سماجی شہید

سماجی شہید
محمد علی سید
ابھی ,
آج کل تم بھی سرخی کی زینت بنائے گئے ہو
رسائل ,جریدے بھی ٹی وی بھی
اخبار اور نیٹ پر یار لوگوں نے محفل جمائی ہوئی ہے
مکمل اداسی,ارے ہائے ہائے ,بیچارے سے,
بیچارگی اور غربت کی انمول پکچر بنائے گئے ہو
تمہارے ہاں آج کل اس تنفس پہ پہرا لگا چاہتا ہے
جو
اپنے پرائے کے الفاظ میں عام سی بات کو
مجمع عام میں,
کچھ الٹ پھیر
اس داستان الف لیلوی کی
کیا کر کے اپنے شغل جس کو کہتے تھے بھائی
کیئے جارہے تھے
تمہیں کیا پتہ تھا,
تمہاری یہ 100 فٹ کی لمبی زباں سے
قلم سے, دہاں سے
یہاں سے وہاں سے
دھواں اٹھ رہا ہے
صحیح تو ہوا ہے
یہ ملت کی ذلت ہے
آخر کو تم نے
رہ مسقیمہ کو ٹیڑھا کہا ہے
کہا ہے
یہاں کوئی گڑ بڑ ہوئی ہے
بڑے صاب کی
پاک براق اور چمچماتی سواری
ملک اور ملت کے غم میں
چلی جارہی تھی
وہاں تم نے اس ساز کو ایسے چھیڑا کہ
سب کو بتایا کہ
عالی جنابوں کی جیب اور انگشت
سے تازہ تازہ
گلابوں کی لالی
لہو گر رہا ہے
کہ تم نے کہا تھا کہ عالی جنابوں کے
ملبوس اطہر میں شکنیں بھری تھیں
تمہاری یہ ہمت؟
پتہ ہے
تمہاری حسد سے,جلن سے, اسی بات سے
ان کی دستار بھی گر پڑی تھی
تمہاری بھی فائل یہاں پر پڑی ہے
بس ابا تمہارے,
وہ بچہ وہ بھابی
مگر عدلیہ اور ٹی وی کے ان ٹاک شو میں
جنہیں پھر دوبارہ اسی واسطے
پھر سے رونا پڑے گا
کہ
اس ٹیک میں کچھ مزا ہی نہ آیا
ہاں
کچھ دن تمہارا بھی
اس دیو قامت سے عفریت جن کے
مقابل میں ننھی پری تذکرہ بھی کرے گی
مگر تم جو قانون اور دین حق کا تماشہ بنا کر
کہیں کھو گئے ہو
کہاں رہ گئے ہو
مگر
جب بھی آو
وہاں دیکھ لینا
نا معلوم و
لا وارثان جہاں میں
تمہارا بھی ایک نام آ ہی گیا ہے,
اسی فائل میں خشک و تر بھر گیا ہے
بس اب پھر اجازت
کے اس سے زیادہ
اجازت نہیں ہے

Advertisements
julia rana solicitors

محمد علی سید

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply