افغانستان میں دیرپا امن کی بجھتی امیدیں

پورے خطے میں جان لیوا آگ بھڑک رہی ہے۔ پوری دنیا میں اس آگ کی تپش محسوس کی جا رہی ہے، مسلم ممالک میں بالخصوص، جسے مسلمان سامراج کی سازش کہہ کر خود سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بے شک اس بد امنی، برادر کشی اور انسان دشمنی میں مسلمانوں کا بھی قصور ہے۔ بلکہ زیادہ قصور تو مسلم حکمرانوں اورمذہب کی قبائلی و عائلی تفہیم کرنے والے ان علما اور فتویٰ گروں کاہے جو اپنی انا اور عدم برداشت کی نفسیات کے ساتھ دین و مذہب کو انسان کش ہتھیار کے طور استعمال کرتے ہیں۔ سارے مسلمانوں میں ایک قدر مشترک ہے۔۔۔ ماضی پرستی۔ امید کے نئے دیئے البتہ غزوہ ہند اور حوروں پر غالب آنے سے روشن ہیں۔ہم اس پہ کیا بحث کریں کہ غزوہ ہند کہاں سے،کیسے اور کس کی کمان میں شروع ہو گا؟ آیا اس حدیث شریف کے راویان پہ بھی علم الرجال کے ماہرین کو بحث کرنی چاہیے یا نہیں؟ صاحبان علم و ہنر کو اس حوالے سے عام مسلمانوں اور بالخصوص اس خطے کے مسلمانوں کہ جسے خراسان بھی کہا جاتا ہے،کی رہنمائی ضرور کرنی چاہیے کہ مولویانہ روش نے کئی فکری مغالطوں کو جنم دیا ہے۔

داعش کے دہشت گرد بھی خراسان خراسان کرتے سامنے آنے والے ہر انسان اور کلمہ گو کا گلا کاٹ رہے ہیں، القاعدہ والے بھی غزوہ غزوہ کھیلتےہیں، النصرہ، الشباب، افغانی و پاکستانی طالبان، الغرض اس فکر کے سارے مسلح جتھے ایک عالمی خلافت کا خواب آنکھوں میں سجائے قتل وکفر کے فتووں سے لیس انسانیت پر حملہ آور ہیں۔ حیرت انگیز طور پہ ایک سا مقصد رکھنے والے آپس میں بھی بر سر پیکار ہیں۔کیوں؟ معاشی مفادات کے لیے۔مقصد ارفع نہیں ہے۔فکری مغالطہ ہے۔ اگر واقعی سارے ایک عالمی خلافت کے قیام کے لیے انسانوں کو مار رہےہیں تو ان کی ایک سینٹرل کمانڈ بھی ہونی چاہیے۔ عالمی خلافت کے خدو خال کی تشریح بھی مگر شام، لیبیا،عراق،یمن،تیونس،نائیجیریا، ایران،پاکستان اور افغانستان،میں نام نہاد جہادیوں کے کئی ایک گروہ امن اور اسلام کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔اس امر میں کلام نہیں کہ اس قتل و غارت کے پیچھے فتویٰ کاری کا ہاتھ ہے۔ نائن الیون کی دہشت گردی کے بعد امریکہ نے وہی ردعمل دکھایا جو اسے دکھانا چاہیے تھا۔ ہم اپنے دل میں اس درد کو خلوص نیت سے پالتے رہے کہ امریکہ و مغرب نے ایک مسلمان ملک پر حملہ کیا۔زمینی حقائق مگر ہمارے درد سے ہم آہنگ نہیں۔ آپ لاٹھیوں، راکٹ لانچروں اور کلاشنکوف و خود کش حملوں سے ،سائنس و معاشیات اور منصوبہ سازی میں مضبوط ترین ملک پر حملہ آور ہوں گے تو وہ آپ کا بھرکس تو نکالے گا۔

افغانوں کی دین کےحوالے سے اپنی ایک قبائلی تفہیم ہے۔ظواہر پرستی جس کا نمایاں عنصر ہے۔ دیگر کئی مقامی معاشرتی روایات کو بھی انھوں نے دین و مذہب کا حصہ سمجھ لیا۔یہ آزادی کی جنگ نہیں بلکہ افغان طالبان کی جانب سے دنیا پر قبضے کی جنگ تھی جسے وہ ہار چکے ہیں۔مکرر عرض ہے کہ اس ایک مصرعے نے بھی افغانوں کو بہت مہمیز کیا ۔کہسار باقی،افغان باقی، کہسار تو باقی ہیں مگر افغان در بدر ہو گئے ہیں۔فکری مغالطے فرد سے لے کر قوموں اور تہذیبوں تک کو برباد کر دیتے ہیں۔ایسا ہی ایک فکری مغالطہ نام نہاد مجاہدین میں بھی در آیا تھا کہ وہ فاتح ماسکو ہیں، وہ اس حقیقت کو بھلا بیٹھے کہ ان کی اس فتح میں کلیدی کردار امریکی ڈالروں اور امریکی اسلحے کا تھا جس کی منصوبہ سازی پاکستان میں ہوئی تھی۔ افغانستان کی شورش کئی دہائیوں کا قصہ ہے اور اس میں کئی فکر انگیز موڑ بھی ہیں۔ روسی فوجوں کی واپسی کے بعد افغان کمانڈروں کو کھلا چھوڑ دیا گیا۔ مجاہدین آپس میں ہی ایک دوسرے کے خلاف جہاد کرنے لگے۔ خانہ جنگی اور مارا ماری میں ملا عمر کو دیگر کمانڈروں پر فتح ہوئی اور طالبان کی امارات اسلامیہ افغانستان نامی حکومت کا آغاز ہوا۔ اس حکومت کو دنیا کے تین ممالک نے تسلیم کیا۔ سعودی عرب، پاکستان اور عرب امارات نے۔ کیوں تسلیم کیا؟ تاریخ اس کا جواب ضرور دے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نائن الیون کے بعد امریکہ نے اسامہ بن لادن مانگا مگر افغان طالبان نے انکار کر دیا۔ امریکہ دہشت گردوں کے تعاقب میں نکلا تو پاکستان بھی اس کے ہم رکاب تھا اور ابھی تک پاکستان دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں پہلی صف میں ہے۔امریکہ افغانستان پر قبضہ کرنا چاہتا تو ڈیڑھ دو ماہ میں کر لیتا۔ پندرہ سالوں سے اس کی موجودگی خطے میں امریکی مفادات کا پتا دیتی ہے۔افغانستان میں نئی حکومت ہو یا اس سے پہلے والی، ملا عمر ہو یا ملا منصور، یا طالبان کے نئے امیر،انھیں یہ زعم ہے کہ یہ اب فاتح امریکہ بھی ہیں۔ یہی فکری مغالطہ انھیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ آئے روز بے گناہ انسانوں کا قتل اور اس پر فاتحانہ پریس ریلیز، امن کی موہوم امیدوں کو بھی مٹارہے ہیں۔ افغان طالبان حملے کرتے رہیں گے، امریکہ اپنے اہداف حاصل کر چکا، افغانستان تباہ ہے، افغان در بدر ہیں۔ داعش افغانستان میں قدم جما رہی ہے۔ افغانی طالبان کے سامنے داعش بھی ہے، نیٹو بھی، امریکہ بھی۔ اگرچہ افغانستان میں قیام امن کے لیے اجلاس بھی ہوتے ہیں، امریکہ طالبان سے مذاکرات بھی چاہتا ہے،اور یہی چیز افغانی طالبان کے فکری رویے کو فاتح امریکہ بناتی ہے جس کے باعث وہ مزید قتل و غارت گری کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیا اور خطے میں ایک فاتح گروہ کی حیثیت سے ابھر کر، کابل کو رہنے کے قابل بنا دیں گے، یہ مگر نا ممکن ہے۔ اے کاش جہادکے نام پرنجی بارود باری اور حوروں پر غلبے کی خواہش کے برعکس مسلمان سائنس و تعلیم کی طرف توجہ دیں تو دنیا میں مقام پائیں۔نعروں کی اہمیت جلسہ گاہوں تک ہوتی ہے۔ زمینی حقائق یہی ہیں کہ نہ تو افغانستان میں کئی سال امن کی امید ہے نہ مشرق وسطیٰ میں۔ افسوس کہ یہ صورتحال نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی معیشت و معاشرت پر بھی اثر انداز ہوتی رہے گی۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply