ترقی جو صرف اشتہاروں اور سروے تک نظر آئے

موجودہ حکومت کی کارکردگی ٹی وی پر چلنے والے اشتہاروں اور رپورٹوں میں تو ضرور دکھائی دے رہی ہے لیکن اس ترقی کے ثمرات سے عوام ابھی تک مستفید نہ ہو سکے بجلی کا بحران تو کیا حل ہونا تھا لوگ پانی کو بھی ترس گئے .سردیوں کے شروع ہوتے ہی گیس بھی گھریلو صارفین سے ایسے روٹھتی ہے جیسےکسی بدقسمت سے اسکی تقدیر  ،نجانے پلڈاٹ کے سروے کہاں کیے جاتے پلڈاٹ  والوں سے التماس ہے کے  ذرا ان گھروں میں جا کر سوا لنامے بھروائیں جہاں رات کے دو بجے تین گھنٹوں کے لیے پانی آتا ہے اور خواتین راتوں کو جاگ کر مشین لگاتی ہیں کپڑے دھونے اور پانی کے ٹینک بھرنے کے لیے .یا پھر ان متوسط تنخواہ دار طبقے کے گھروں تک بھی پہنچے  جہاں دو گھنٹے بھی پانی نہیں اتا  اورجو بے چارے  پانی کے ٹینکر ڈلواتے  ہیں اور یوں انکو زندگی کی وہ بنیادی ضرورت جو حکومت کی ذمہ داری ہے وہ بھی خریدنی پڑتی ہے جسکی وجہ سے انکے مہینے کا بجٹ انکی تنخواہوں سے بڑھ جاتا ہےاگر اس متوسط طبقے کی راۓ بھی جانی  جاۓ تو شاید ان سرویز کے نتائج مختلف ہوں.
اشتہاروں میں ہوتی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ  ہر تین گھنٹے کے بعد جب بجلی جاتی ہے اورشیر  خوار بچے گرمی میں بلبلاتے ہیں تو انکی مائیں واپڈا والوں کو جو بد دعائیں دیتی ہیں اے کاش ! وہ بھی کسی سروے والوں کے کانوں تک پہنچیں ! اور وہ کارخانہ دار مزدور، درزی ،مکینک ،الیکٹریشن جن کا روزگار بجلی کی عدم فراہمی سے متاثر ہوتا ہے  حکومت کی شان میں وہ  قصیدے پڑھتے ہیں کے  ان پر رپورٹ تو کیا پوری مُغَلَّظات کی لغت تیار ہو جاۓ .پرنجانے  یہ سوال نامے کہاں بٹتے ہیں کہاں جواب لکھے جاتے ہیں یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہےہم تو یہ جانتے ہیں کے مخلوق خدا تکلیف میں ہے
اگر پاکستان کی ترقی کے اعداد و شمار دکھاتی رپورٹوں کو ان ماؤں کی آراہ کی روشنی میں مرتب کیا جاۓ جن کے بچے ہسپتال میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے وینٹی لیٹر پر دم توڑجاتے ہیں  توشاید آگاہی ہو کے ترقی اعداد کے ہیر پھیر کا نام نہیں بلکہ عوام تک بنیادی حقیقی سہولیات پہنچانے کا نام ہے .پر بھلا ہوں بڑی بڑی آڈٹ اور سروے کمپنیز کاجو  ایئر کنڈیشنر کمروں میں بیٹھ کر حکومت کو ترقی کے ان آسمانوں پر بٹھاتے ہیں کے زمین کے باسیوں کی پرواز تخیل بھی وہاں پہنچنے سے قاصر رہتی ہے اور پھر ایک قلندر کی آواز آتی ہے کے” شہباز تیری پرواز سے جلتا ہے زمانہ “دراصل  زمانے کو سمجھ ہی نہیں آتی کے پانی ،بجلی، تعلیم، صحت کے نہ ہونے کے باوجود میٹرو کے ذریعےترقی ہو سکتی ہے بیوقوف کہیں کے .
اس ترقی کا ہی اعجاز ہے کے لوگ پنشن کی قطاروں میں لگ لگ کے مر جاتے ہیں یا پنشن نہ ملنے پر خودکشی کر لیتے ہیں ،کہیں انصاف نہ ملنے پر حوا کی بیٹی پولیس سٹیشن کے باہر خود کو آگ لگا دیتی ہے تو کہیں باپ اپنے جگر گوشوں کو فروخت کے لیے بازار لے آتا ہے شاید ان لوگوں نے نہ تو یہ اشتہار دیکھے ہیں اور نہ ہی یہ رپورٹیں پڑھی ہیں جن میں پاکستان ترقی کر رہا ہےورنہ یوں اپنی جانیں نہ دیتے
اسی بےمثال ترقی کے سفر میں ہی  تھر میں قحط پڑا ، اسی ترقی کا کمال ہے کے سیاستدان ایک دوسرے کی کرپشن کی فائلیں بغل میں دباۓ پھرتے ہیں اور ضرورت پڑھنے پر ایک دوسرے کو با بانگ دہل میڈیا میں بلیک میل کرتے ہیں اگر کسی کی کرپشن کا کیس عدالت پہنچ بھی جاۓ تو اس میں آئینی اور  قانونی پیچدگیاں ڈھونڈھی جاتی ہےعدالت کو بتایا جاتا ہے کے عدالت یہ کیس نہیں سن سکتی ،یا ادارے اپنے دائرہ اختیار سے باہر جا کر کرپشن نہیں پکڑ سکتے چلیں جی کیس پر مٹی ڈالیں  شاید کرپشن ہی وہ واحد شعبہ ہے جس میں پاکستان ترقی کر رہا ہے اور یہ ترقی ہسپتالوں،تعلیمی اداروں اور سرکاری دفاتر میں تو عام آدمی کو تو  دکھائی دے رہی ہے لیکن ان سروے کرنے والوں کو  نجانے کیوں دکھائی نہیں دیتی!!
صباء فہیم

Facebook Comments

صبا ء فہیم
نہ میں مومن وچ مسیتاں نہ میں وچ کفر دی ریت آں نہ میں پاکاں وچ،پلیت آ ں نہ میں موسیٰ نہ فرعون کیہ جاناں میں کون ؟؟؟

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply