نہیں تھا ۔ ہر آہٹ پر ہم چونک جاتے ، ہر لمحہ گمان گزرتا کہ آپ  آ گئی ہیں  ، اس رات آپ کے انتظار میں میں ایک پل نہیں سوئی تھی، میں آنکھ نہیں بند کر رہی تھی کہ آپ کو دیکھے بنا کہیں میری آنکھ نہ لگ جائے ۔  چھوٹی کو میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا ، اللہ اللہ بولو اور بولتی جاؤ  ماں جہاں کہیں ہو گی اللہ انھیں ہمارے پاس بھیج دے گا ” اللہ اللہ بولتے ہوئے ایک دم اس نے کہا اگر ماں مر گئی ہوئی تو ۔۔۔؟ ” میں نے اس کے منہ پر چانٹا مار دیا کہ کیا منحوس بات بول رہی ہو پر اس نے سچ بولا تھا آپ ہمارے لئے مر ہی تو گئی ہو ۔”  اب رومانہ چیخنے لگی ” آپ نے ہم سے ہمارا سب کچھ چھین لیا ، سکون ، اعتماد ، فخر ، پیار ، محبت، سب کچھ آپ ساتھ لے گئیں ۔ اپنے بچے تیاگ دینے کی آپ میں اتنی ساری ہمت کہاں سے آئی تھی ۔ ۔ ۔ بولیں کہاں سے آئی تھی ہمت ۔ ۔ بولیں ۔ ۔ ” رومانہ  پوری طاقت سے دھاڑی  اور کچھ سنے بنا غائب ہو گئی ۔ ماریہ کو لگا کسی نے اس کے دونوں  رخساروں  پر دونوں ہاتھوں سے زناٹے دار تھپڑوں کی بارش کر دی ہو ۔ تھپڑوں کی تکلیف اور روحانی اذیت سے وہ ہزیانی انداز میں چیخنے لگی پر اس کی چیخ و پکار سننے والا وہاں کوئی نہ تھا ۔  آخر کارنڈھال ہو کے وہ بستر پر گر گئی ۔   اس کی سسکیاں دھیرےدھیرے معدوم ہو گئیں  ۔اب چاروں اور گہرا سناٹا تھا ۔
اگلی صبح اک کالی صبح تھی ۔ خاموش اور ظالم صبح ۔ وہ غم و غصے اور ندامت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ  من ہی من میں شہزادے سے ہم کلام تھی ” صرف  تمھارے اکسانے پر میں نے اپنی ممتا کے خون سے ہاتھ رنگ لئے  ۔ میری ممتا پر وہ چوٹ  کنواری چوٹ تھی ،  اسی  لئے جانکاہ تھی ،   بہت تڑپی تھی میں اس  انجان اور جاں لیوا زخم  کے ہاتھوں ۔ اب مانوس ہو گئی ہوں زخموں کے اس کھیل سے ۔ اب  زخم خوردہ ممتا پر اک اور وار سہنے کو ۔ ۔  میں بالکل تیار ہوں ۔

دو دن بعد وہ اس کے سامنے کھڑا تھا ۔ شہزادے کے چہرے سے ماسک سرک چکا تھا اب ماریا کے سامنے اک اجنبی کا چہرہ تھا ۔
” مجھے سب معلوم ہو گیا ہے کہ تم کس شہر گئے ہوئے تھے ” ماریا نے کسی تمہید کے بنا سپاٹ لہجے میں کہا
” تو ؟۔ ۔ تو پھر ۔ ۔ ؟ ” اجنبی اطمینان سے بولا ” ایک دن تو تمھیں پتہ چلنا ہی تھا ۔ اچھا ہوا مجھے نہیں بتانا پڑا ۔ ” اس نے لا پروائی سے کہا
کمرے میں جتنا گہرا سکوت طاری تھا  اس سے کہیں زیادہ ماریا کے اندر سکوت نے گھر کیا ہوا تھا ۔وہ خالی خالی نظروں سے کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی ۔
کچھ جواب نہ پا کے وہ بولا ” دیکھو ماریا لڑکیاں میرا شوق ہیں ۔ تمھیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے ۔ تم تو میری بیوی ہو اس محل کی ملکہ ، دائمی ملکہ ، تمھیں تو سب کچھ حاصل ہے وہ سب تو عارضی مکین ہیں ، آج ہیں کل نہیں ۔ مجھ سمیت سب کی باس تم ہو ” اس نے ماحول کا سکوت توڑتے ہوئے کہا ۔
” نہیں مجھے یہ سب گوارا نہیں ” وہ مضبوط لہجے میں بولی ” میں اپنا شوہر نہیں بانٹ سکتی ۔ شوہر کیا کوئی مکان ہوتا ہے جس کے کمرے آپس میں  بانٹ لئے جائیں ۔ ۔ ؟ انسان کو آپ کیسے  بانٹ سکتے ہو ؟ ”
کمرے کی فضا اک بار پھر بوجھل ہو گئی
” میں ایسے شوہر کا تصور بھی نہیں کر سکتی جو حرم کا مالک ہو ” ماریا نے فیصلہ کن لہجے میں کہا

Advertisements
julia rana solicitors

”  تو پھر حرم ایسے ہی رہے گا ” اجنبی نے ضدی بچے کی طرح کہا
“اور میں حرم کے پڑوس میں ہر گز نہیں رہوں گی ” اس نے غیر جذباتی انداز میں کہا
” تم مجھے طلاق دے دو ” اس نے آہنی لہجے میں کہا
” کیا ۔ ۔ ؟ کیا کہا ۔ ۔ ؟ طلاق ؟؟ ” وہ حیرت سے چیخ اٹھا ” تمھارا دماغ تو ٹھیک ہے نا ”
” ہاں ، اب ٹھیک ہو گیا ہے ۔” اس کے عزم نے اجنبی کو ششدر کر دیا
” کہاں جاؤ گی ۔ ۔؟ ”
” ابھی معلوم نہیں ” اس نے سوچتے ہوئے کہا ” جانتی ہوں اب کوئی لینڈ کروزر میری راہ نہیں دیکھ رہی ہو گی ۔ کوئی گھر میرا منتظر نہیں ہو گا ۔ لیکن پھر بھی مجھے  جانا ہے ، مجھے طلاق چاہیے۔ ”
اور فہد ۔ ۔ ؟ ” اس نے اس کی ممتا کو جوش دلانا چاہا
” وہ تمھارے پاس رہے گا ”
” کیا کہہ رہی ہو تم ، تم بالکل  پاگل ہو گئی ہو ۔ ۔ پاگل  ” وہ جھنجھلا  کے بولا
” سنو دھیان سے سنو ۔  پہلے تمھاری محبت کے فسوں میں اپنی  آنکھیں بند کر کے تمھارے سہارے ،  تمہارا ہاتھ تھام کے، میں نے گھر چھوڑا تھا لیکن اب  میں اپنا ہاتھ تھام کے اپنی مرضی  سے کھلی آنکھوں کے ساتھ  اکیلی ہی  جاؤں گی ، ایکبار پھر مجبت کی تلاش میں ۔”ماریا نے  اپنا  سوٹ کیس تھاما اور تیزی سے دروازے کی طرف بڑھ گئی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply