سماجی ذرائع ابلاغ اور ناشائستگی کا معیار

’’سماجی ذرائع ابلاغ اور ناشائستگی کا معیار‘‘
فرنود عالم
نوٹ :(اداریہ “مکالمہ”کا پالیسی بیان ہوتا ہے اور فقط ایڈیٹرز کو لکھنے کی اجازت ہے۔ محترم فرنود عالم نے ایک تحریر لکھی ہے جو پورے سوشل میڈیا کیلیے ایک بہترین پالیسی کا مقام رکھتی ہے۔ اس لئیے “مکالمہ”آج محترم فرنود عالم کی تحریر کو بطور اداریہ شائع کر رہا ہے۔ادارہ)
کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس طور ہمدردی کے لائق ہیں کہ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ بداخلاقی بد تہذیبی اور ناشائستگی دراصل ہے کیا۔؟ کسی کا اپنا کلیہ ہوسکتا ہے، میرا اس معاملے میں اپنا ایک خیال ہے۔ ہر وہ بات جو آپ ایک انسان کے منہ پر نہیں کہہ سکتے وہ دراصل ناشائستہ بات ہے۔
ہمارا رویہ سماجی ذرائع ابلاغ پر کسی بھی شخص کے ساتھ کچھ ہوتا ہے، جب وہی شخص سامنے آجاتا ہے تو رویہ یکسر بدل جاتا ہے۔ نظریں چراتے ہیں، جو باتیں کہتے لکھتے ہیں اس سے بالکل مختلف بات کا اظہار کرتے ہیں۔ مخالفت میں کہی گئی بات کو کچھ اور جامہ پہناتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ۔!
ہم کسی شخص سے متعلق ایسی بات کہتے ہی کیوں ہیں جس کی وجہ سے ہم اس شخص سے نظریں نہ ملا سکیں۔ اور جو بات کسی کے روبرو کہتے ہوئے نامناسب محسوس ہوتا ہے، وہی نامناسب بات کہیں بھی ہمارے لیے لکھنا مناسب کیسے ہوجاتا ہے۔
اس کے علاوہ۔!
ہمدردی کے لائق ایک طبقہ وہ ہے جو اپنی وارداتوں کے لیے جعلی اکاونٹس کے سہارے لیتا ہے۔ یہ سویٹ اور کیوٹ لوگ کسی بھی ناپسندیدہ شذرے پر اپنے اصل اکاونٹ سے اپنی رائے کا قدرے مناسب انداز میں اظہار کرتے ہیں اور جعلی اکاونٹ سے آکر خود اپنی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس جعلی اکاونٹ سے اپنی بنیادی تربیت کا اظہار بھی فرمادیتے ہیں۔
ہمارے جو دوست جعلی اکاونٹ کے محتاج ہیں، ان کے دو ہی مسائل سمجھ آتے ہیں۔
۱۔ جو بات وہ کہنا چاہتے ہیں وہ اپنی شناخت سے نہیں کہہ سکتے۔
۲۔ یا وہ اپنی شناخت کے ساتھ کسی سے مخاطب ہوکر تعلق خراب کرنا نہیں چاہتے۔
پہلی صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو بات آپ اپنی شناخت کے ساتھ نہیں کہہ سکتے وہ بات کہنے کے لیے آپ مجبور ہی کیوں ہیں؟ کوئی مناسب کام کیوں نہیں کرلیتے؟
دوسری صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اپنی شناخت سے ایک بات کہتے ہوئے آپ کو اخلاقی چیلنج درپیش ہوتا ہے، تو جعلی اکاونٹ سے وہی بات کہنا کیا مزید غیر اخلاقی نہیں ہوجاتا۔؟
اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ آپ نے ضمیر کی عدالت سے صدارتی استثنی ٰلے رکھا ہے۔
حرف آخر: ہمیں کہیں بھی کسی کے بارے میں بھی کوئی بھی بات فقط اتنی کہنی اور لکھنی چاہیئے جتنے کے بعد ہم اس شخص کا سامنا کر سکیں۔کسی سے متعلق کچھ بھی لکھتے وقت ہمیں اس شخص کو اپنے سامنے بیٹھا ہوا تصور کرنا چاہیئے۔انسان کا اخلاقی وجود ہی اس کا بنیادی وجود ہے۔ اخلاق کے بغیر انسان کیا، اس کا وجود کیا۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply