نظریہ ارتقاء حقیقت یا افسانہ؟۔شاہزیب صدیقی/آخری قسط

ارتقاء پسند بہت خوبصورتی سے ایک پرانے افریقی النسل انسان ہوموارکٹس کو گوریلوں کی نسل کے ساتھ جوڑ کر اپنے ارتقائی دعوے کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہوموارکٹس کا گوریلوں کی نسل سے کسی طور کوئی تعلق سائنس ثابت نہیں کرپائی، جن فوسلز کو ہوموارکٹس نامی انسان سے پہلے کے گوریلے نما انسان کہا جاتا وہ سب گوریلے تھے اور ہوموارکٹس کے دور میں موجود تھے ، 1991 میں جریدہ سائنس میں تحقیق دان وڈ اور کولارڈ نے مفصل مضمون لکھ کر ثابت کیا کہ ہوموارکٹس سے گوریلوں کی نسل کا کوئی تعلق نہیں تھا، 14 مارچ 1998ء کو رسالہ “نیو سائنٹسٹ” میں سائنسی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہوموارکٹس جدید انسان ہی تھے، ان کو جہاز رانی اور کشتی رانی آتی تھی لہٰذا ان کو کسی طرح انسانوں سے الگ تصور نہیں کیا جاسکتا، جبکہ ارتقاء پسندوں کا دعویٰ یہ ہےکہ ہوموارکٹس پھر قدیم ہوموسیپین نیا نڈرتھالنسس بنا پھر کروماگنون فوسل والا ہومو سیپینز سیپینز بنا،حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ساری درجہ بندی انسانوں کے ہی مختلف خاندانوں کی ہے ، ان کے درمیان فرق فقط اتنا ہی ہے جتنا ایک پاکستانی، امریکی اور جاپانی میں ہے۔ آج کے انسان کے ڈھانچے اور ہوموارکٹس کے ڈھانچے میں کوئی فرق نہیں، ارتقاء پسند کہتے ہیں کہ اس کی کھوپڑی موجودہ دور کے انسانوں کی کھوپڑی کے سائز میں فرق ہے لیکن آج بھی دنیا کے کئی خطوں میں ہوموارکٹس جیسی سائز کی کھوپڑی کے انسان موجود ہیں۔ آسٹریلیا کے مقامی باشندوں کی کھوپڑی کا سائز ہوبہو ہوموارکٹس کی کھوپڑی جیسا ہی ہے۔ جدید تحقیق دان والکر کے مطابق جب اسے ہوموارکٹس کی کھوپڑی ملی تو اسے ہنسی آگئی کیونکہ وہ بالکل جدید انسان جیسی ہی تھی۔ سو ان تم حقائق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ہوموارکٹس دراصل انسان کا ہی فوسل ہے اور انسانوں کی یہ نسل آج بھی افریقہ، اسکیمو اور آسٹریلیا میں موجود ہے اور انسانوں سے ہٹ کر نہیں ہے ۔
ارتقاء پسند دوستوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ موجودہ انسان کا جدامجد دراصل گوریلا ہے ، لیکن ارتقاء پسند دوست اس کہانی کو لمحہ بہ لمحہ بیان نہیں کرپاتے ۔ لُوسی والے مادہ گوریلا کے فوسلز کے علاوہ ارتقاء پسندوں کے ہاتھ 3 مشہور فوسلز لگے ۔ ایک آسٹرالوپیتھیسیز کا، دوسرا ہوموہابلس کا اور تیسرا ہوموروڈولفینسس کا تھا۔ ان تین فوسلز کے متعلق ارتقاء پسندوں کا یہ ایمان ہے کہ یہ گوریلا اور انسان کے بیچ کی ارتقائی مخلوق ہے ۔ سب سے پہلے تو ارتقاء پسندوں نے راماپیتھیکس نامی گوریلے کے محض جبڑے کی ہڈی سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ انسان کا جد امجد تھا لیکن بعد میں اس کو خود ہی خاموشی سے خیالی ارتقائی مخلوق کی فہرست سے ہٹا دیا ۔ جدیدتحقیق سے معلوم ہوا کہ گوریلوں کی تاریخ میں 6 ہزار قسم کے خاندان موجود تھے جن میں سے اس وقت صرف 120 اقسام ہی زمین پر موجود ہیں۔ گوریلوں کے یہ فاسلز ارتقاء پسندوں کے ہاتھ ہڈیوں کا ایک ایسا خزانہ ہیں جنہیں اپنی مرضی سے ناپ کر، بڑے سے چھوٹے تک ایک ترتیب دے دی گئی اور ان کے بیچ کچھ انسانی کھوپڑیاں ملا کر گوریلوں اور انسانوں کے درمیان زبردست تعلق قائم کرنے کوشش کی گئی۔ (Science, April 1987 Edition, Page#7)
سب سے اہم بات یہ ہے کہ انسانوں اور گوریلوں کے مابین اعضاء اور نظام کے لحاظ سے اتنازیادہ فرق موجود ہے کہ ان کا کسی طور پر بھی رینڈم میوٹیشن یا نیچرل سیلیکشن کے ذریعے انسان بن جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، فوسلی ریکارڈ بھی ہر دور میں انسان کا انسان اور گوریلے کا گوریلا ہونے کی نشاندہی کرتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی آسٹرالوپیتھیکس بھی ایک گوریلا تھا جس کے فوسلز آج کل بھی دریافت ہوتے رہتے ہیں، اسٹرالوپیتھکس اور چمپنزی کے ڈھانچے اور کھوپڑی میں مشترک قدریں بالکل واضح ہیں۔ اپنے نظریے کو مصنوعی سہارا دینے کے لئے ہوموہابلس جیسی ارتقائی مخلوق کا ہونا ارتقاء پسندوں کے نزدیک واجب تھا ، 1987 تک ہوموہابلس کو انسان اور گوریلے کی درمیانی کڑی مانا جاتا رہا لیکن ٹم وائٹ کے اس وقت دریافت کردہ فوسلز نے ان دعوؤں کی قلعی کھول دی ، ان فاسلز میں ہوموہابلس کی گوریلوں کی مانند چھوٹی ٹانگیں اور لمبے ہاتھ نمایاں تھے، ماہرین قدیمہ کی تحقیقات کے مطابق آسٹرالوپیتھیسینز اور ہوموہابلس دراصل گوریلوں کی ہی ایک نسل تھی اور انسانوں کے دور میں موجود تھی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ارتقائی کڑی نہیں تھی ۔ (Holly Smith, American Journal of Physical Antropolgy,Vol 94, 1994 Edition, Page#307-325)
1972ء میں ایک اور فوسل دریافت ہوا جسے ہوموروڈولفینسس کا نام دیا گیا اور دعوی کیا گیا کہ یہ ارتقائی کڑی کا اہم ثبوت ہے مگر جدید تحقیق کے بعد سائنسدانوں نے اعلان کیا کہ اسے کسی بھی طرح ارتقائی کڑی نہیں کہا جاسکتا یہ دراصل آسٹرالوپیتھیکس گوریلوں کے خاندان کا ہی فرد تھا۔ (Alan Walker, Scientific American, Vol#239(2), 1978, Page#54)
1912ء میں چارلس ڈاسن کو ایک جبڑے کی ہڈی ملی اور کھوپڑی ملی ، حیرانگی کی بات یہ تھی کہ جبڑے کی ہڈی گوریلے کی جبکہ کھوپڑی انسانی تھی۔ اسے پلٹ ڈاؤن مین کا نام دیا گیا، چالیس سال اس پر بہت سے مضامین لکھے گئے بہت مباحثے ہوئے ، آخر کار اس کو انسانی ارتقاء کا ثبوت مان لیا گیا ، 1949ء میں جب فوسل پر نئے طریقے سے تحقیق کی گئی تو حیران کن نتیجہ سامنے آیا کہ یہ کھوپڑی تو صرف چند ہزارسال پرانی ہے ، اس کے جبڑے میں موجود دانت اس کھوپڑی کے نہیں بلکہ بندر کے تھے، اور یہ کھوپڑی لاکھوں نہیں بلکہ صرف 500 سال پرانی تھی، ان تمام چیزوں کو پوٹاشیم ڈائکرومیٹ سے رنگ کر پرانا بنا دیاگیا تھا، یہ تمام ثبوت آتے ہی فوراً سائنسدانوں نے پلٹ ڈاؤن مین کو فراڈ قرار دے دیا، 1953ء میں اس دھوکے کی تفصیلات کو عام کیا گیا، اس طرح کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ارتقاء پسند اپنے جھوٹے نظریے کو ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے جھوٹ کا سہارا لے سکتے ہیں، ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ارتقاء پسندوں کے پاس گوریلے سے انسان تک کے سفر کوئی پختہ اور واضح دلیل موجود نہیں بلکہ محض تخیلاتی تصاویر کے سہارے ان کا یہ کمزور نظریہ قائم ہے ۔ اسی خاطر ارتقاء پسند ارتقاء کی کہانی کو لمحہ بہ لمحہ بیان کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں کیونکہ نظریہ ارتقاء حقیقت نہیں محض افسانہ ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply