مرا پیغمبر عظیم تر ہے۔۔۔نادیہ عنبر لودھی

مرا پیمبر عظیم تر ہے
کمالِ خلاق ذات اُس کی
جمالِ ہستی حیات اُس کی
بشر نہیں عظمتِ بشر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ شرحِ احکام حق تعالیٰ
وہ خود ہی قانون خود حوالہ
وہ خود ہی قرآن خود ہی قاری
وہ آپ مہتاب آپ ہالہ
وہ عکس بھی اور آئینہ بھی
وہ نقطہ بھی خط بھی دائرہ بھی
وہ خود نظارہ ہے خود نظر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

شعور لایا کتاب لایا
وہ حشر تک کا نصاب لایا
دیا بھی کامل نظام اس نے
اور آپ ہی انقلاب لایا
وہ علم کی اور عمل کی حد بھی
ازل بھی اس کا ہے اور ابد بھی
وہ ہر زمانے کا راہبر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ آدم و نوح سے زیادہ
بلند ہمت بلند ارادہ
وہ زُہدِ عیسیٰ سے کوسوں آ گے
جو سب کی منزل وہ اس کا جادہ
ہر اک پیمبر نہاں ہے اس میں
ہجومِ پیغمبراں ہے اس میں
وہ جس طرف ہے خدا ادھر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

بس ایک مشکیزہ اک چٹائی
ذرا سے جَو ایک چارپائی
بدن پہ کپڑے بھی واجبی سے
نہ خوش لباسی نہ خوش قبائی
یہی ہے کُل کائنات جس کی
گنی نہ جائيں صفات جس کی
وہی تو سلطانِ بحرو بر ہے
مرا پیمبر عظیم تر ہے

جو اپنا دامن لہو سے بھر لے
مصیبتیں اپنی جان پر لے
جو تیغ زن سے لڑے نہتا
جو غالب آ کر بھی صلح کر لے
اسیر دشمن کی چاہ میں بھی
مخالفوں کی نگاہ میں بھی
امیں ہے صادق ہے معتبر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

جسے شاہِ شش جہات دیکھوں
اُسے غریبوں کے ساتھ دیکھوں
عنانِ کون و مکاں جو تھامے
کدال پر بھی وہ ہاتھ دیکھوں
لگے جو مزدور شاہ ایسا
نذر نہ دَھن سربراہ ایسا
فلک نشیں کا زمیں پہ گھر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے

وہ خلوتوں میں بھی صف بہ صف بھی
وہ اِس طرف بھی وہ اُس طرف بھی
محاذ و منبر ٹھکانے اس کے
وہ سربسجدہ بھی سربکف بھی
کہیں وہ موتی کہیں ستارہ
وہ جامعیت کا استعارہ
وہ صبحِ تہذیب کا گجر ہے
میرا پیمبر عظیم تر ہے
(مظفر وارثی)​

وہ سعید ساعت جس کے انتظار میں کائنات نے ان گنت برس انتظار کیا -جس کے شوق میں ماہ و خورشید ازل سے چشم براہ تھے-وہ عظیم ہستی جس کے پاؤں چومنے کے لیے زمیں کا ذرہ ذرہ بے تاب تھا -جس دن اس ہادی برحق کی ولادت ہوئی -اس دن وادی مکہ کی ہواؤں میں عجب کیف و مستی تھی -وادی مکہ پُر بہار تھی -یہ ۹/۱۲ربیع الاول کی صبح جانفزا تھی -حضرت آمنہ فرماتی ہیں کہ جب میں نے نور مجسم کو جنم دیا تو ایک عظیم نور دیکھا جو برابر پھیلتا چلا گیا –

وادی ِمکہ کا بوڑھا سردار عبدالمطلب کعبتہ اللہ کے طواف میں محو تھا اس پر وارفتگی کی کیفیت طاری تھی کہ اچانک مرحوم بیٹے عبداللہ کی کنیز “برکہ ” نمودار ہوتی ہے گلنار چہرے اور پھولی ہوئی سانسوں کے ساتھ دادے کو پوتے کی پیدائش کی خوش خبری سناتی ہے -بوڑھا سردار بے اختیار کعبہ کا غلاف تھام لیتا ہے اور اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے -گھر تشریف لاکر نومولود کے پاکیزہ اور معطر بدن کو گود میں لے لیتا ہے بچے کی پیشانی کو بوسہ دیتا ہے پھر بچے سمیت حرم کعبہ واپس آکر دیر تک دعائیں کرتا رہتا ہے -دادا نے نام “محمد “رکھا والدہ نے “احمد” رکھا -یہ مبارک وجود جہاں جہاں پرورش پاتا رہا اپنی خیر وبرکات سے خوشحالی اور طمانیت کی فضا پھیلاتا رہا – رضاعی والدہ حلیمہ سعدیہ کے گھر میں حضرت محمد کی آمد کے ساتھ ہی رزق کی فراوانی ہو گئی -آپ کی نشوونما عام بچوں سے کہیں زیادہ تیزی سے سرعت پذیر ہوئی -چھ سال کی عمر میں شق الصدرکا واقعہ پیش آیا -والدہ اور دادا یکے بعد دیگرے وفات پاگئے- حضرت محمد چچا ابو طالب کے گھر رہنے لگے -چچا کی مالی حالت جو کہ کمزور تھی آپ کی برکت سے سنورنے لگی-راہب بحیرہ اور راہب نسطورا نے سفر ِشام میں آپ کی نبوت کی نشان دہی کی اور یہودیوں سے حفاظت کامشورہ دیا- تجارت کا پیشہ اختیار کیا شیوہ پیغمبری کے طور پر گلہ بانی بھی کی -ہادی ِبرحق ، نبی آخرالزماں کی رسالت کے آغاز سے قبل خواب میں آپ پر اسرار منکشف ہونا شروع ہوگئے -غار حرا کی تاریکی میں آپ سر بسجود ہیں کہ دفعتاً غار نور سے بھر جاتا ہے آپ چونک اٹھتے ہیں دیکھتے ہیں کہ سامنے ایک فرشتہ موجود ہے جو کہ آپ کو نبوت کی بشارت دیتا ہے – سورہ علق کی آیات وحی کی جاتی ہیں – جلال بے پایاں کے جلوے کی چکاچوند اٹھانے کا پہلا موقع تھا -آپ بے چین ہوگئے -حیرت اور ہیبت زدہ ہوگئے _حضرت خدیجہ نے ڈھارس بندھائی آپ کے صادق اور امین ہونے کا جواز دیا آپ کے حلیم لطبع ہونے کا عذر پیش کیا -حضرت علی ،حضرت ابوبکر حضرت زید بن حارثہ تینوں بلاتوقف دائرہ اسلام میں داخل ہوگئے -دعوت اسلام کا خفیہ دور شروع ہوگیا -آہستہ آہستہ دائرہ اسلام میں آنے والوں کی تعداد چالیس ہوگئی-تین برس تک نہایت رازداری کے ساتھ تبلیغ کا فریضہ جاری رہا-پھر حضرت عمر حلقہ بگوش اسلام ہوگئے تو کوہِ صفا پر کفار مکہ کو عل اعلان دعوت دینے کا وقت آپہنچا آپ نے توحید کی دعوت دی جس پر مجمع سیخ پا ہوگیا –

اب کفار کی طرف سے کھل کر مخالفت اور ایذا رسانی ، ظلم و ستم کا آغاز ہوگیا کہ ہجرت حبشہ اختیار کی گئی-عبدالمطلب اور حضرت خدیجہ داغ مفارقت دے گئے -حضرت محمد پر صدمات سے نڈھال عام الحزن کا پُر ملال سال گزرا-مکہ والوں کی زیادتیاں بڑھتی گئیں حضرت محمد نے اپنے غلام زید بن حارثہ کے ساتھ تبلیغ کے لیے سفر ِطائف اختیار کیا-اہل ِطائف نے زخموں سے چور چور کردیا- دردناک سفر کے بعد سفر ِمعراج جیسی عظمت سے رب نے نوازا -کون و مکاں کی سب وسعتیں سمٹ گئیں ساتوں آسماں کی سیر کے بعد سدرہ المنتہی تک گئے -اللہ تعالی سے روبرو ہوۓ -خلوت گاہ ِراز میں راز و نیاز کے وہ پیغام ادا ہوۓ جن کی لطافت و نزاکت الفاظ کی متحمل نہیں ہوسکتی-حضرت محمد نے صحابہ کے ساتھ مدینہ ہجرت کی -مواخات مدینہ ہوئی – مسجد نبوی کی تعمیر عمل میں آئی -اذان کی ابتدا ہوئی -میثاق مدینہ عمل میں آیا-غزوات کا آغاز ہوا-غزوہ بدر ،غزوہ احد ،غزوہ بنو نضیر،غزوہ خندق اور صلح حدیبیہ وقوع پذیر ہوۓ -مسلمانوں نے فتح خیبر ،معرکہ موتہ میں بہادری کے جھنڈے گاڑھے -فتح مکہ ہوئی -حق آپہنچا اور باطل مٹ گیا -حضرت بلال نے کعبہ میں اذان دی -لطف وکرم ،رحم وعطا،عفو اور در گزر کی نئی مثال قائم ہوئی عام معافی کا اعلان کردیا گیا -غزوہ حنین میں فتح ملی -عام الوفود سے حق کا اجالا پھیلتا گیا اور ظلمتیں کافور ہوتی چلی گئی -غزوہ تبوک کی تیاری کی گئی حضرت محمد نے ایک ماہ تبوک میں قیام فرمایا لیکن جنگ پیش نہ آئی -اہل ِشام نے حملے کا خیال ترک کردیا-دس ہجری کو حضرت محمد نے حج کا ارادہ فرمایا -یہ آپ کا پہلا اور آخری حج تھا صحابہ کے ساتھ مناسک ِحج ادا کیے -خطبہ حجتہ الوداع دیا-روح قدسی کو عالم جسمانی میں اسی وقت تک رہنے کی ضرورت ہے جب تک تکمیل ِشریعت اور تذکیہ ِنفوس کا عظیم الشان کام درجہ کمال تک پہنچ جاۓ -حجتہ الوداع میں یہ اہم کام سر انجام ہوچکا- مکہ واپسی کے کچھ عرصے بعد مر ض الموت کاآغاز ہوگیا حضرت محمد کا سر درد بخار میں بدل گیا حتی کہ آپ کے بدن مبارک میں مسجد تک آمد کی قوت بھی نہ رہی حضرت محمد نے حضرت ابو بکر کو نماز کی امامت سونپی -حضرت محمد کی وفات کا وقت قریب آرہا تھا ۱۲ربیع الاول ۱۱ہجری کا دن تھا حضرت عائشہ کی آغوش میں مبارک سر تھا انگشت شہادت سے اوپر کی طرف اشارہ کیا اور تین بار یہ الفاظ دہراۓ ” اللھم الرفیق اعلی ”

یہ کہتے ہوۓ روح پاک جسم مبارک سے پرواز کر گئی اس وقت آپ کی عمر مبارک تریسٹھ برس چار دن تھی آپ کو حضرت عائشہ کے حجرے میں دفن کردیا گیا -وصیت کے مطابق غسل دیا گیا فرشتوں نے نماز جنازہ ادا کی پھر باری باری دس دس صحابہ کی جماعت کی طرف سے حجرہ شریف میں فردا فردا نماز جنازہ ادا کی گئی –

دین کی تبلیغ کا فریضہ آپ نےعمدگی سے ادا کیا اللہ کے رستے میں سب سے زیادہ ستاۓ گئے آپ کے اہل بیت نے ازواج مطہرات نے اس مشن میں آپ کا بھر پور ساتھ دیا آپ کی گیارہ ازواج مطہرات تھیں حضرت خدیجہ جن کے بطن سے دو بیٹے حضرت قاسم حضرت عبداللہ چار بیٹیاں سیدہ زینب ،سیدہ رقیہ ،سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ تولد ہوۓ –

دیگر ازواج میں حضرت سودہ ،حضرت عائشہ ،حضرت حفظہ، حضرت زینب بنت خزیمہ ، حضرت ام سلمی ، حضرت زینب بنت حجش، حضرت جویریہ،حضرت ام حبیبہ ،حضرت صفیہ ،حضرت میمونہ تھیں -ان دس سے کوئی اولاد نہ ہوئی -ایک بیٹا ماریہ قبطیہ کے بدن سے ہوا یہ بچپن میں ہی فوت ہو گئے –

آپ پیغمبر رحمت تھے -تمام عالم کے لیے سراپا رحمت تھےآپ کی پاکیزہ سیرت امت مسلمہ کے لیے عظیم نعمت ہے آپ کی سنت مبارکہ وہ روشنی ہے جس سے زندگی کے سب گوشے منور ہوسکتے ہیں امت مسلمہ کی بھلائی اتباع رسول میں ہے سیرت طیبہ کا مطالعہ ،اس میں غور و فکر کرنا اور اس کے مطابق زندگی گزرانے کی کوشش کرنا ہر بندہ مومن پر واجب ہے -اللہ تعالی کی نعمت کبری مسلمانوں سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سانس تک سیرت رسول کو حزر ِجاں بنا کر رکھیں اسے بار بار پڑ ھیں اور زندگی کے ہر گام پر اس سے روشنی حاصل کرتے رہیں –

Advertisements
julia rana solicitors

“صلو علی الحبیب”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply