سوشل میڈیا اور سماجی جبر

جو سماج جدید ایجادات سے مستفید نہیں ہوتے وہ پسماندہ رہ جاتے ہیں اور تاریخ کا سبق یہ ہے کہ پسماندہ سماج، جدید سماج کی خدمت گزاری پر مامور رہتے ہیں خواہ یہ خدمت گزاری غلامی کی شکل میں ہو، اقتصادی پابندوں سے لبریز ساجھے داری ہو یا کوہ ہمالہ سے بلند دوستی کی شکل میں۔ کچھ حقیقتیں اٹل ہوتی ہیں،معروض جتنا چاہے بدلتا رہے۔ اس لیے آج کے دور میں جدید ایجادات سے لاتعلق رہنا کسی لحاظ سے ممکن نہیں ہے۔

سوشل میڈیا دور جدید کا بظاہر بے ضرر ہتھیار ہے۔ اس کی آمد نے ہماری زندگیوں کو ہر سطح پر متاثر کیا ہے۔ جبر جو ہر معاشرے میں ناپسندیدہ رشتہ داروں کی طرح موجود رہتا ہے، پر کاری ضرب لگای ہے، یہی نہیں بلکہ ایک نیی طرز کا جبر تخلیق بھی کیا ہے۔ ہم اس کی چیدہ چیدہ خصوصیات کا مطالعہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی طاقتور سے نہیں دبتا۔ امریکہ کے صدور ہوں یا انڈر ورلڈ کے بھای لوگ، برطانیہ کی ملکہ عظمی بھی ہو تو یہ انکے ہر معاملے کو پبلک کے سامنے لانے میں ذرا دیر نہیں کرتا۔ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے کہ ایک اسلامی طلبہ کی تنظیم کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اسکے خلاف عام میڈیا میں اسکے متوقع حسن سلوک کی وجہ سے کچھ لکھا نہیں جاتا۔ لیکن سوشل میڈیا پر اسکے خلاف مضامین کی بھرمار دیکھ کر ہمیں خود یہ یقین کرنے میں تامل ہو رہا ہے کہ سوشل میڈیا اسلامی بھاییوں سے بھی نہیں ڈرتا!کبھی لکھنے والے اشاعت کیلیے اخبار کی پالیسی اور ایڈیٹر کی پسند ناپسند کے محتاج ہوتے تھے، لیکن اب اگر آپ کے پاس کہنے کو کچھ ہے تواسے بلا کم و کاست شایع کرنے کیلیے بلاگ موجود ہیں۔ جو جبر صحافتی اداروں کی پالیسی یا پسندو ناپسند سے پیدا ہوا تھا،وہ سوشل میڈیا نے تحلیل کر دیا ہے۔

سوشل میڈیا کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ کسی بھی چیز کو خفیہ نہیں رہنے دے گا۔ پرامیستھیس دیوتا کی طرح یہ ہر وقت عزت داروں کے راز تلاش کرتا رہتا ہے اور انکی نمایش لگاتا رہتا ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ اسکی زندگی اور خوراک ہی یہی ہے۔ یہ اس فضول کام کو گرگ جہاں دیدہ کی طرح مکمل یکسوی اور انتہای سنجیدگی سے کرتا ہے اور مشکل تو یہ ہے کہ اسے ان حرکات سے روکنا بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ کسی سنسر شپ کو نہیں مانتا اور وہ تمام قوانین جو اسے کنٹرول کرنے کیلیے بناے جا رہے ہیں اپنے عملدرآمد کے مراحل میں خوب خوار ہو رہے ہیں۔ ریاست نے ہزاروں سال سے معلومات پر پابندی کے ذریعے ذہنوں کوجکڑنے میں کافی کامیابی حاصل کی ہوی تھی اب اس جبر کے انجام کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ جو جبر معلومات پر پابندی کی صورت میں ریاست نے پیدا کیا ہوا تھا اسے آیندہ نسلیں مذاق سمجھاکریں گی۔

سوشل میڈیا دو دھاری تلوار کی طرح جدید انسان کو دونوں طرف سے کاٹ رہا ہے، یہ اس سے جہالت کی نعمت کو چھین بھی رہا ہے اور اسے حقیقت کے کرب سے آگاہ بھی کر رہا ہے لیکن اس کا کردار محض جبر کی مخالفت میں ہی نہیں ہے بلکہ یہ ایک نیے طرز کا جبر تخلیق بھی کر رہا ہے۔

سب سے پہلا جبر جو یہ تخلیق کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ہم سے ہماری پرایویسی چھین رہا ہے۔ آپ دفتر میں ہوں یا مارکیٹ میں یا کہیں کسی پارک کے بنچ پر سستانے کیلیے بیٹھے ہوں تویہ ممکن ہے کہ آپ کسی کیمرہ کی زد میں ہوں اور آپ کی کوی بھی حرکت چشم زدن میں فیس بک یا یو ٹیوب پر پھیل سکتی ہے۔ اس نے ہماری زندگیوں کو نامعلوم منکر نکیروں سے بھر پور کر دیا ہے۔

دوسرا جبر جو اس نے تخلیق کیا ہے وہ انسان کی لامحدود حماقت کو ہمارے سامنے لاتا جا رہا ہے۔ آپ کو ایکسیدنٹ میں جاں بحق ہونے والے بدقسمت لوگوں کی تصاویر پر لایک کے کمنٹ کرنے والے لوگ دیکھنے کوعام مل جاتے ہیں۔ تشدد کی تصاویر پر ایسے ایسے بے ہودہ کمنٹس مل جاتے ہیں جن کا علم صرف نفسیات کے ماہرین یا فوجداری وکیلوں کو ہی ہوتا تھا۔ایک پیر صاحب نے ایک سزاے موت کے ذریعے فوت ہونے والے شخص کے جسد خاکی کے ساتھ جس طرح ہنس ہنس کر تصویریں اتروای تھیں اگر سوشل میڈیا نہ ہوتا تومیں ان موصوف کو ایک اچھا بزرگ ہی سمجھتا رہتا۔ ذرا سوچیے زمانہ قدیم کے وہ بزرگ کتنے خوش قسمت تھے جن کے خوابوں کے دعوے سوشل میڈیا پر نہ آے اور انکا بھرم قایم رہ گیا۔

سوشل میڈیا جو تیسرا جبر تخلیق کر رہا ہے وہ ہے سایبر بلیینگ۔ سوشل میڈیا پر پھیلنے والے کسی بھی سکینڈل کے بعد اس کے کرداروں پر جو مشق سخن سوشل میڈیا پر ہوتی ہے اسکی وجہ سے کیی زندگیاں برباد ہو جاتی ہیں بلکہ کیی کمزور لوگ تو جان کی بازی ہی ہار جاتے ہیں۔

ہمارے کالج کے دور میں مونیکا لیونسکی کا بل کلنٹن کے ساتھ افیر منظر عام پر آیا تھااور اس بیچاری کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہوا اسپر ان دنوں ہمیں انتہای گہرا افسوس ہوتا رہا۔ اگرچہ اس کی وجہ ہمارے انسانی ہمدردی کے جذبات ضرور تھے لیکن کچھ وجہ اس میں زمانہ طالبعلمی کی تنہای کا دور بھی تھا۔
مونیکا شاید پہلی خاتون تھی جسے سایبر بلیینگ کی شدید ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑا۔سوشل میڈیا نے اسکی زندگی کو جس طرح تناو سے دو چار کیا اسے اس نے اپنے ایک انٹرویو میں بیان کیا ہے جس سے اسکی لامحدود ذہانت عیاں ہوتی ہے خصوصااس انٹرویو کیلیے اسکے وقت کے انتخاب نے، جب ہیلری امریکہ کی صدارت کیلیے الیکشن لڑ رہی ہے۔
وہ کہتی ہے۔۔۔۔ (میں ایک ہی رات میں دنیا کی سب سے ذلت زدہ خاتون بن گیی اور ایک ہی لمحے میں میری عزت تمام دنیا کے سامنے صفر ہو گیی۔ مجھے سوشل میڈیا پر سنگسار کیا گیا، لوگوں نے مجھ پر بڑھ چڑھ کر کمنٹ اچھالے، میرے بارے مزے لے لے کر کہانیاں بنایں اور نہایت سنگدلانہ لطیفے تخلیق کیے۔ مجھے مختلف قسم کے برے القابات سے نوازا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ جس عورت کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اسکی بھی ایک روح ہے جو کبھی شاداں اور پر مسرت تھی۔ میں نہ صرف اپنی عزت و وقار سے محروم ہویی بلکہ میرا خاندان بھی میرے لیے سخت اذیت کا شکار ہوا۔ میری ماں میری حالت کے پیش نظر ہر رات میرے ساتھ سوتی اور میں واش روم کو صرف دروازہ کھلا رکھ کر ہی استعمال لر سکتی تھی۔ میرے ماں باپ کو شک تھا کہ میں اس اذیت سے موت کا شکار ہو جاوں گی اور وہ اس کربناک دور سے آج بھی باہر نہیں آسکے۔ وقت انکے لیے تھم کر رہ گیا ہے۔ انٹر نیٹ نے لوگوں کو آپس میں جوڑا ہے، زندگیوں کو محفوظ بنایا ہے، گمشدگان کو آپس میں ملوایا ہے اور انقلابات برپا کیے ہیں لیکن اسکے ساتھ ہی سایبر بلیینگ بھی پھیلا ہے۔ ہر روز لوگ خصوصا نوجوان اس کا شکار ہوتے ہیں۔ لاکھوں لوگ آپ کو اپنے خنجر تنقید کا نشانہ بنا سکتے ہیں جس سے لامحدود تکلیف پیدا ہوتی ہے۔انٹر نیٹ نے ایک مارکیٹ پیدا کی ہے جہاں رسوای ایک پراڈیکٹ ہے اورذلت ایک صنعت۔ سرمایہ کس طرح پیدا ہوتا ہے؟ کلکس۔ جتنی زیادہ رسوای اتنے زیادہ کلکس، جتنی زیادہ ذلت اتنے زیادہ ڈالر۔ کسی کی زندگی کی قیمت پر کسی کے ڈالر بن رہے ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ غیر محسوس طور پر ہمارے کلچر کا حصہ بنتا جا رہا ہے۔ اس کے بارے ذرا سوچیے گا ۔)

Advertisements
julia rana solicitors

اس سے آگے، اس سے بہتر کیا کہا جا سکتا ہے؟

Facebook Comments

میاں ارشد
لاہور میں مقیم، پیشہ وکالت سے وابستہ۔ بے ضرر ہونے کو انسان کی معراج سمجھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply