سلمان تاثیر، تصویر کا ایک اور رخ

سلمان تاثیر، تصویر کا ایک اور رخ
فرحان جمالوی

Advertisements
julia rana solicitors london

جس وقت گورنر پنجاب سلمان تاثیر، آسیہ مسیح سے ہمدردی کے لیے شیخوپورہ جیل پہنچے، اُس وقت سلمان تاثیر کے سینکڑوں ملازمین چھ ماہ سے بغیر تنخواہ کام کر نے پر مجبور تھے۔ میں اُن ملازمین کا مینجر تھا۔ سلمان تاثیر کی موت سے پانچ دِن پہلے میں نے “گورنر” کو خط لکھا اور رحم کی اپیل کی—بصورتِ دیگر کام روکنے کی دھمکی دی۔ آج سلمان تاثیر کو گزرے چھ برس بیت گئے لیکن ملازمین کوآج تک محنت کی اُجرت نہ مل سکی۔
سلمان تاثیر، سیاست دان کےعلاوہ ایک بزنس مین بھی تھے۔ انہوں نے برطانیہ سے چارٹرڈ اکاؤنٹنسی میں ڈگری حاصل کی اور 1994 میں امریکی مالیاتی ادارے “اسمتھ بارنی” (موجودہ مورگن اسٹینلی) کے ساتھ مل کر ایک بروکریج ہاؤس قائم کیا۔ تاثیر نے 1996 میں “ورلڈ کال” گروپ کی بنیاد رکھی جبکہ 2002 میں اخبار “ڈیلی ٹائمز” اور 2004 میں کاروباری ٹیلے وژن چینل “بزنس پلس” لانچ کیے۔
میں نے مارچ 2010 میں بطور سینیئر پروڈیوسر “بزنس پلس” جوائن کیا۔ اُس وقت چینل کے حالات اچھے نہیں تھے۔ہر دو ماہ بعد ایک مہینے کی تنخواہ ادا کی جاتی تھی۔ میں تقریباً ایک سال سے بے روزگار تھا—اِس لیے ملازمت کی حامی بھر لی۔
“بزنس پلس” پر دِن میں کاروباری خبریں نشر کی جاتی تھیں جبکہ پرائم ٹائم میں کرنٹ افیئرز کے پروگرام پیش کیے جاتے تھے۔ چینل کا سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ٹاک شو 24Seven تھا جو سلمان تاثیر کی سالی “عائشہ ٹیمی حق” ہوسٹ کرتی تھیں۔ جوائننگ کے ایک ہفتے بعد، مجھے اُس لائیو شو کا پروڈیوسر مقرر کر دیا گیا۔ میں نے پروگرام کوبہتر بنانے میں کوئی کثر نہ چھوڑی، یوں ادارے میں میری حیثیت مضبوط ہوتی رہی۔ لیکن حقیقی معنیٰ میں وہاں مضبوط ترین پوزیشن اگر کسی کی تھی تو وہ وہاں کا فائنینس ڈیپارٹمنٹ تھا: تاثیر کے اشاروں پر چلنے والا بد تہذیب اور بے حس ڈیپارٹمنٹ!
تقریباً سات آٹھ ہفتوں بعد، مجھے پہلی مرتبہ سیلری لینے کے لیے بلایا گیا ۔فائنانس ڈیپارٹمنٹ کی بیرونی دیوار میں ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی جس کے سامنے مجھ جیسے صحافی اور دیگر ملازمین لمبی قطار لگا کر کھڑے ہو جاتے تھے۔ میں بھی لائن حاضر ہو گیا۔ پہلا شخص رسید پر دستخط کر کے کھڑکی چھوڑتا تو سب پوچھتے، “پوری تنخواہ ملی ہے یا آدھی؟” اگر وہ کہتا کہ پوری تو سب خوش ہو جاتے ؛ اگر کہتا کہ آدھی تو سب چُپ ہو جاتے ؛ اور اگر کہتا کہ “پونی” تو سب مشتعل ہو جاتے—
میں نے سلمان تاثیر کے ٹی وی چینل میں کُل ملا کے آٹھ مہینے ملازمت کی ہوگی لیکن تنخواہ تقریباً دو مرتبہ وصول کی۔ ملازمت کے آخری دو مہینوں میں مجھے میری کارکردگی اور تجربے کی بنیاد پر پروگرام مینجر بنا دیا گیا جس کے تحت کراچی، لاھور اور اسلام آباد اسٹیشن میری ذمہ داری بن گئے۔ تنخواہ تو نہ بڑھائی گئی مگر اضافی ذمہ داریوں کے عوض مجھے ایک گاڑی اور ایک ٹھنڈا کمرہ عطا کر دیا گیا۔
ترقی ملنے سے تقریباً تین ہفتے قبل، سلمان تاثیر نے لاھور سے اپنا نمایندہ خصوصی “عاصم عتیق” کراچی میں متعین کیا جس کو “ڈائریکٹر اسپیشل پروجیکٹ” کا نام دیا۔ وہ اسپیشل پروجیکٹ کیا تھا، کبھی کسی کو نہیں پتا چل سکا۔ البتہ اُس نے چارج سنبھالتے ہی بلند و بانگ دعوے کیے۔سب سے بڑا دعوٰی یہ تھا کہ میں پچھلی تنخواہیں پہلی فرصت میں ادا کروا دوں گا۔ نیا ڈائریکٹر، بڑے صاحب کا نام لینا گستاخی سمجھتا تھا، اُن کو ہمیشہ “گورنر” کہہ کر پکارتا تھا۔ میں کبھی سلمان تاثیر سے نہ مل سکا نہ ہی ٹیلے فون پر بات چیت کی۔ لیکن کئی مرتبہ عاصم عتیق اور میں میٹنگ میں ہوتے اور تاثیر کا ٹیلے فون آجاتا تو عاصم کی ہوائیاں اُڑ جایا کرتیں۔ مجھے مجبوراً کمرے سے باہر جانا پڑتا۔ مجھے ترقی دے کر پروگرام میجر بھی عاصم نے ہی بنایا تھا۔ شاید اِس کی وجہ میری قابلیت سے زیادہ یہ تھی کہ وہ خود سلمان تاثیر اور اُس کے بیٹے شہریار تاثیر کی ذاتی ملازمت پر اِس قدر معمور تھے کہ اُنھیں چینل چلانے کے لیے ”کام“ والے لوگوں کی اشد ضرورت تھی۔
عاصم نے جس دِن لاہور سے کراچی آکر چینل کا چارج سنبھالا، اُس کے اگلے روزسے اُس کے ساتھ ایک پرسنل باڈی گارڈ بھی دفتر آنے لگا۔ گارڈ سفید شلوار قمیص میں ملباس ہوتا اورہاتھ میں ایک چمکتا ہوا برہنہ پستول ہوتا۔ ملازمین نے پچھلے چار ماہ سے تنخواہ کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ عاصم کے تمام دعوے اور وعدے جھوٹ کا پلندہ ثابت ہو چکے تھے۔ ملازمین اُس تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو بند دروازے کے باہر موجود باڈی گارڈ روک دیتا، کبھی نرمی سے اور کبھی دھونس دھمکی سے۔
میں اپنی عوامی طبیعت کی وجہ سے مالکان سے دُوراورماتحتوں سے قریب رہتا تھا۔ پانی ہماری گردنوں تک آچکا تھا۔ ایک شام ایک نوجوان کرسچن لڑکا—جو آفس میں جمعدار تھا—میرے کمرے میں داخل ہوا اور مجھ سے پوچھا:
“کیا آپ کے پاس سو روپے ہوں گے؟“ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ رات کا کھانا کھایا ہوا ہے، صبح کا ناشتہ نہیں کیا اور یہ وقت آگیا۔ مجھ سے اور میرے ساتھی سے کام نہیں ہورہا، کچھ کھانا چاہتے ہیں۔ میری نظریں جھک گئیں۔ کمرے میں اے-سی چل رہا تھا جبکہ دبلے پتلے نوجوان کے جسم پر پسینہ چمک رہا تھا۔ میں نے شرمندگی سے اے-سی آف کر دیا اور ذہن پر زور دیا میرے والیٹ میں سو روپے ہیں بھی کہ نہیں۔ میں نے پرس نکالا تو اُس میں شاید ایک سو ستر روپے تھے۔ سو روپے نکال کر دیے تو لڑکا شکریہ ادا کر کے چلا گیا۔ وہ پہلا واقع تھا جس نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ دیا اور سلمان تاثیر کو للکارنے پر مجبور کیا۔
بزنس پلس کے استقبالیہ پر ایک نہایت نفیس اور بے ضرر شخص اپنے فرائض انجام دیتا تھا، “پیٹر” نام تھا اُس کا۔ ایک دِن ریسیپشن کے سامنے پیٹر نے مجھے روک کر پوچھا کہ تنخواہ ملنے کا کوئی آسرا ہے؟ میں نے نفی میں گردن ہلا دی۔ پیٹر جو پہلے سے پریشان تھا مزید بُجھ گیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ اُس کی دونوں بچیوں کو اسکول سے نکال دیا گیا ہے۔ چار مہینے سے فیس ادا نہیں کی۔ میرا دماغ پھٹنے لگا۔ یہ ٹھیک وہی دِن تھے جب گورنر سلمان تاثیر، مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون آسیہ نورین کے حق میں لابنگ کررہے تھے۔ اِس دوران وہ کئی مرتبہ اپنی اہلیہ آمنہ اور بیٹی شہربانوکے ہمراہ شیخوپورہ جیل گئے، آسیہ بی بی سے ملاقاتیں کیں اور باہر آکر میڈیا پر اپنے بیانات جاری کیے۔
ریسیپشن کے پاس کھڑا میں سوچتا رہا کہ پیٹر، اُس کی بیٹیاں، وہ بھوکا جمعدار لڑکا اور اُس کا ساتھی بھی تو کرسچین ہیں۔ ان کے ساتھ بھی تو نا انصافیاں ہو رہی ہیں۔ بلکہ یہ نا انصافیاں سلمان تاثیر اور اُن کا خاندان خود کر رہا ہے۔ تو پھر پورے پاکستان میں اور پوری مسیحی برادری میں سلمان تاثیر کو صرف ایک آسیہ بی بی ہی مظلوم نظر آئی—؟ اِن مظلوموں کی داد رسی کون کرے گا جو کہ سلمان تاثیر کی براہ راست ذمہ داری ہیں؟!
پیٹر کو تسلی دے کر میں سیدھا عاصم عتیق کے کمرے کی طرف بڑھا۔ باہر کھڑے باڈی گارڈ کو بتایا کہ مجھے ڈائریکٹر صاحب سے فوراً ملنا ہے۔
کانفرنس ٹیبل پر عاصم کا چمکتا ہوا لیپ ٹاپ رکھا تھا جس پر وہ کچھ ٹائپ کرنے میں مصروف تھا۔
“پانچ مہینے گزر گئے، سیلری کب آئے گی؟” میرے پرانے سوال میں نیا مہینہ جُڑ چکا تھا۔
گورنر کا نمایندہ جس دن سے کراچی آیا تھا اور جن وعدوں پر اُس نے تقریباً دو مہینے گھسیٹے تھے اُس دن سے ایک ہی سوال سُن رہا تھا کہ سیلری کب آئے گی۔ بقول اُس کے، یہ ”سیلری“ اُس کی چڑ بن چکی تھی۔ پہلے وہ حیلے بہانے کرتا تھا، دلاسے دیتا تھا، لوگ یقین کر لیتے تھے۔ لیکن اب پانی ناک تک پہنچ رہا تھا:
“او یار، مجھے کیا پتا—!” عاصم نے پرانا جواب نئے لہجے میں دیا۔
“آپ کو نہیں پتا؟”
“نہیں—اِس کا جواب صرف گورنر ساب دے سکتے ہیں۔”
“آپ نے پوچھا نہیں؟ ہر روز بات ہوتی ہے آپ کی!”
“او بھائی وہ گورنر ہیں— !” عاصم نے مجھے ایسے ڈرایا جیسے بڑے بوڑھے، بچوں کو اللہ میاں سے ڈراتے ہیں۔
“میرے لیے وہ گورنر نہیں—باس ہیں۔ اگر اُن کے حالات بھی میری طرح خراب ہیں تو اُن سے کہیں کہ گورنری چھوڑیں اور میرے ساتھ مل نوکری ڈھونڈلیں۔” میرے وجود سے انقلاب کے نعرے بلند ہونے لگے۔
مشیر خاص نے مجھے گھور کر دیکھا۔ میری زبان درازی اور ”احسان فراموشی“ پر افسوس کرنے لگا۔
“آپ خود ہی کیوں نہیں پوچھ لیتے؟” دیکھتے ہی دیکھتے وہ شخص ڈائریکٹر اسپیشل پروجیکٹ سے سرکس کا رنگ ماسٹر بن گیا۔ اُس نے بکری کو شیر کے پنجرے کی طرف ہانکنا شروع کیا اور لوہے کا جنگلہ کھولنے کی تیاری کی:
“مجھے اجازت نہیں ہے اُن سے بات کرنے۔” میں نے مجبوری ظاہر کردی۔
“نہیں—آپ کرلیں بات۔” یہ کہہ کر وہ کام میں مصروف ہو گیا۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا۔
اپنے کمرے میں آئے ہوئے ابھی تھوڑی دیر ہی ہوئی ہوگی کہ ایک کیمرہ مین (نام یاد نہیں رہا) میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ “کیا میں آج رات اسٹور (جہاں کیمرے رکھے جاتے ہیں) میں سو سکتا ہوں؟“ میں نے حیرت سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ وہ صبح اُدھار مانگ کر دفتر آیا تھا۔ جو پیسے بچے اُس کا کھانا کھا لیا۔ اب واپس جانے کا کرایہ نہیں ہے۔ میں کرایہ نکال کر دینے لگا تو اُس نے اصل وجوہات بتائیں: اُس کا تین ما ہ کا بچہ تھا۔ فاقوں سے بچانے کے لیے اُس کی سالی نے بچے کو اپنے گھرمیں رکھ لیا تھا اور اُس کو پالنے کی ذمہ داری لے لی تھی۔ اِس بات پر کیمرہ مین کی بیوی بہت شرمندہ تھی اور شوہر سے شدید ناراض بھی۔
“میں نے وعدہ کیا تھا کہ رات کو کچھ پیسے لے کر آؤں گا۔ اب خالی ہاتھ جاؤں گا تو بیوی –”
میں نے سمجھایا کہ گھر نہیں جاؤگے تو بیوی زیادہ پریشان ہوگی۔ میں کوشش کر رہا ہوں سیلری مِل جائے گی ان شاء اللہ۔
کیمرہ مین نے کہا کہ بیوی تو مان جائے گی پر صبح مالک مکان کو بھی آنا ہے۔ “وہ گھر خالی کرنے کا کہہ رہا ہے۔ میری سالی نے اپنے گھر میں ایک کمرہ دینے کی آفر کی ہے لیکن میں اور میری بیوی۔۔۔۔”
وہ یہ کہہ چُپ ہو گیا اورمیرے ذہن کے کاغذ پر سلمان تاثیر کے نام ایک خط شروع ہوگیا۔
کیمرہ مین نے اسٹور روم میں سونے کی اجازت دوبارہ مانگی اور میں نے اجازت دے دی۔
شاید اُسی شام یاپھر اگلے روز ایک اور ٹیکنیشن میرے کمرے میں داخل ہو ا اور مجھ سے پوچھا کہ تنخواہ کب آئے گی؟
میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو اُس نے کہا کہ آپ تاثیر صاحب کے قریبی آدمی ہیں۔ آپ کو کمپنی کی گاڑی، اے سی والا کمرہ اور اختیارات دیے گئے ہیں۔ آپ پوچھ کر بتائیں بڑے ساب سے کہ تنخواہ کب آئے گی۔
میں مسکرایا اور اُس کو یقین دلایا کہ میں آج تک سلمان تاثیر سے نہیں ملا اور نہ ہی کبھی ای میل یا ٹیلے فون پر بات ہوئی۔ وہ بھی مسکرایا اور میرے قریب آکر مجھے دھمکانے لگا:
“فرحان ساب—آپ ہمارے باس ہو۔ لیکن باس صرف آفس کے اندرہوتا ہے۔ آفس کے باہر پستول کی گولی کسی کو نہیں پہچانتی!”
میں نے اُسے ڈانٹ کر بھگا دیا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ مجھے اُس کی دھمکی بچگانہ یا کھوکھلی لگی۔ ایسا ہر گز نہیں تھا۔ بلکہ اُن دنوں رات کی تاریکی میں کچھ لڑکے پچھلے گیٹ سے آفس کے اندر کودنے کی کوشش کر چکے تھے۔ جب دفتر کے گارڈز نے ہوائی فائرنگ کی تو بدلے میں دوسری طرف سے بھی فائر کیے گئے اور وہ بھاگ گئے۔ ایک مرتبہ پھر ایسا ہوا۔ جبکہ دِن کی روشنی میں دفتر میں چوری کی وارداتیں شروع ہو گئیں۔ میز پر رکھے موبائل فون اور کمپیوٹر میں لگی RAM غائب ہونے لگیں۔ چینل میں کام کرنے والے تخلیقی ذہن چور بننے پر مجبور ہو گئے۔
اُس لڑکے کی دھمکی نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں سلمان تاثیر کو معاملے کی سنگینی سے آگاہ کروں۔
یہ28 یا 29 دسمبر 2010 کا واقع ہے۔ میں نے اپنی ای میل کھولی اور سلمان تاثیر کو تفصیلی خط لکھنا شروع کیا:
محترم سلمان تاثیرصاحب:
آدھا سال گزر گیا ہمیں تنخواہیں نہیں ملیں۔ اِس دوران آپ نے ایک نیا چینل (ذائقہ ٹی وی) کھولا۔ نیا اسٹاف رکھا جن کی تنخواہیں ہم سے دویا تین گنا زیادہ ہیں۔ چینل کی افتتاحی تقریب میریٹ ہوٹل میں شاندار انداز میں ہوئی (جہاں طرح طرح کے پر تکلف کھانوں کے علاوہ ولایتی شرابیں، پانی کی طرح پلائی اور بہائی گئیں)۔ میرے ساتھی بھوک سے مر رہے ہیں۔ وہ خود کرائے کے گھروں سے اور اُن کے بچے اسکولوں سے نکالے جارہے ہیں۔ ملازمین دفتر میں چوریاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اپنے سینیئرز کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہماری حالتوں پر رحم کیجئے اور سال ختم ہونے سے پہلے کم از کم تین مہینے کی تنخواہیں ریلیز کر دیجئے۔ ساتھ ہی باقی تنخواہوں کا ایک شیڈول بھی پیش کیجئے۔ بصورت دیگر مجے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں بحیثیت ہیڈ آف پروڈکشن اِس چینل کی ٹرانسمیشن بند کرنے پر مجبور ہو جاؤں گا۔
سلمان تاثیر کو ای میل بھیجنے کے بعد، میں نے اپنا استعفیٰ ٹائپ کیا اور نیچے جا کر اسٹوڈیو میں تمام اسٹاف ممبرز کو جمع کیا۔ وہ تعداد میں تقریباً سو لوگ تھے۔ میں نے اپنے بے یارو مددگاردوستوں کو تمام صورت حال سے آگاہ کیا۔ خط کے بارے میں آگاہ کیا۔ 31 دسمبر تک تنخواہیں نہ ملنے پر ٹرانسمیشن بند کرنے کے بارے میں اُن کی رائے طلب کی۔ سب نے یک زبان ہو کر تاعید کی۔ تب میں نے ہر ایک فرد سے عہد لیا کہ اگر کل صبح اِس دفتر سے کسی ایک صحافی، پروڈیوسر حتی کہ جمعدار کو بھی نکالا جاتا ہے تو ہم سب اپنا استعفیٰ پیش کر دیں گے۔ اِس پر بھی سب نے اتفاق کیا۔
انقلاب کی روح پھونک کر میں گھر چلا گیا۔ اُن دنو ں میں پریس کلب سے چند قدم کے فاصلے پر اور زینب مارکیٹ کے سامنے والے فلیٹوں میں ڈیڑھ کمرے کے اپارٹمنٹ میں رہتا تھا۔ دفتر کے بعد، زیادہ تر وقت پریس کلب میں ہی گزرتا تھا۔ کراچی پریس کلب کا ممبر ہونے کی وجہ سے ہم صحافیوں کو کلب میں معیاری کھانا، بازار سے تقریباً آدھی یا اُس سے بھی کم قیمت پر ملتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک سال کی بے روزگاری اور چھ ماہ کی بے گار کاٹنے کی بعد جو غربت چھا چکی تھی وہ پریس کلب کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے دوسروں پر عیاں نہ ہو سکی یا بہت کم عیاں ہوئی۔
میں صبح معمول کے مطابق اور بغیر کسی خوف کے، ٹی وی اسٹیشن پہنچا۔ سلمان تاثیر نے پہلی نظر میں اُس خط کو شاید مزاق سمجھا ہوگا۔ دوپہر گزر گئی تمام چیزیں معمول کے مطابق چلتی رہیں۔ جوں ہی سہ پہر ہوئی تو سلمان تاثیر نے اپنے وفا دار ڈائریکٹر عاصم عتیق کو میرے شکار پر لگا دیا۔ مجھے فوراً کانفرنس روم میں پہنچنے کے لیے کہا گیا۔ میں نے کرسی سے اُٹھنے سے پہلے استعفی کا پرنٹ آؤٹ نکالا اور کاغذ تہہ کر کے کمرے سے باہر چلا گیا۔
دروازہ کھول کر اندر پہنچا تو وہاں عاصم کے علاوہ تمام ڈپارٹمنٹس کے ان چارج بیٹھے ہوئے تھے۔ کل ملا کر آٹھ نو لوگ ہو ں گے۔ میں ابھی کرسی پر بیٹھ بھی نہ پایا تھا کہ ڈائریکٹر مجھ پر برس پڑا:
“آپ نے گورنر ساب کو خط کیسے لکھا!!؟”
عاصم مجھ سے وقتاً فوقتاً مختلف چیزیں لکھواتا رہتا تھا۔ اپنے اور سلمان تاثیر کے لیے۔ اوروہ میری لکھائی کی داد بھی دیتا تھا۔ بلکہ ایک مرتبہ ”گورنر“ سے مل کر کراچی واپس آیا تو میرے لیے کہے گئے تاثیر صاحب کے تعریفی کلمات بھی مجھے سنائے۔
“جیسے ہمیشہ لکھتا ہوں، ویسے ہی لکھا۔” میں نے سادہ سا جواب دیا۔
“آپ نے گورنر ساب کو خط کیوں لکھا؟؟؟” اُس نے سوال بدل کر پوچھا۔
“کیوں کہ آپ ہی نے کہا تھا۔”
“گورنر ساب کو کوئی ای میل نہیں کر سکتا!”
“کیوں—؟” میں عاصم کی ”گورنر صاحب“ سے عقیدت کی آخری حد جاننا چاہتا تھا۔
“گورنر ساب سے کوئی سوال نہیں کر سکتا!”
کیوں—گورنر صاحب—اللہ میاں ہیں کیا؟ نعوذ باللہ!
سب کے سب خاموش بیٹھے رہے۔ کسی نے اپنے حق کے لیے آواز بلند نہیں کی۔ کمرے میں اور عاصم بحث کرتے رہے۔ اُس کی کھوکھلی باتوں میں ہمارے مسائل کا حل دُور دُور تک کہیں نہیں تھا۔ وہ صرف “گورنر ساب، گورنر ساب” کیے جارہا تھا۔ اُس کا غرو ر، میری برداشت سے باہر ہو چکا تھا۔
“گورنر نہیں —فرعون ہیں وہ!”
—اور فرعون کی قسمت میں غرق ہونا لکھا ہے۔ ” میں نے اپنا مقدمہ سمیٹنا شروع کیا۔
کمرے میں مکمل خاموشی چھا گئی۔ دسمبر کی ہلکی سردی تھی۔ میں نے کوٹ پہنا ہوا تھا۔ بائیں جانب فرنٹ پاکٹ میں ہاتھ ڈالا تو انگلیو ں نے استعفےٰ کو چھوا۔ میں نے سرکس رنگ ماسٹر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کردیکھا؛ اُس کے ہاتھ سے چابک چھینا اور سلمان تاثیر کے دیو قامت مجسمے کے گرد لپیٹ کر اِس قوت سے کھینچا کہ باطل بُت عاصم عتیق کے قدموں میں آکر گرا:
“جب سلمان تاثیر جیسے لوگ ظلم کی حدیں پار کر جاتے ہیں؛ جب آپ جیسے پالتو نوکر اُس ظلم پر پردہ ڈالتے ہیں تو قدرت خود intervene کرتی ہے۔ اور قدرت کی مداخلت کے آگے کوئی نہیں ٹک سکتا۔ ڈریں اُس وقت سے کہیں آپ کے گورنر ساب کا حال فرعون اور قارون جیسا نہ ہو جائے!”
میں نے اپنا استعفیٰ نکال کر میز پر رکھا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ سگریٹ کی طلب نا قابل برداشت ہو چکی تھی۔ گاڑی میں ایک پیکٹ رکھا تھا۔ میں نے گاڑی پچھلی گلی میں کھڑی کی تھی۔ وہاں گیا تو دیکھا گاڑی نہیں ہے۔ سوچا کہ شاید سامنے مین روڈ پر کھڑی کی ہوگی۔ وہاں گیا تو وہاں بھی گاڑی نہیں تھی۔ میں سمجھ گیا کہ میری گاڑی عاصم عتیق کے کہنے پر اُٹھا لی گئی ہے۔ میں واپس دفتر کے اندر داخل ہوا۔ پہلی منزل پر واقع اپنے کمرے کی طرف بڑھا تو کورے ڈور میں ایڈمن آفیسر، شاہد عالم (جو میرا دوست بھی تھا) دونوں ہاتھ بڑھا کر مجھ سے بغیر گیر ہو گیا۔
“جمالوی صاحب—مجھے معاف کردیں۔ ”
“مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔ تم نے میری گاڑی اُٹھوالی—؟ تم بھی دُم ہلانے والے نکلے!”
“میں مجبور ہوں—مجھے معاف کردیجئے گا۔ ”
یہ پہلا واقع نہیں تھا، اِس سے پہلے بھی انہی لوگوں نےہماری مارکیٹنگ مینجر ثمینہ انصاری کی ہانڈا سوک گاڑی دفتر کے سامنے سے اُٹھا لی تھی اور واردات کو چوری ظاہر کیا تھا۔ ایسا اِس لیے کیا جاتا تھا تاکہ کمپنی کے افسران گاڑی بیچ کر اپنی رُکی ہوئی تنخواہوں کا کوٹا پورا نہ کر لیں۔ اُن دنوں شاہ زیب خان زادہ ڈائریکٹر نیوز تھے۔ انہوں نے جب ریزائن کیا تو کمپنی کی گاڑی واپس کرنے سے انکار کر دیا تھا، بلکہ عدالت میں مقدمہ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ شاہ زیب غالباً وہ واحد شخص ہیں جنھیں سلمان تاثیر نے اُن کے بقا یہ جات واپس کیے۔ میں نے شاہ زیب کو فون کر کے اِس بات کی تصدیق بھی کی تھی۔
شاہد عالم، میرا دوست میرے سامنے کھڑا تھا۔ لیکن ملازمت چونکہ انسان کو بزدل بنا دیتی ہے اِس لیے وہ میرا دوست بعد میں اور سلمان تاثیر کے وفادار کا وفادار پہلے تھا۔ میں نے اُس کے ذریعے حکام بالا کے لیے ایک پیغام چھوڑ ا:
“میں پریس کلب جارہا ہوں۔ پریس کانفرنس کرنے۔”
عاصم عتیق اور شاہد عالم نے میری پروموشن میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا۔ اُنہیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ میں اُن کو چھوڑ کر “غیروں” کے ساتھ کھڑا ہو جاؤں گا اور مظلوموں کے حق میں بات کروں گا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ایک مرتبہ، غالباً عید کے موقع پر، عاصم عتیق نے کھلی پیش کش کی کہ تم دوسروں کو چھوڑو۔ اگر تمھیں پیسوں کی ضرورت ہے تو ابھی بیس ہزار روپے دلوادیتا ہوں فائننس ڈیپارٹمنٹ سے۔ میں نے انکار کر دیا اور مسئلے کا مکمل حل ڈھونڈے پر زور دیا۔ شاہد نے بھی اُس وقت مجھے منانے کی کوشش کی۔
میرے پاس گاڑی نہیں تھی اور پریس کلب پہنچنے کی جلدی تھی۔ میں نے اپنے دوست عدنان جعفر کو فون کیا۔ وہ تھوڑی دیر میں دفتر پہنچ گیا۔ اِس دوران اسٹیشن کے تمام ساتھی میرے کمرے کے باہر جمع ہونا شرو ع ہو گئے۔ میں نے سب کو پریس کلب پہنچنے کی کال دی۔ سب
راضی ہوگئے۔ عدنان آیا اور میں اُس کے ساتھ پریس کلب پہنچا۔ گورننگ باڈی کے ایک سینیئر ممبر سے پریس کانفرنس کرنے کی اجازت مانگی۔ اجازت مل گئی۔ باہر لان میں کھڑا ساتھیوں کا انتظار کرنے لگا۔ کافی دیر گزرنے کے بعد فون کیا تو کسی نے بھی فون نہیں اُٹھایا۔ قریب دو گھنٹے گزرنے کے بعد، مجھے ایک لڑکے نے فون پر یہ اطلاع دی کہ آپ کے نکلتے ہی عاصم عتیق نے مشتعل اسٹاف کو بیس بیس ہزار روپے کیش دے دیے ہیں اور معاملے کو دبا دیا ہے۔ چینل میں ہر شخص دوبارہ کام میں مصروف ہو گیا ہے۔ میں نے فون رکھ دیا۔ آفس میں جاکر پریس کانفرنس کینسل کر وا دی۔ اُس رات پریس کلب میں صرف دو ساتھی جمع ہوئے۔ باقی اپنی ضرورتوں کے ہاتھوں بک گئے۔ جو موجود تھے اُن سے میں نے صرف اتنا کہا کہ بیس ہزار روپے کب تک چلیں گے؟ آج اگر ہم اکھٹا ہوجاتے تو اِس معاملے کا بہتر حل نکالا جاسکتا تھا۔لیکن اب سال ختم ہو رہا ہے۔ نیا سال شروع ہوتے ہی وہ لوگ کہیں گے کہ پچھلے سال کے بقایا جات ہیں، بعد میں دیکھیں گے۔ اور وہ “بعد” کبھی نہیں آئے گا۔
اگلی صبح مجھے عائشہ ٹیمی حق کا فون آیا۔ اُنہوں نے مجھ سے استعفے کی وجہ پوچھی۔ میں نے بتا دی۔ میں ٹیمی کا پسندیدہ پروڈیوسر تھا۔وہ مجھے گنوانا نہیں چاہتی تھیں۔ اِس لیے انہوں نے کہا کہ وہ سب کے لیے تو وعدہ نہیں کرسکتیں، لیکن میرے dues فوراً clear کر واسکتی ہیں۔ ”تم اپنا resignation واپس لے اور کام شروع کرو۔”
میں نے اُن کا شکریہ اداکیا اورکہا کہ میں صرف اپنی ذات کے بارے میں نہیں سوچتا۔
نیا سال شروع ہو چکا تھا۔ میں تقریباً تین چار دِن گھر میں آرام کرتا رہا۔ رات دیر تک لکھتا اور دن میں دیر تک سوتا رہتا۔
4 جنوری 2010 کی صبح غالباً ساڑھے نو بجے مجھے ڈان نیوزسے (جہاں میں پہلے کام کر چکا تھا) فون آیا۔ میں گہری نیند میں تھا۔ موبائل ٹٹول کر اُٹھایا۔ کان سے لگایا تو دوسری طرف سے کسی نے بوکھلا کر پوچھا:
“سلمان تاثیر صاحب کی کنڈیشن کیسی ہے؟”
میری سمجھ میں نہیں آیا۔ سوچا کوئی مزاق کر رہا ہے۔ چھیڑ رہا ہے پچھلے ہفتے کی میری ناکام کارروائیوں پہ۔
میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو بتانے والے بتایا کہ ”تاثیر صاحب پر جانی حملہ ہوا ہے اور حالت نازک بتائی جارہی ہے۔ تم اُن سے قریب ہو اِس لیے سوچا کہ تمھیں پتا ہوگا۔“ میں نے بتایا کہ چند روز قبل ہی میں نے نوکری چھوڑی ہے۔
مجھے تشویش ہوئی۔ کمرے میں رکھے ٹی وی سیٹ کی طرف دیکھا جو کئی مہینوں سے خراب پڑا تھا۔ اتنے میں بیل بجی۔ مالک مکان تھے۔ میں نے انہیں چار مہینے سے گھر کا کرایہ نہیں دیا تھا جس کی وجہ سے وہ میرے دفتری حالات سے کافی حد تک واقف تھے۔ سفید بنیان پہنے صاحب نے مجھے “مبارک باد” دی کہ سلمان تاثیر کو قدرت نے سزا دے دی۔
“آؤ دیکھو ٹی وی پہ—کیا حال ہوا ہے ظالم کا۔”
میں فوراً اُن کے پیچھے پیچھے برابر والے گھر میں گیا۔ اسکرین پر وہی دیکھا جو دنیا نے دیکھا۔ لیکن ذہن میں جو کچھ چل رہا تھا وہ دنیا کو نہیں پتا تھا۔ مکان مالکن بھی مجھے دیکھ کر خوش ہو گئیں اور چہک کر بولیں:
“اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے بیٹا۔ کتنے لوگوں کا حق مارا ہوا تھا اِس نے۔ آج دیکھو کیسے مارا گیا!”
اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، بزنس پلس کے ایک ساتھی کا فون آگیا:
“آپ تو پیر صاحب نکلے—آپ کی پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔”
میں نے سامنے والے کو جھڑک دیا اور اللہ سے توبہ کرنے کو کہا۔
ایک اور فون آیا: ” آپ کی بد دعا لگ گئی جمالوی صاحب۔ Salman Taseer is no more!”
پھر ایک اور فون آیا: “ہم سے بہت بڑی غلطی ہو گئی جمالوی۔ ہم اُس دِن پریس کانفرنس کر لیتے تو شاید پیسے مل جاتے۔۔۔ آپ آج ہی پریس کانفرنس رکھیں ہم سب پہنچ رہے ہیں—”
میں نے فون کر نے والے کو سمجھایا کہ میرا بزنس پلس سے، سلمان تاثیر سے اور آپ لوگوں سے اب کوئی تعلق نہیں ہے۔ مجھے اِس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنی۔ آئندہ فون مت کیجئے گا۔ میں اپنے کمرے میں واپس گیا، اور پھر سو گیا۔۔۔
٭٭٭
چھ سال گزر گئے اِس واقع کو لیکن میں نے آج تک پبلک فورم پر اِس موضوع پر کوئی بات نہیں کی۔ اورآج تک اس مسئلے کا کوئی حل بھی نہیں نکلا۔ سلمان تاثیر کی وفات کے بعد، جن ملازمین نے اُن کے بیٹے شہریار تاثیر سے گزشتہ اور موجودہ تنخواہوں کا مطالبہ کیا تو بقول شخصے اُس نے یہ جواب دیا کہ ہمارا باپ مر گیا ہے اور تم لوگ پیسے مانگ رہے ہو؟
یہ وہی شہریار تاثیر ہے جس نے مجھے لاھور سے پیغام بھجوایا تھا (جب میں اُن کا ملازم تھا) کہ آپ رات بارہ بجے سے صبح چار بجے تک نیشنل جیوگرافک کی بہترین ڈاکیومنٹری اور WWF کی ریسلنگ،بزنس پلس چینل پر چلانا شروع کردیں۔ اِس پر میں نے یہ اعتراض اُٹھایا کہ کسی دوسرے چینل کا سافٹ ویئر ہم بلا اجازت کیسے چلاسکتے ہیں؟ اورپھر پیمرا کو کیا جواب دیں گے؟ اُس پر شہریار کا یہ جوا ب آیا کہ “آپ پیمرا کی فکر نہ کریں۔ بے خطر ہو کر چلائیں۔پیمرا ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔”
واقعی—اِن کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا—سوائے اُس قدرت کے، جو فرش سے عرش تک پھیلی ہوئی ہے۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply