• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سقوط ڈھاکہ سے ایک دن پہلے-ملک کا مفاد اسی میں ہے۔۔عبید اللہ چودھری

سقوط ڈھاکہ سے ایک دن پہلے-ملک کا مفاد اسی میں ہے۔۔عبید اللہ چودھری

آج  15 دسمبر 1971 ہے ۔آج  کے دن تک پاکستان کو مسلم دنیا کی آبادی کے لحاظ سےسب سے بڑی ریاست ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ ابھی اس ریاست کو بنے صرف 24 سال ہی گزرے ہیں۔ 1947 سے 1958 تک پاکستان میں  4 گورنر جرنلز اور 7 وزر اعظم  حکومت کر چکے ہیں ۔ اگست 1956 سے پاکستان کے پہلے سیکرٹری دفاع، مشرقی پاکستان کے گورنر ، پاکستان کے 1955 کو بننے والے چوتھے گورنر جنرل اور 1956 اور بعد ازاں پاکستان کے پہلے صدر جنرل سکندر مرزا کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ برصغیر کی تاریخ کے ایک انتہائی قابل نفرت کردار ” میر جعفر” کے سگے پڑپوتے تھے۔ ان کے پر دادا میر جعفر نے نواب سراج الدولہ سے غداری کر کے انگزیزوں کی جیت کا راستہ ہموار کیا تھا ۔ جب ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار لٹا کر وہ برطانیہ میں جلا وطن ہوئے تو اس وقت ایوب خان نے ان کی پنشن 3000 پاؤنڈ مقرر کی ۔ لیکن اس پنشن میں ان کا گزارہ نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت ملکہ برطانیہ ، ان کے کچھ برطانوی اورایرانی دوستوں نے ان کی مالی امداد جاری رکھی۔ ان کی وفات 3 نومبر 1969 کو ہوئی۔ اس وقت کے صدر پاکستان محمد یحیٰ خان نے ان کی میت پاکستان لانے اور یہاں دفن کرنے سے صاف انکار کر دیا ان کے رشتہ داروں کو بھی جنازہ میں شرکت سے سختی سے روک دیا گیا۔ ایرانی بادشاہ محمد رضا شاہ پہلوی نے خصوصی طیارے کے ذریعے اسکندر مرزا کی میت تہران لانے کا حکم دیا، یہاں سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔ ۔۔۔۔۔۔ آج 3 نومبر 1969 ہے اور ابھی تک پاکستان مسلم دنیا کا سب سے بڑی ریاست ہے۔

یہ 20 ستمبر 1958 کی بات ہے۔ پاکستان کے پہلے صدر میجر جنرل سکندر مرزا نے مشرقی پاکستان اسمبلی کی اکثریت کوبچانے کے لئےایک آرڈیننس جاری کیا جس کے تحت سرکاری وکلا کے لیے یہ گنجائش پیدا ہو گئی کہ حکومت کی ملازمت جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اسمبلی کی رکنیت بھی برقرار رکھ سکیں گے۔یہ قانون کتنا اہم اور کتنا متنازع تھا، اگلے ہی روز جب ڈھاکہ میں مشرقی پاکستان اسمبلی کا اجلاس ہوا، اس کا اندازہ ہو گیا۔اجلاس شروع ہوتے ہی حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی جس کی ابتدا عمومی روایت کے مطابق نعرے بازی سے ہوئی جو تھوڑی ہی دیر میں ہلڑ بازی اور دھینگا مشتی میں بدل گئی۔اجلاس شروع ہوا تو مسلم لیگ کے پارلیمانی لیڈر ہاشم الدین نے پوائنٹ آف آرڈر پر یہ نکتہ اٹھایا کہ ایوان میں چھ اجنبی افراد موجود ہیں۔ انھوں نے سپیکر عبدالحکیم سے مطالبہ کیا کہ انھیں ایوان سے نکالا جائے۔اس دوران میں حزب اقتدار کے اراکین سٹیج پر چڑھ گئے اور انھوں نے سپیکر کی کرسی اٹھا کر ایوان میں پھینک دی، اسمبلی کا نشان توڑ دیا اور قومی پرچم اتار پھینکے گئے۔ایوان میں موجود صحافیوں کے مطابق اس کارروائی کی قیادت عوامی لیگ کے سیکریٹری جنرل شیخ مجیب الرحمٰن کر رہے تھے۔ قومی پرچم کی توہین کے بھی مبینہ طور پر وہی مرتکب ہوئے تھے۔ ہنگامہ آرائی کے دوران اسمبلی کے سپیکر عبدالحکیم زخمی ہو گئے جنھیں ایوان سے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ ہنگامہ شروع ہوا تو صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس ایوان میں داخل ہوئی لیکن عینی شاہدین کے مطابق پولیس کے افسروں اور جوانوں کو مارا پیٹا گیا جس پر وہ ایوان سے باہر چلے گئے۔ سپیکر کے ایوان سے باہر جانے کے بعد ڈپٹی سپیکر شاہد علی نے کرسیِ صدارت پر بیٹھنے کی کوشش کی جسے حزبِ اختلاف نے ناکام بنا دیا۔ وہ سپیکر کی کرسی پر نہ بیٹھ سکے تو انھوں نے قائد ایوان کی نشست سنبھال کر سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پڑھ دی اور اس کی منظوری کا اعلان کر دیا۔ یوں چھ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے تنازع کے بعد ایوان ایک اور تنازع کا شکار ہو گیا۔ حکومت اور صوبائی اسمبلی کے سپیکر کے درمیان اس کشمکش کے نتیجے میں ایوان کی کارروائی مکمل طور پر معطل ہو کر رہ گئی۔ تصادم سے اگلے روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر دونوں ایوان میں نہیں تھے، اس لیے پینل آف چیئرمین کے رکن عزیز الحق کی زیر صدارت اجلاس ہوا جو صرف دس منٹ تک جاری رہ سکا۔ اس سے اگلے روز بھی صورتحال مختلف نہ تھی۔

اس کشمکش میں تین دن گزر گئے جب کہ چوتھا دن فیصلہ کُن ثابت ہوا۔ سپیکر عبدالحکیم جیسے ہی اپنے دفتر میں پہنچے، پولیس نے اسے گھیرے میں لے لیا۔ دفتر میں محصور ہونے کی وجہ سے سپیکر اجلاس کا وقت شروع ہونے کے باوجود ایوان میں نہ پہنچ سکے، اس طرح ان کی عدم موجودگی میں ڈپٹی سپیکر شاہد علی کو اجلاس کی صدارت کرنے کا موقع مل گیا۔اجلاس شروع ہونے پر قائد حزب اختلاف نے سپیکر کو یرغمال بنا کر ایوان میں داخل ہونے سے روکنے کی مذمت کی اور ڈپٹی سپیکر شاہد علی سے مطالبہ کیا کہ وہ سپیکر کی کرسی خالی کر دیں لیکن ڈپٹی سپیکر نے حزب اختلاف کے مطالبے کو نظرانداز کرتے ہوئے کارروائی جاری رکھی جس پر حزب اختلاف نے احتجاج شروع کردیا جو جلد ہی ہنگامے میں بدل گیا۔ اسی دوران کسی نے ایوان میں سے پیپر ویٹ ڈپٹی سپیکر کو دے مارا جس سے ان کے چہرے پر زخم آئے اور منہ سے خون جاری ہو گیا۔ ہنگامہ آرائی کے دوران حکومت اور اپوزیشن کے بہت سے ارکان باہم گتھم گتھا ہو گئے جس سے ڈپٹی سپیکر شاہد علی کے علاوہ عزیز الحق، موہن میاں، پنیر الدین اور عبدالطیف بسواس زخمی ہو گئے۔ مشرقی پاکستان کے ڈپٹی سپیکر شاہد علی دو روز تک بے ہوش رہنے کے بعد 26 ستمبر 1958 کو انتقال کر گئے۔ یوں اقتدار پر قابض رہنے کی یہ بے رحمانہ لڑائی جس میں سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی، تمام روایات کو پامال کر دیا گیا تھا اپنے افسوسناک انجام کو پہنچی۔ایوان کے اندر ’سپیکر‘ کا قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک عبرت ناک واقعے کے طور پر اب بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آج 26 ستمبر 1958 ہے اور ابھی تک پاکستان کے دو ٹکڑے نہیں ہوئے۔

آج 7 اکتوبر 1958 ہے۔ گھڑی کی سوئیوں نے اِدھر دس بجنے کا اعلان کیا اُدھر رات کے اندھیرے میں ایوب خان کا سُرخ و سپید چہرہ چمکا، انھوں نے صدر مملکت اسکندر مرزا کو سیلوٹ کیا اور کہا ’سب ٹھیک ہے سر، آپریشن مکمل ہو چکا ہے۔‘اس اعلان کے ساتھ ہی ماحول پر چھایا تناؤ چھٹ گیا اور اسکندر مرزا نے خوش دلی کے ساتھ اشارہ کیا جسے دیکھتے ہی چار، پانچ خدمت گار چھلکتے ہوئے جام ٹرے میں سجائے نمودار ہوئے اور محفل جوان ہو گئی۔ ان ہی چسکیوں کے دوران اسکندر مرزا کے دل میں جانے کیا خیال آیا کہ وہ یک دم سنجیدہ ہوئے، ایوب خان کا بازو پکڑ کر انھیں قریب کیا اور منہ اُن کے کان کے قریب لے جا کر سرگوشی کی ’ایوب، کیا میں صبح کا سورج دیکھ سکوں گا؟‘ ایوب خان مسکرائے لیکن خاموش رہے اور آگے بڑھ کر اُن کی کمر پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔اس کے ٹھیک 20 دن بعد رات کے اُسی پہر بیرے نے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا، سکندر مرزا گاؤن پہن کر باہر نکلے اور یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایوان صدر کی راہداریوں اور باغ کی روشوں میں سٹین گن اور دوسرے اسلحہ سے لیس بڑی تعداد میں فوجی کھڑے تھے۔
اسکندر مرزا سیڑھیاں اُتر کر باہر آئے تو ان کا سامنا چار جرنیلوں، جنرل شیخ، جنرل برکی، جنرل اعظم خان اور میجر جنرل شیر بہادر، سے ہوا۔ ان میں سے کسی ایک نے اُن سے بات کی اور اسکندر مرزا کے اپنے الفاظ میں یہ پیغام دیا ’انھوں نے کہا، مجھے پاکستان چھوڑنا پڑے گا۔‘سکندر مرزا نے پوچھا ’کیوں؟۔
‘ جواب ملا ’ملک کا مفاد اسی میں ہے۔‘

اس کے بعد بندوق کے زور پر بعد اسکندر مرزا سے استعفیٰ لینے کے بعد تین جرنیل واپس چلے گئے اور میجر جنرل شیر بہادر کو وہیں چھوڑ گئے، جس نے اسکندر مرزا اور اُن کی اہلیہ ناہید مرزا کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا ۔ایک گھنٹے کے اندر اندر ایوان صدر کے مکین اپنا سامان باندھ کر چلنے کے لیے تیار تھے۔ انھیں ماڑی پور ایئر پورٹ پہنچا دیا گیا جہاں امریکی سفیر انھیں خدا حافظ کہنے کے لیے موجود تھا۔ آج 7 اکتوبر 1958 ہے اور پاکستان آج بھی 1947 کی سرحدوں پر قائم ہے۔

اب جرنل ایوب خان نے پاکستان کی صدارت سنبھال لی ۔قوم نے صدر ایوب خان کو خوش آمد ید کہا کیونکہ پاکستانی عوام اسکندر مرزا کے دور میں غیر مستحکم جمہوریت اور بے وفا سیاست دانوں سے بیزار ہو چکی تھی۔ جلد ہی ایوب خان نے ہلال پاکستان اور فیلڈ مارشل کے خطابات حاصل کر لیے۔ ایوب خان نے 1961 میں آئین بنوایا جو صدارتی طرز کا تھا اور پہلی دفعہ تحریری حالت میں انجام پایا۔ اس آئین کے نتیجے میں 1962 میں عام انتخابات ہوئے اور مارشل لا اٹھا لیا گیا۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ جزوی طور پر تھا۔ ان انتخابات میں صدر ایوب خان کے مدِ مقابل سب سے اہم حریف مادرِ ملت فاطمہ جناح تھیں جو قائد اعظم کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود ہار گئیں۔ یہی وجہ ان انتخابات کو مشکوک بناتی ہے۔ جنرل ایوب خان کی معاشی پالیسیوں اور اقدامات کا خصوصی جائزہ لیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اُن کا بنیادی مقصد اپنی حکومت کو بحال رکھنا اور طول دینا ہی تھا۔ کئی لوگ اقتصادی ترقی کو اُن کی غیر معمولی کامیابی گردانتے ہیں مگر اُس دوران آمدنی میں عدم مساوات کو فروغ ملنے سے ملک میں صرف 20 گھرانوں کو عروج نصیب ہوا جنہوں نے قومی وسائل پر اپنا اختیار جما لیا اور اپنے پاس کالا دھن جمع کیا، اِس طرح باقی لوگوں میں غربت، بھوک اور مایوسی پھیلتی ہی چلی گئی۔ اس معاملے پر تھوڑا نزدیکی سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ترقی میں کچھ بھی ملکی ساختہ حصہ داری شامل نہیں تھی۔ اس میں مرکزی حصہ بیرونِ ملک امداد کا تھا-دسمبر 1961ء تک، بیرونی امداد بیرونی قرضوں کے حجم سے دُگنے سے بھی زیادہ ہوگئی تھی۔ 1964ء میں دوسرے 5 سالہ پلان میں کُل سرمایہ کاری میں سے 40 فیصد حصہ بیرونی امداد پر منحصر تھا۔ اور صرف یہی نہیں۔ بیرونی امداد درآمدات کی رقم کا 66 فیصد کور کرتی تھی۔ آپ کو وہاں اِس چیز کا کریڈٹ دینا ہوگا جہاں دینا چاہیے، اور یہاں یہ کریڈٹ بیرونی امداد کو جاتا تھا۔ امداد اور قرضے کی صورت میں بیرونی سرمایہ کاری اور حکومت کی جانب سے نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کی خاطر عوامی ورکس پروگرام کے باوجود بے روزگاری اپنی جگہ قائم رہی اور اِس سے بھی بدتر بات دوسرے 5 سالہ پروگرام کے دوران ہوئی جب مشرقی پاکستان میں 1960ء سے 1961ء تک 55 لاکھ شہری بیروزگارتھے۔ یہ بے روزگاری 1964ء سے 1965ء کے سالوں میں 58 لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔ جنرل ایوب خان کی سیاست سے دشمنی، عوام سے دوری اور شدید ترین عدم معاشی صورتحال نے ترقی سے محروم اور شدید مالی بدحالی کے شکار مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب اور مغربی پاکستان میں خاص کر پنجاب اوراندرون سندھ میں ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی سیاست چمکانے کا موقع مل گیا۔ وہ اقتصادی ترقی نہیں تھی بلکہ چند افراد کے ہاتھوں میں بڑھتی ہوئی دولت اور طاقت کی بہتات تھی جس نے محرومیوں کو جنم دیا اور یوں عوام میں فوج کے خلاف اشتعال انگیزی کو فروغ ملا۔ ایوب دور کی زرعی اصلاحات جن میں 500 ایکٹر قابل کاشت، 1000 ایکٹر بارانی اور 150 ایکٹر باغ تک محدود کرنے کا اعلان کیا گیا جو قابل ستائش قدم تھا۔ تاہم جاگیر داروں نے اپنی زمین جائیداد کی اس طریقے سے بندر بانٹ کی کی زرعی اصلاحات عملی طور پر غیر موثر ہو کر رہ گیئں۔ منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین ڈاکٹر محبوب الحق کی ایک تنقیدی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ایوب خان دور مین صرف 20 گھرانے دو تہائی صنعت اور تین چوتھائی بینک کاری پر قابض تھے۔ اس وقت حبیب جالب نے لکھا :
بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
صدر ایوب زندہ آباد

تاہم اس وقت فرانس کے ڈی گال سے لے کر امریکی صدر جانسن اور مغربی لیڈران بھی پاکستان میں اقتصادی ترقی کے گُن گا رہے تھے۔ اُس دور کے عالمی بینک کے صدر ربرٹ مک نمارا نے بھی ایوب خان کے زیرِ اہتمام پاکستان کو ’دنیا میں ترقی کے حصول کی ایک سب سے بڑی کامیابی‘ قرار دیا تھا۔ فاطمہ جناح کے خلاف مشکوک فتح اور 1965 کی جنگ کی وجہ سے ایوب خان کے لیے حالات ناسازگار ہو چکے تھے۔ 1967 میں بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی قائم کی اور ایوب خان کی مذہبی، معاشی اور عوامی پالیسیز پر شدید تنقید شروع کر دی۔ بھٹو کی تحریک کے ساتھ ساتھ مشرقی پاکستان میں بھی ایوب خان کے خلاف شیخ مجیب الرحمن کی تحریک سرگرم ہو چکی تھی۔ ایوب خان نے بھٹو اور شیخ مجیب کو پابند سلاسل کر دیا۔ اس سے ایوب خان کے خلاف نفرت میں مزید اضافہ ہوا۔ 1968 میں ایوب خان پر قاتلانہ حملہ ہوا جو ناکام رہا۔ 1969 میں ایوب خان نے عوامی لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی اپوزیشن پارٹیز سے مذاکرات کے لیے گول میز کانفرنس کی لیکن اس میں بھی ناکامی ہوئی۔ اس دوران ایوب خان کو دل کا دورہ لاحق ہوا اور اسی سال ان پر فالج کا حملہ بھی ہوا اور وہ صاحب فراش ہو گئے۔ بعد میں انہیں بات چیت کے لئے ویل چیئر پر لایا جاتا تھا۔ ملک بھر میں ایوب خان کے خلاف احتجاج نے خانہ جنگی سی صورت حال پیدا کر دی۔ جب عوامی رد عمل پر قابو ریاست کے بس سے باہر ہو گیا تو بالآخر ایوب خان نے 25 مارچ 1969 کو اپنے عہدے سے استعفی ٰدے دیا اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل یحیٰ خان کو ملک کا صدر بنا دیا۔ آج 25 مارچ 1969 ہے۔ آج بھی پاکستان اپنے قیام کے 22 سال بعد متفقہ دستوری آئین سے محروم ہے۔

جنرل یحیٰ خان نے اقدار پر قبضہ کرتے ہی اگلے سال عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔ اس نے بلوچستان اور اس وقت کے صوبہ سرحد کی صوبائی حیثیت بحال کر دی۔ کراچی کو سندھ میں اور بہاولپور کو پنجاب میں شامل کر دیا۔ چترال، دیر اور سوات پر مشتمل ملاکنڈ ایجنسی بنائی۔ 17 دسمبر 1970کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئےجنہیں ملکی و غیر ملکی مبصرین نے پاکستان کی تاریخ میں پہلے آزادانہ و منصفانہ انتخابات قرار دیا۔ مشرقی پاکستان پر بھارتی افواج کے قبضے اور مغربی پاکستان کے محاذ پر پاکستانی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پر ملک میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔ مشرقی پاکستان کے محاذ پر پاکستانی افواج کی غیر تسلی بخش کارکردگی کی بنا پر ملک میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔۔۔آج 15 دسمبر 1971 ہے اور ابھی تک پاکستان مسلم دنیا کا سب سے بڑی ریاست ہے۔ اب تک پاکستان کو معرض وجود میں آئے 24 سال ہو چکے ہیں۔ لیکن اب تک مسلم دنیا کی اس سب سے بڑی ریاست کے شہری محروم ہیں:
اپنی قومی شناخت سے
بالغ حق رائے دہی سے
بطور شہری ریاست کے تحفظ سے
بنیادی انسانی حقوق سے

Advertisements
julia rana solicitors london

20 دسمبر 1971 کو جنرل یحییٰ نے اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حوالے کر دیا۔ 8 جنوری، 1972ء کو انھیں، عوامی غیظ و غضب سے بچانے کے لیے، نظر بند کر دیا گیا۔ جولائی 1977ء میں ملک میں مارشل لا کے نفاذ کے بعد خرابی صحت کی بنا پرانھیں رہا کر دیا گیا۔۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply