حکیم ناصر خسرو , حجت ِ خراسان۔رشید یوسفزئی

حکیم ناصر خسرو  پانچویں  صدی ہجری کے اہلِ علم و فضل ہیں ،ایک ممتاز مقام کا حامل  شخص گزرا ہے، وہ صفِ اول کا شاعر ہی نہیں تھا، اعلیٰ پائے کا نثر نگار بھی تھا، شاعری اس نے فارسی اور عربی دونوں  زبانوں میں کی اور نثر   کے لیے فارسی کو اختیار کیا، اپنے زمانے کے جملہ علوم،کلام فلسفہ، حساب،ہندسہ، فلکیات، طب و  دارو شناسی، پر اسے عبور  حاصل تھا، اس کا پورا نام ابو معین حمیدالدین ناصر  بن خسرو  القبادیانی المروزی تھا، یہی نام اس نے اپنے سفر نامے کے آغاز میں لکھا  ہے،وہ بلخ کے قریہ قبادیان میں پیدا ہوا ،بسلسلہ ء ملازمت مرو میں مقیم رہا، اس لیے قبادیانی مروزی کہلایا،

وہ 395ھ میں  پیدا ہوا، اس وقت غزنوی کی حکومت تھی، بلخ ان کا سرمائی دارالحکومت تھا، ناصر خسرو دبیری کے عہدےے پر فائز تھا، 436ھ میں سارا علاقہ  سلجوقیوں کے زیرِ  تصرف آگیا، اور چغری بیگ کے دور میں بھی اپنی ملازمت جاری رکھی، لیکن 437ھ میں  جب اس کی عمر بیالیس سال سے  بھی متجاوز تھی تو ایک خواب کے نتیجے میں  اس نے ملازمت کو خیر باد کہہ دیا ، اور بظاہر حج کے لیے روانہ ہوگیا۔ جبکہ اس  کی اصل منزل  قاہرہ تھی، مصر پر اس وقت فاطمی خلیفہ المستنصر بالید کی کی حکومت تھی، فاطمین  مصر اسمائیلی شعیہ تھے، ان کا دارالحکومت قاہرہ ،بغداد اور  قرطبہ کی سی شان و شاکت کا حامل شہر تھا، عوام مسلکی سنی تھے، لیکن خلفائے فاطمیہ نے کبھی اپنے عوام کو  تبدیلی ء  مذہب پر مجبور نہیں کیا، برعکس  صفویوں کے جنہوں نے  ایران پر قابض ہوتے ہی تبدیلیء مذہب پر عوام کو مجبور کیا۔،

ناصر خسرو  اسماعیلی شعیہ تھا، یہ مذہب اس نے کب قبول کیا، آیا وہ سنی تھا یا  اثنا عشری ،اس بارے میں وہ کسی قسم کی معلومات فراہم نہیں کرتا ۔ وہ صرف اتنا بتاتا ہے کہ خواب دیکھنے  سے پہلے وہ شراب کا رسیا تھا،خواب میں اس سے کسی نے کہا  “کب تک یہ  شراب پیتے رہو گے؟ جو خسرو  کو زائل کرتی ہے، بہتر ہے ہوش میں رہو، ”

ناصر خسرو نے کہا”حکما ،سوائے شراب کے کوئی ایسی چیز نہیں بنا سکے جو  اندوہِ دنیا کو کم کردے، ”

جواب دیا” بے خودی اور بیہوشی راحت نہیں ہوتی، وہ شخص  حکیم نہیں جو لوگوں  کو بیہوشی کا درس دے ،بلکہ ایسی چیز کا طالب ہوتا چاہیے  جو خرد و  ہوش میں اضافہ کرے”

ناصر خسرو نے پوچھا۔میں یہ چیز کہاں سے لاؤں

جواب دیا،جو بندہ پابندہ ،پھر قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور کچھ نہیں ۔

اس  انقلاب آفریں خواب سے بیدار ہوکر  ناصر خسرو نے غسل کیا، جامع مسجد میں نماز ادا کی اور شہر سے باہر نکل گیا، اور سات سال  سفر و حضر میں گزارنے کے بعد واپس بلخ پہنچا، لیکن بلخ  کے حالات اس کے حق میں  ساز گار نہ تھے، بقیہ زندگی کے چند سال مازندران اور  بمگان وہ اپنی خؤشی سے نہیں گیا۔اسے وطن کی یاد برابر  ستاتی رہتی تھی۔قیام مازندران کے دوران یہ خؤد کو یہ کہہ کر حوصلہ دیے رکھتا تھا کہ ۔۔۔

برگیر دل ز بلخ و ہمہ تن زہرِ دیں

چوں  من غریب وار بہ مازندران دروں ۔

جبکہ نگمان میں اس کی قلبی کیفیت کا اندازہ اس کے ان اشعار سے کیا جاسکتا ہے  ۔اے بادِ  عصر گر گزری بردیار بلخ

بگزر بہ خانہ من و آنجا جوئے حال

بنگر کہ چوں  شدت پسِ از من دیار من

با او چہ کرد  دہر جفا   جوئے بد خصال

بگمان بلخ سے قریب تھا اور محفوظ پناہ گاہ تھی، وطن کے قریب رہ کر بھی وطن نہ جاسکنا، عجیب حسرتناک ہے۔

ناصر خسرو نے اپنی ابتدائی بیالیس سالہ زندگی اور افکار کے  بارے میں  کچھ نہیں لکھا، اس کی تمام تصانیف مصر سے  واپسی کے بعد کی ہیں ، یہ بات  قریں قیاس نہیں ہوسکتی کہ اس سا نابغہ ء روزگار شخص محض  دبیری ہی کرتا رہا ہو ،اس دور کے افکار  کو بشمول شاعری پوشیدہ رکھنا، تقیہ کا نتیجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، کہ تقیہ اپنے ہم مذہبوں سے  نہیں کیا جا سکتا ۔ اور بحیثیتِ اسماعیلی ہونے کے اس نےاپنی تصنیف کو اسماعیلیہ  مذہبوں  سے چھپا کر نہیں رکھا ورنہ کسی کو ان کی ہوا بھی نہ لگتی،اس کا دس ہزار اشعار پر مبنی دیوان مع  دو مثنویوں سعادت نامہ و روشنائی نامہ کے علاوہ الحکمثین(حکمت یونان و اصول عقائد اسماعیلیاں میں تطبیق) ،خؤان الاخوان، (اخلاق و  موعظت) ،زاد المسافرین(الہیات،طبعیات)گشائش  ورہائش،(اسماعیلی ہم مذہبوں میں سے کسی کے سوالات کے جوابات) ،وجہ دین (اسماعیلی نقطہ نظر  سے کلامی مسائل ،تاویلات ،عبادات،و احکامِ شریعت، کی بحث،اور سفر نامہ ۔

ان تصانیف  میں سے ہر ایک بآسانی دستیاب ہے،سوائے اس عربی دیوان کے جو یقیناً ایک عظیم نقصان ہے۔اور اس کے ہم مذہبوں کی نالائقی ۔فارسی شاعری میں وہ عبصری کا اور عربی شاعری میں وہ بحتری کا ہم ہونے کا دعویٰ کرتا نظر آتا ہے۔

بخواں ہر دو دیوانِ تابعین

یکے گشتہ با عنصری ،بُحتری را!

علامہ قزوینی نے اسے فارسی کے چھ عظیم ترین شعرا،فردوسی، انوری، خیام، رومی، سعدی، اور حافظ کے ساتھ ساتواں عظیم شاعر قرار دیا ہے۔قطع نظر  اس سے کہ یہ سنائی ،ططار، نظامی ،امیر خسرو، اور جامی کے ساتھ زیادتی ہے کہ ناصر خسرو کی شاعری کا کینوس دیگر شعرا  کے مقابلے میں  محدود  ہے،سوائے بمقابلہ خیام، اس میں کوئی شک نہیں کہ ناصر خسرو بحیثیت  شاعر صفِ اول کا شاعر تھا۔ اس کی شاعری صاف،شستہ زبان میں ہے۔ اور مصنوعی مضامین ،ہجر و وصال ِ یار  ،خمِ گیسو، رقیبِ روسیاہ، محبوبہ دلبر کی دلربائی، بے وفائی، اپنی وفاداری، جانفشانی، مجنوں اور فرہاد سے مقابلہ،عشق سے پاک،ہے۔وہ ایک فلسفی شاعر ہے۔ اور فلسفیانہ  مضامین ہی اس کی شاعری  کے موضوعات بھی ہیں ، ہوسکتا  ہے اس کی عربی شاعری بھی اسی انداز کی رہی ہو، جس طرز و  انداز کی فارسی شاعری  ہے۔شاعری کو اس کے نقطہ  نظر سے حکمت و موعظت پر مبنی  ہونا چاہیے تاکہ پڑھنے اور سننے والے اس سے فائدہ اٹھاسکیں ،

ناصر خسرو اپنے خواب  کے نتیجے میں جس  تحول و انقلاب کا ذکر کرتا ہے وہ شراب نوشی  اور لہو ولعب  کی زندگی ترک کرکے تقویٰ اور پرہیز گاری کی زندگی  اختیار کرنے کے بارے میں ہے۔ ناصر خسرو  کے  کچھ اشعار میں  یہ تاثر ملتا ہے کہ  فعل و نحک کی آزادانہ تحقیق کے بعد اس نے اسماعیلی مذہب اختیار کیا تھا لیکن در حقیقت ایسا نہیں تھا، وہ پیدائشی مسلمان تھا۔ اور اس کی  تحقیق و تفتیش  ،فلاسفہ کی طرح  آزادانہ نہیں تھی۔ بلکہ اسلامی فرقوں  میں سے کسی ایک کو  دیگر  فرقوں پر  ترجیح  دینے تک محدود  تھی۔ وہ 16 رجب 437ح کو ابوالعلا مصری کے شہر معرۃ النعمان پہنچا اور 15رجب کو وہاں سے کوچ کیا۔ ابو العلا اس وقت زندہ تھا، اور اپنے شہر  میں موجود تھا، ناصر خسرو  اس کا ذکر ان الفاظ میں کرتا ہے۔

“درآں  شہر مردے بو کہ اورا ابوالعلا  معری می گفتند،نابینا بود ورئیس شہر اوبود نعمتے بسیار  داشات و بندگان و کارگزاراں  فراواں و خود  ہمہ شہر او را، چوں بندگان بودند و خؤد طریق  زہد پیش گرفتہ بود و گلیمے پوشیدہ و در خانہ نشستہ نیم من(ایک پاؤ) نان جویں راتبہ کردہ کہ جز آں ہیچ نخؤرد۔۔۔ وے نعمت خویش  دریغ  نہ دارد  و خؤد صائم الدبر قائم اللیل باشف  و بر ہیچ  شغل دنیا مشغول نہ شود  و ایں  مرد در شعر  و ادب بہ درجہ است کہ افاضل  شام و مغرب و عراق  مقراند  کہ دریں  عصر کسے بہ  پاید او نہ بودہ است و نیست ۔۔۔”

عجیب بات ہے کہ  نادرہ روزگار مصری سے ناصر خسرو نے ملاقات کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ابو العلا مصری خود ایک فلسفی شاعر  تھا۔ کیا   اچھا ہوتا جو مل بیٹھتے “دیوانے دو” ۔ناصر خسرو  کو پرسندہ و  جویندہ ہونے  کا معرٹ النعمان میں بھی ثبوت دینا  چاہیے تھا۔، مصری کا دروازہ ہر کسی کے لیے کھلا  رہتا تھا ۔(در سرائے باز نہاوہ است) عین ممکن ہے کہ حج پر جانے والے زاد المسافرین کے مسافر  مصنف، ناصر خسرو کی ابو العلا مصری اس اشعار سے تواضع کرتا ہے۔

(اشعار کا ترجمہ”یعنی مجھے تعجب ہے کسریٰ اور اس کے ہمنواؤں مجوسیوں پر جو گائے کے پیشاب  سے منہ دھوتے ہیں ،اور نصاریٰ  پر بھی کہ خدا کو مغلوب کیا جاسکتا ہے،وار زندہ خدا پر ظلم کیا جاسکتا ہے،اور وہ کچھ نہیں کرستا ، اور یہودیوں پر بھی کہ خدا  خون کے چھینٹے اور جلے ہوئے گوشت کی دھونی پسند کرتا ہے،اور ان لوگوں پر بھی کو دور دراز شہر  سے ری جمار اور پتھر کو  بوسہ دینے آتے ہیں ، کس قدر عجیب ہی نان کی یہ باتیں ،کیا حق کسی کو نظر نہیں آتا  ؟کیا اندھے ہوگئے ہیں سارے؟)۔۔

فلسفے میں ناصر  خسرو کو پایہ فارابی ،بوعلی سینا  و ابنِ رشد وغیرہ سے فرو تر ہے۔ اس نے زادالمسافرین میں فلسفے  کو مذہب کی اور مذہب کو فلسفے کی کنیز بنا کر رکھ دیا ہے۔ دیگر مسلمان فلسفیوں کی طرح اس  کے نزدیک بھی نفلاطونیت فلسفے کی معراج ہے۔ لیکن اس کے لیے نہ  اسماعیلیہ کو  اور نہ ناصر خسرو کو مطعون قرار  دیا جاسکتا ہے۔ نوفلاطونیت تصوف  میں بھی پورے طور پر موجود ہے ۔،خود  اسماعیلی فلاسفہ میں حمید  الدین کرمانی کا پایہ ناصر خسرو سے بلند تر ہے ۔اندریں صورت ناصر خسرو کا یہ دعویٰ

ز تصنیفات من زاد المسافر

کہ معقولات را اصل است قانون

اگر بر خاک، افلاطون بخوانند

ثنا خواند مرا خاکِ فلاطون

شاعرانہ تعلی سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا ، افلاطون کے مقابلے میں اسی طرح کی تعلیاں بعض صوفیا سے بھی سرزد ہوئی ہیں ،حتیٰ کہ  سرسید  احمد خاں سے بھی جو صوفی منش تھے ۔

فلاطون طفلکے باشد بہ یونانے کہ من دارم

جبکہ بقول الفریڈ  نارتھ  وائٹ پیڈ  افلاطون کے بعد کا سارا فلسفہ ،افلاطون کے فلسفے پر فٹ نوٹ یعنی حواشی نویسی ہے ۔

مخالفین کا کام مخالفت کرنا ہے،جائز ہو یا ناجائز  ،ناصر خسرو کے  مخالفین نے بھی اس  پر طر ح طرح کے الزامات لگائے، اسے دہریہ ،ملحد حتیٰ کہ جادوگر تک کہا گیا۔ وہ نہ تو دہریہ تھا نہ ملحد و جادوگر،رسولاللہ ﷺ کی رسالت  و نبوت کا قائل تھا۔ جو  شخص توحید باری تعالیٰ کے بارے میں  ان اشعار کا خالق ہے۔

بنام کرد گار فرد دارو

کہ ہست از وہم و فکر و عقل برتر

ہم و اول ہم و آخر و مبدا

نہ اول بود و نہ آخر اور را

خرد حیراں شدہ از کہنہ ذاتش

منزہ داں ز اجرام و جہاتش

ورائے لامکانش آشیاں است

چہ گویم ہرچہ گویم  بیش ارزاں است

ایسے شخص کو دہریہ اور ملحد  کہنا ظلم اور ناانصافی ہے۔ اصل میں ہر فرقہ دوسرے فرقوں کو گمراہ سمجھتا ہے،اس کے بارے میں بولے جانے والے جھوٹ کو بھی سچ  سمجھ لیتا ہے، امیر  ابو المعالی محمد بن عبداللہ ،یکے از سادات علوی نے بھی اپنی تالیف ،بیان الادیان میں جو  485ح میں مرتب کی گئی،لکھا ہے کہ ناصر  خسرو کے اصحاب الناصر یہ کہلاتے ہیں ، “بسیار  از اہل طبرستان از راہ برفتند  و آں مذہب گرفتہ ‘ وار ” بہ یمگاں مقام داشت و آں خلق را از راہ بیرد و آں طریقت او آنجاست”

حقیقت صرف اتنی ہے کہ ناصر خسرو  “الناصریہ” نام کے فرقے کا بانی نہیں تھا۔ وہ  وہی مذہب رکھتا تھا جو  فاطمین  مصر کا تھا۔ مصر سے ساے حجت  خراسان بنا کر بھیجا گیا تھا ۔،اور وہ اسی مذہب کا پیروکار  او رپرچارک تھا۔مصر  میں مویدالین شیرازی اس کا  مینٹر تھا اور نہ مویدالدین  شیرازی کسی نئے مذہب کا بانی تھا۔اور نہ ناصر خسرو  /جس شخص کا یہ عقیدہ ہو

سوئے حق الیقین رہ انبیا راست

کمال معرفت مر  مصطفیٰ راست

نہ دارد  زانبیا کس پایہ او

شرف ہوہر دو کون از سایہ او

بداں پایہ رسیدن نیست کس را

بعمدا  کس شہ پیماید ہوس را

 

اسے کسی دوسرے فرقے کا مسلمان  کیونکر گمراہ ،دہریہ اور ملحد ٹھہرا سکتا ہے۔اس میں کوئی  شک نہیں کہ  خود ناصر کسرو کی نظر می ن بھی دیگر  تمام فرقے ،سنی۔خوارج ،اثنا عشریہ۔اور دیگر  غیر فاطمی شعیہ  راہ راست پر نہیں ،  او فرقہ وارانہ تنگ نظری اس میں بھی موجود ہے۔اور ی ہتنگ نظری کسی بھی فرقے سے متعلق  ہونے پر خودبخود  در آتی ہے، ورنہ اس فرقے سے تعلق اپنا جواز کھو بیٹھتا ہے۔

 

ناصر خسرو  کی حیات اور آثار  افکار رپ ایک کتاب  “ناصر خسرو” لعل بدخشاں

از ایلس  ہینس برگ،منصہ شہود ہر چند سال  پہلے آئی ہے۔ جو انسٹی ٹیوٹ آف اسماعیلی سٹڈیز  لندن مولف  سے لکھوائی ہے۔ جو پونے تین سو صفحات کی یہ کتاب  ایسی نہیں کہ ہمیں ناصر خسرو کے بارے میں  دیگر کتب سے بے نیاز کردےعلاوہ ازیں  یہ کوشش تسامحات سے بھی خالی نہیں ،کتاب کا ذیلی عنوان  “بدخشاں کا لعل” شیخ فرید الدین عطار سے منسوب  ایک کتاب “لسان الغیب” کے ان اشعار سے  ماخوذ ہے۔

فاضل مولف نے اس بات سے غرض نہیں رکھی کہ  لسان الغیب فردیالدین  عطار کی تصنیف  ہے بھی یا نہیں ، عطار سے ایک  لسان الغیب ہی  نہیں، خسرو نامہ بھی منسوب ہے، جو ایک  ایسے جعل ساز کی تصنیف  ہے۔ جو نہ صرف خود  فریدالدین عطار بن بیٹھا ہے بلکہ عطار کی جینوئن تصانیف کو بھی اپنا مال بنا کر پیش کیا ۔ یہ جعلی عطار عطار یا کوئی دوسرا جعلی عطار   ناصر خسرو کو

true offspring of the prophet

کہہ رہا ہے۔

اور مولف کو معلوم ہے کہ ناصر خسرو حسین رض کی ذریت میں سے نہیں تھا۔ فاضل مولف  نے انوری کے ایک معروف و مشہور قطعہ کو دیوان ناصر خسرو میں پاکر ،جو الحاقی ہے، اور انوری کے اسلوب سخن کے عین مطابق اور ناصر خسرو کے اسلوب سخن کے بالکل غیر مطابق ہے۔درج کردیا ہے۔

ابتدائی شعر یوں ہے،

نشیندہ ای کہ زیر شنارے کدو بنے

ہرجست و برد وید برور برور بیست

Advertisements
julia rana solicitors london

الحاقی کلام تقریباً ہر بڑے شاعر  کے دیوان میں موجود ہے،رومی شمس تبریز میں شمس مغربی اور شمس طبی کا کلا شامل ہے،عمر خیام سے منسوب ساری رباعیاں خیام کی نہیں ۔لیکن یہ ایک علیحدہ  معاملہ ہے۔جس کی تفصیلات میں پڑنے کا یہ موقع نہیں ۔

 

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”حکیم ناصر خسرو , حجت ِ خراسان۔رشید یوسفزئی

Leave a Reply