قصّہ انجمن کی دوسری شادی کا۔۔۔۔اسما ظفر

خبر یہ ہے کہ ماضی کی پنجابی فلموں کی مشہور اور صف اول کی اداکارہ انجمن بیگم نے 64 برس کی عمر میں لکی علی نامی بلڈر، اداکار اور فلمساز سے دوسرا نکاح کرلیا. اس خبر پر رد عمل کے حوالے سے ایک ملا جلا رجحان دیکھنے میں آیا البتہ اکثریت نے انہیں تضحیک اور تمسخر کا نشانہ بنایا۔
میری نگاہ میں نہ تو یہ مذہبی رو سے غلط عمل ہے اور نہ ہی معاشرتی رو سے کوئی جرم، پھر ہماری عوام کو اتنی تکلیف کیوں ہے یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔ مرد حضرات شاید اس لیے غصہ میں بھرے بیٹھے ہیں کہ بھائی لکی کی طرح وہ کیوں ایسے لکی نہیں ہیں اور خواتین کو اس بات کا دکھ ہے کہ آئے ہائے اس عمر میں کاہے بیاہ رچا کر بیٹھ گئی، یہ تو اس کے اللہ اللہ کرنے کے دن تھے۔ جبکہ اندر سے تو وہ بھی پیچ و تاب کھا رہی ہیں کہ اسے اس عمر میں بھی دولہا مل گیا۔
نکاح نہ صرف اسلامی معاشرتی نظام کا ایک اہم رکن ہے بلکہ دیگر عقائد اور تہذیبوں کا بھی حصہ ہے، یہ وہ عمل ہے جو زوجین کو حلال طریقے سے ازدواجی رشتے میں باہم منسلک کرتا ہے۔
مشرق ہو یا مغرب یہاں سے وہاں تک کہا جاتا ہے کہ

Marriage is one of the universal social institutions established to control and regulate the life of mankind.
گویا شادی ایک ایسا سماجی ضابطہ یا دستور ہے جو مہذب معاشروں میں نسلِ انسانی کی تعمیر اور ترتیب کے لیے ناگزیر ہے. جیسا کہ شادی ایک معاشرتی دستور ہے تو اسے چلانے کے واسطے کچھ اصول و ضوابط اورنظم و نسق کی ضرورت تو رہے گی۔
یہاں اگر ہم مختلف عقائد کی روشنی میں شادی کی تعریف کریں تو بدھ ازم کے مطابق

For Buddhism marriage is a secular institution.
شادی انسانی اقدار پر ٹکا ایک دنیاوی ضابطۂ حیات ہے.
پھر ہندو ازم پر نگاہ کی جائے تو

“Hindu Marriage joins two individuals for life, so that they can pursue dharma (duty), artha (possessions), kama (physical desires), and moksha (ultimate spiritual release) together. It is a union of two individuals as husband and wife, and is recognized by law. ”
شادی, حیات کے ضابطوں میں دو افراد کا ایسا باہمی ملاپ ہے کہ جس کی روشنی میں وہ دونوں فریق مل کر فرائض, ملکیت, جسمانی سکھ اور روحانی کیفیات کے حصول کی سعی کرتے ہیں. یہ دو جد جدا شخصیات کا ایسا سمبندھ ہے جسے قانون اپنے سائے تلے ایک جداگانہ شناخت بخشتا ہے.

اب عیسائیت اور یہودیت سے بھی کچھ حوالے لیے جائیں تو بائیبل سے بڑا ذریعہ کیا ہو سکتا ہے

Hebrews 13:4 Let marriage be held in honor among all, and let the marriage bed be undefiled, for God will judge the sexually immoral and adulterous.
آئیے شادی کو عصمت اور عظمت کی سبھی جہتوں میں بلند مقام دیں, اور اسے ایک مطہر اور پاکیزہ بچھونا بنائیں کہ تمہارا پروردگار انصاف اور تخصیص کرنے والا ہے ہرفاسق و فاجر جنسی عمل کی.

اب اگر اسلام سے حوالہ لیں تو پیارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کو اپنی سنت قرار دیا
”النکاح من سنّتی“
نکاح کرنا میری سنت ہے.
اِذَا تَزَوَّجَ الْعَبْدُ اِسْتَکْمَلَ نِصْفَ الدِّیْنِ فَلْیَتَّقِ فِیْ النِّصْفِ الْبَاقِیْ
جو کوئی نکاح کرتاہے تو وہ آدھا ایمان مکمل کرلیتاہے اور باقی آدھے دین میں اللہ سے ڈرتا رہے۔
ارشاد ربانی ہے کہ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلاً مِّنْ قَبْلِکَ وَجَعَلْنَا لَہُمْ اَزْوَاجًا وَّ ذُرِّیَّةً
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے آپ سے پہلے بھی یقینا رسول بھیجے اور انہیں بیویوں اور اولاد سے بھی نوازا.

نکاح کے لیئے اگر کچھ لازم ہے تو وہ ہے طرفین یعنی مرد اور عورت کی باہمی رضا مندی یعنی لڑکا لڑکی راضی تو کیا کرے گا قاضی ۔۔۔۔۔اگر عمر کی شرط ہے تو وہ بلوغت سے مشروط ہے۔ جو عموما لڑکے کے لیے اٹھارہ اور لڑکی کے لیے قریبا سولہ تصور کی جاتی ہے ۔ لیکن کہیں بھی زیادہ سے زیادہ عمر کی شرط نہیں ملتی نہ تو مرد اور نہ ہی عورت کے لئے۔ پھر ہمیں اعتراض کا کیا حق پہنچتا ہے خواہ وہ بیگم انجمن ہوں یا کوئی بھی سن رسیدہ خاتون جب دین انہیں اس بات سے نہیں روکتا ؟
ہمارا سماج دوغلی اور چھوٹی سوچ کی عکاسی پر کیوں مصر ہے۔ ایک فلمی ہیروئن اگر طویل عرصے تک بن بیاہی رہے تب اعتراض، چھپ کر نکاح کرلے تو اعتراض، دنیا کو بتا کر دھوم دھام سے بیاہ رچائے تب بھی اعتراض اور یہ اعتراضات صرف ٹی وی اور فلموں کی ہیروئنوں کے لئے ہی نہیں ہیں بلکہ ہر وہ عورت جس کا معاشرے میں کوئی خاص مقام ہو جو اس نے اپنی محنت سے بنایا ہو ہو اس کا نام ہو۔ ہم اسکے ایک ایک قدم کو دشوار بنانے اور تنقید کرنے میں ماہر ہیں وجہ شاید ایک عورت کا وہ اونچا مقام ہے جسے وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں اپنی محنت اور ڈیڈیکیشن سے حاصل کرتی ہے اور یہ بات ہم میں سےاکثر لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی اور ہم اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ کب ہمیں موقع ملے اور ہم اس کی کردار کشی اور تلخ الفاظ سے سنگ زنی کی مہم کا آغاز کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے اس سماج میں انجمن بیگم پہلی اور آخری خاتون نہیں ہیں، کہ جنہوں نے دوسرا نکاح کیا۔ یقینا ایسی لاکھوں اور بھی خواتین ہوں گی لیکن انجمن چونکہ ایک سلیبریٹی ہیں اور لائم لائٹ میں رہتی ہیں سو انن۔کا ایک نام اور مقام ہے اس لیے یہ بات سبھی کی نظر میں آگئی لیکن ناقدین کی تنقید کا تو یہ معاملہ ہے کہ اس سے کسی کو مفر نہیں ۔مرد ستر برس کی عمر میں سولہ برس کی لڑکی بیاہ لائے تو کوئی اعتراض نہیں کرتا تو بیگم انجمن کے شرعی نکاح پر بے جا تنقید کیوں؟
انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، انہیں اہنے ذاتی نکاح کے لیے ہماری اجازت کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔
و ہ طویل عرصے سے تنِ تنہا زندگی گزار رہی تھیں، کیسے، کیونکر، کس حالت میں اور کس کرب کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات ہم نہیں جانتے، ان کے بچے جوان ہو چکے، گھا بار والے ہو چکے، بچوں کا رویہ ان کے ساتھ کیسا ہے۔۔۔۔۔۔ ہم نہیں جانتے، انکی مالی حالت کیسی ہے یہ بھی ہم نہیں جانتے۔ علم ہے تو فقط اتنا کہ انہوں نے اس ادھیڑ عمری میں دو سرا نکاح کر لیا اور یہ تو غضب ہوگیا۔ صرف فیس بک پر ہی صارفین کی والز دیکھی جائیں تو انتہائی شرمناک کمنٹس اور اسٹیٹس دیکھ کر یہ احساس جنم لیتا کہ ہمارا سماج عورت کو اس کا جائز حق دینے کو بھی تیار نہیں۔ یہی انجمن اگر اس عمر میں کسی سے ناجائز تعلق رکھتی تو شاید یہ کہہ کر چپ ہو جاتے یہ فلم والیاں تو ہوتی ہی ایسی ہیں لیکن نکاح کر لیا تو گناہ ہوگیا ؟
ہمارے سماج کے نام نہاد ناقدین نے تو عامر لیاقت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا کہ جب انہوں نے ایک کم عمر لڑکی سے بیاہ رچا لیا۔ مجھے اعتراض ان کے نکاح پر نہیں بلکہ ان کے رویے پر رہا کہ انہوں نے اپنی ٹویٹس کے ذریعے اپنی جوان بچی کے ٹویٹ کے جواب میں جو سلیقہ اپنایا وہ قابلِ گرفت تھا۔
دوسری شادی یقینا ان کا بھی حق تھا مگر جوان اولاد کو راضی کر لیتے تو زیادہ اچھا تھا ۔
بقول بیگم انجمن انہوں نے طویل تنہائی کاٹنے اور بچوں کے جوان ہونے کے بعد ان کے رویے سے پریشان ہو کر یہ فیصلہ لیا۔ اگر وہ یہ وضاحت نہ بھی دیتیں تب بھی ہم ان سے ان کے نکاح کا حق نہیں چھین سکتے محض بنیاد پر کہ وہ ایک عمر رسیدہ چونسٹھ سالہ خاتون ہیں لہذا ان پر نکاح حرام ہوا۔
اے دنیا! کبھی تو کسی کو چین کی سانس لینے دیا کر، زندگی کو دوجوں کے لیے دشوار نہ بنا جو حق اسے دین نے دیا اسے تم اور ہم چھیننے والے کون ہوتے ہیں ؟
زندگی آسان اور نکاح عام کریں تا کہ برائی کا راستہ رک سکے۔ ہمارے اردگرد ایسے کئی مرد اور خواتین موجود ہوتے ہیں جو اپنے ساتھی کی موت یا طلاق کے بعد تنہا اور تکلیف دہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں لیکن معاشرے کے ڈر سے دوسرا نکاح نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ ایک درخواست ہے کہ اگر ہم انکا ساتھ نہیں دے سکتے تو کم از کم انہیں اتنا حق تو دیں کہ وہ اپنے لیے جائز طریقے سے ایک ساتھی چن لیں۔ بے جا تنقید، تذلیل، تمسخر، ٹھٹھہ، نفرین اور اپنے کاٹ دار طنز سے انہیں ایک جائز کام سے روک کر ہم شاید انہیں ایک ناجائز کام کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ انجمن بیگم کی شادی ہمارے اس سو کالڈ معاشرے کے لئے شاید ایک مزاح بھری تفریح ہو مگر انہوں نے جس بہادری سے بنا جھجھکے سرِ عام اس نیک عمل کو انجام دیا یہ دوجوں کے لیے ایک عمدہ مثال اور باعثِ حوصلہ بات ثابت ہو گی۔ خاص کر ان خواتین کے لیے جو اپنی زندگی بچوں کے جوان ہو جانے کے بعد تنہا گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہیں کیونکہ ہمارا سماج انہیں اس بات کی آزادی نہیں دیتا ہے.
آخر میں انجمن جی بہت بہت مبارکباد اور نیک تمناؤں کے ساتھ یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کو ان کے اس نئے رشتے میں خوش و خرم رکھے, آمین۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply