چندرا،۔۔۔ شہزاد حنیف سجاول

پرانے کنویں کی منڈھیر پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو ایک ٹھنڈا ٹھار اندھیرا اس کی تہہ میں ٹھہرا ہوا ہے جس نے اس کے ظاہر پر باطن کا پردہ ڈال رکھا ہے۔۔ اس گھپ اندھیرے میں نظریں گم سی ہو جاتی ہیں تو انسان کو اپنی بینائی کے کھو جانے کا اندیشہ ہونے لگتا ہے اور نظریں کنویں کے سیلن زدہ دیواروں پہ رینگتی ہوئی باہر آجاتی ہیں۔
بی اے کے امتحانات ختم ہو چکے تھے اور ابا کی پر اسرار نگاہیں میرا تعاقب کرنے لگی تھیں تو مِیں نے ان نگاہوں سے بچت کا پروگرام بنایااور دادا کی محبت میں سرشار ہو کر گاوں ان کے پاس رہنے آگیا ،جہاں یک گونہ آزادی بھی تھی اور ابا کی تیز دھار نگاہوں سے اوٹ بھی۔ دادا جی حویلی کے سب سے پرانے حصے میں رہائش پذیر تھے جس کی دیواروں کے بیرون پتھر اور اندروں اینٹیں چنی ہوِئیں تھیں۔ فرش کچا تھا اور دیواروں پر گاچنی مٹی کا لیپ ہوا تھا کمرے کا فرش صحن سے نچلا تھا۔ عقبی دیوار کے عین درمیان میں کھڑکی تھی اور اس کے دونوں جانب طاق تھے۔ اس کے ساتھ والی دیوار میں ایک الماری تھی جس میں دادا جی کے روز مرہ استعمال کی اشیاء رکھی ہوئی تھیں۔ ان اشیاء میں سے ایک سرمہ دانی میں مجھے بے حد دلچسپی تھی ،وہ خالص پیتل کی نقرئی رنگ کی سرمہ دانی تھی اور ایک دھاڑتے ہوئے شیر کی شبیہ تھی جیسے آسمان کی طرف منہ اٹھائے دھاڑ رہا ہو۔ میں جب بھی دادا سے وہ مانگتا تو وہ ٹال جاتے تھے حالانکہ دیگر سب چیزوں کے بارے میں کہتے تھے کہ سب تمہارا ہی تو ہے۔ لیکن اس کے بارے میں کہتے تھے جب تک زندہ ہوں تب تک میرے پاس رہنے دے جب مر جائوں تو لے لینا۔
پرانے مکان کے صحن کی دیوار گر چکی تھی جو اب بے ترتیب پتھروں کی قطار سی لگتی تھی۔اس شکستگی کے عالم میں بھی وہ ایک دروازے کو تھامے کھڑی تھی جس کی اب صرف چوگھاٹ باقی تھی تختے تو کب کےپیوند خاک ہو چکے تھے۔ دروازے سے نکلیں تو بیس کے قریب سیڑھیاں نیچے کو اترتی ہیں جن کے پتھروں کے درمیان اب خلا آ چکے تھے جیسے بڑھاپے میں دانت گھس کر ایک دوسرے سے دور ہٹ جاتے ہِیں۔ نیچے درختوں کا جھنڈ ہے جن کی شاخیں اگر آپ شکستہ دیوار پر بیٹھیں تو آپ کے پائوں چھونے آتی ہِیں۔ ان درختوں کے درمیان پرانا کنواں تھا جو اب بھی موجود ہے۔ یہ رستہ اب کوئی استعمال نہِیں کرتا اس لیے سیڑھیوں پر اور درختوں کے درمیان خوب گھاس اگی ہوئی ہے اور جھاڑ جھنکار جمع ہے۔ دادا کبھی کبھار نیچے جاتے اور کنویں کی منڈھیر پر کچھ دیر بیٹھ کر اس میں جھانک کر دیکھتے ہیں جیسے کچھ ڈھونڈ رہے ہوں۔
برسات کے دن گزر چکے تھے۔اوائل اکتوبر کے دن تھے موسم میں اب ذرا خنکی پیدا ہونے لگی تھِی بالخصوص راتیں ان دنوں مِیں ٹھنڈی ہوجاتی ہیں۔قدرت کی مہربانی سے اس بار اس موسم کے دوران مِیں، گاوں میں تھا۔ ایک رات کوئی بارہ بجے کے قریب منشی افضل کے کتے زور زور سے بھونکتے ہماری گلی تک آگئے تو میری آنکھ کھل گئی۔ میں اٹھ کر دیکھنے لگا کہ کیا ماجرا ہے تو دادا نے لیٹے لیٹے کہا کچھ نہیں سو جائو کوئی سئور آگیا ہوگا تو کتے اس کے پیچھے لگے ہِِیں، اسے گاوں سے باہر چھوڑکر ہی آئیں گے۔میں لیٹ گیالیکن نیند کسی انجانے ستارے پہ چلی گئی اور میں اس کے تعاقب میں ستاروں کی سیر میں مگن ہوگیا ۔ کافی دیر بعد جب میں ستاروں کی تمام گزرگاہوں سے سیر حاصل آگہی حاصل کر چکا تو میں نے اپنا رخ دادا کی چارپائی کی طرف پھیر لیا اور سوچنے لگا کہ دادا کو کیسے پتا چلا کتے کیوں بھونک رہے ہیں؟ جبکہ وہ تو اپنی جگہ سے ہلے بھی نہیں؟ چاند کی چودھویں رات تو نہ تھی لیکن اتنی چاندنی ضرور تھی کہ میں دادا کے چہرے کے واضح طور پہ دیکھ سکتا تھا۔میں اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ دادا کی کنار چشم سے ایک آنسو نکلا اور ان کے چہرے کی جھریوں مِیں جذب ہوگیا۔ پہلے تو مجھے لگا جیسے میر اوہم ہے لیکن پھر ایک کے بعد دوسرا پھر تیسرا اور پھر آنسوئوں کی ایک لکیر سی کھنچ گئی۔۔

دادا نے اپنی چادر سے انھیں صاف کیا اور انگھوٹھے سے اپنی آنکھیں دباتے جاتے اور باقی ماندہ آنسو نکالتے جاتے۔دادا اپنے چہرے کو اس شدت کے ساتھ مل رہے تھے جیسے کوئی نشان مٹا رہے ہوں۔دادا کے چہرے کی جھریوں میں اچانک اضافہ ہوگیا تھا۔ میں مبہوت سا ہو گیا۔ رات کا پچھلا پہر، گہرا سکوت ، چاندنی کی فسوں کاری اس سحر انگیز ماحول نے مجھے جیسے پتھر بنا دیا تھا میں دیکھ رہا تھا لیکن ہل سکتا تھا نہ بول سکتا تھا اور دادا کی آنکھوں سے آنسو بہتےچلے جا رہے تھے۔مجھے ان آنسووں کی حدت اپنے چہرے پر محسوس ہو رہی تھی کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ میری بھی چشم بھیگ چکی ہیں اور آنسووں کا ایک بے انت ریلا ہے جو بہتا جا رہا ہے۔ جس پر مجھے یکسر کوئی اختیار نہیں ہے۔ انہی آنسووں میں بھیگتا پتہ نہِیں کب میں سو گیا۔ لیکن اس ایک رات کا نقش میرِی لوح ذہن پر آج بھی کندہ ہے۔
اگلی صبح جب میری آنکھ کھلی تو دن چڑھ آیا تھا ۔صحن میں صرف میری چارپائی بچھِی تھِی باقی سب اٹھ چکے تھے، پہلے تو میں خالی آنکھوں سے پورے گھر کو دیکھتا رہا ۔اس بات کا یقین حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ رات کا واقعہ حقیقت تھی یا کوئی خواب تھا۔ جب میں کسی نتیچے پر نہ پہنچ سکا تو اٹھ بیٹھا۔جب میں بستر سے اترا تو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میرا سارا وجود کچلا گیا ہو اور میرے پورے بدن سے درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔میرا ذہن اور بدن دونوں پژمردہ تھے۔ناشتے کے بعد میں نے سارا واقعہ پھوپھو کو سنایا۔ پہلے تو بہت دیر تک وہ میرا چہرہ دیکھتی رہیں مکرر ،سارا واقعہ مجھ سے سنا اور پریشان سی ہوگئیں۔ میری فکر مندی میں مزید اضافہ ہوگیا اور مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ رات جو کچھ ہوا وہ سچ تھا کوئی خواب نہیں تھا ۔ان کے پوچھنے پر میں نے انھیں بتایا کہ ابھی میں نے اس بات کا صرف انھیں سے ذکر کیا ہے،تو انہوں نے مجھے سختی سے منع کر دیا کہ میں اس بات کا تذکرہ کسی سے نہ کروں۔

لیکن میرے ذہن میں سوالوں کے کانٹے پیہم اگے جارہے تھے۔اورمیں ان سوالات کے جواب کے تلاش میں سرگرداں تھا لیکن مجھے کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ دادا سے پوچھنے کی مجھ میں ہمت نہ تھِی ،پھوپھو بھی میری طرح کوری تھیں انہوں نے  پہلے بھی دادا کو ان دنوں میں روتے دیکھا ہے لیکن کبھی ان سے پوچھ نہ پائی تھیں۔ انہوں نے مچھے بتایا کہ ایک شخص ہے جو مجھے اس بارے میں کچھ بتا سکتا ہے کیونکہ بچپن سے لے کر آج تک دادا کی زندگی کا ہر ورق اس کے لیے کھلی کتاب تھا۔وہ دادا کی زندگی کے ہر پل سے واقف تھا۔ اور میرِی ان کے ساتھ بہت گاڑھی چھنتی تھی وہ تھےدادا کے بچپن کے دوست، لالا نصیر۔
کئی روز تک میں روزانہ صبح ہوتے ہی ان کے گھر چلا جاتا اور ان کے گھر کے باہر قبرستان میں بیری کے نیچے بیٹھ جاتا جہاں ان کی چارپائی سارا سال بچھی رہتی تھی ۔سردیوں میں دھوپ مِیں، اور گرمیوں میں بیری کی چھاوں مِیں۔ میری ہفتہ بھر کی ریاضت رنگ لے آئی اورایک دن اس وعدے پر انہوں نے مجھے اس بات کی حقیقت بتانے کی حامی بھری کہ دادا یا ان کی زندگی میں اس بات کا کسی سے ذکر نہیں ہوگا، ایک وعدہ انہوں اور لیاکہ میں انھیں تھوڑا وقت دوں تاکہ وہ اپنی بجھتی ہوئی یاداشت کا چراغ پھر سے جلا سکیں اور ان کرب انگیز لمحوں کی انگیخت کے لیے اپنی ہمت مجتمع کرسکیں۔
دو ایک دن کے وقفے کے بعد انہوں نے مجھے بھلا بھیجا ،قریب کے کھیت میں ان کی بہوئِیں اور پوتیاں مونگ پھلی نکال رہیں تھِِیں مجھے دیکھتے ہی جیسے وہ کسی اور دنیا میں چلے گئے ہوں۔کافی دیر وہ خالی نگاہوں سے آسمان ٹٹولتے رہے پھر آہستہ آہستہ بولنے لگے ۔یہ تقسیم سے قبل کا وقت تھا ہمارے علاقے میں سکھوں کی بڑی آبادی تھی یوں تو پورے علاقے میں سکھ آباد تھے لیکن ہمارے گاوں میں سکھ اور مسلم آبادیاں قریب قرہب برابر تھیں، جس مکان میں اب تم اور تمہارا دادا رہتے ہو وہ ایک سکھ ذیلدار کا مہمان خانہ تھا جس کا نام سمپورن سنگھ تھا ۔اس کا گھر نیچے درختون کے جھنڈمیں تھا جہاں مہمانوں کے آنے جانے میں دقت تھی اس نے تمہارے ابا کے دادا کی اجازت سے تم لوگوں کی زمین پر مہمان خانہ بنوایا جو ہر خاص و عام کے لیے ہر وقت کھلا رہتا تھا۔ سب کے مہمان وہاں ٹھہرتے تھے سمپورن سنگھ کی دو بیٹیاں تھیں چندرا وتی کور اور سمرن وتی کور۔ دونوں بے حد خوبصورت تھیں۔ ظاہری حسن جو کہ پروردگارکی دین ہے کے ساتھ ساتھ ان کے والد نے ان کی ایسی تربیت کی تھِی کہ ان کا اخلاق اور کردار بھی لاٹیں مارتا تھا ۔دونوں نے قرآن پاک ناظرہ مولوی نور عالم سے پڑھ رکھا تھا ،عربی کی شد بد بھی تھی اور گلستان بوستان سے بھی شناسا تھِیں۔ چندرا،دونوں میں سے زیادہ خوبصورت اور سشیل تھی وہ قرآن پڑھتی تو پتہ ہی نہ چلتا کہ مسلمان ہے کہ سکھنی۔ بوہڑ والے سکول سے دونوں نے ماسٹر غلام قادر سے تین جماعتیں سکول کا سبق بھی پڑھ رکھا تھا۔تیرا دادا اور چندرا ہم سبق تھے سکول میں بھِی اور مولوی غلام قادر کے پاس بھی۔
تیرا دادا علاقے بھر میں خوبرو ترین جوان تھا ۔سرخ و سپید رنگت، شہد رنگی آنکھیں بوٹا سا قد اور بلا کا معصوم چہرہ ،جو بھی دیکھتا بس دیکھتا ہی رہ جاتا۔ چندرا بھی ان میں سے ایک تھی۔ وہ تمھارے دادا سے بے حد پیار کرتی تھی لیکن یہ بات اس نے تیرے دادا سے کیا کرنی تھی کبھی خود سے بھی نہ کی تھی۔ وہ تمھارے گھر آتی جاتی کھانا پکاتی، کام کاج کرتی ،بس تمہارے دادا کے آس پاس رہنے کا بہانا ڈھونڈتی پھرتی تھی۔ اس دوران تقسیم کا ہنگامہ شروع ہو گیا۔ روز بروز حالات دگر گوں ہونے لگے۔ریڈیو سننے والے بتاتے تھے کہ پورے پنجاب میں غدر مچا ہوا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آہستہ آہستہ سکھ برادری کوچ کرنے لگی تھی کیونکہ جوں جوں انڈیا سے مسلمانوں کے قتل عام کی خبریں آتی تھیں یہاں کے مسلمان سکھوں سے اس ظلم کا بدلہ لینے لگے تھے ،جہاں جہاں سکھ آبادی کم تھِی وہاں لوٹ مار شروع ہو گئی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے کے پورے گاوں خالی ہوگئے۔ہمارے گاوں سے سب چلے گئے ۔بس سمپورن کا خاندان رہ گیا تھا جو سامان باندھے تیار بیٹھے تھے، سمپورن ،اس کی بیوی اور بیٹیا ںکوئی بھی نہیں جاتا چاہتا تھا لیکن وہ اپنے بھائی کے ہاتھوں مجبور تھا جو ماسٹر تارا سنگھ کا قریبی آدمی تھااور وہ اپنے بھائی کو ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔۔ سمپورن اسے انکار نہ کرسکتا تھا
جس دن انہوں نے جاتا تھا پورا دن گاوں میں سوگ سا ماحول رہا ،کیونکہ کسی کی خواہش نہ تھی کہ وہ جائیں لیکن مجبوری تھی کہ دامن کھینچ رہی تھی۔ پورا دن میل ملاپ میں گذرگیا شام کو سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹے کہ کچھ کھا پی لیں ،کیوں کہ پروگرام کے مطابق اندھیرا ہوتے ہی انہوں نے نکلنا تھا۔ جب رخصت کا وقت آیا تو تمھاری حویلی میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی، ہر آنکھ اشک بار تھی۔ تیر دادا جب آیا تو چندرا نے اسے دیکھا اور دیکھتی ہی چلی گئِی ۔اس کی آنکھوں سے جیسے دریا بہہ رہا ہو، پھر جیسے اڑیل مال نہیں رسا تڑا کے بھاگ نکلتا، وہ بھی رسہ تڑا کے بھاگی۔ مہمان خانے کے صحن سے گذری دروازے سے نکلی سیڑھیاں پھلانگتی کنویں میں کود گئی ۔رات کا وقت گہرا کنواں جب تک کوئِی انتظام ہوتا چندرا کی سانسیں ٹوٹ گئیں۔
جب لاش نکالی گئی تو چندرا کی مٹھِی مِِیں ایک چٹھی تھی جو تیرے دادا کے نام لکھی تھی اور لکھی ہوئی ہاتھ میں ہی رہ گئی اور تیرے دادا کو نہ دی جا سکی۔ مولوی نور عالم نے چٹھی پڑھ کر تیرے دادا کے ہاتھ میں تھما دی اور اعلان کر دیا کہ چندرا مسلمان مری ہے۔ لہٰذا اس کی تدفین مسلمانوں کے قبرستان میں مسلمانوں کے رواج کے مطابق ہوگی۔ مولوی نور عالم کے سامنے کوئی لب کھول سکے، کسی کی اتنی مجال نہ تھی۔ سو ان کے حکم کے مطابق چندرا کی تدفین ہوئِی اور کچھ دن بعد اس کے گھر والے چلے گئے۔تمھارے گھر سے بڑے گاوں جاتے ہوئے موڑ میں ایک قبر پر جس کا کتبہ پیلے رنگ کا ہے اور اس پر کچھ بھی نہیں لکھا ہے وہ چندرا کی قبر ہے۔ یہی دن تھے جب یہ حادثہ ہوا تھا ۔اس لیے ان دنوں میں چندرا کاغم تیرے دادا کو گھیرے رکھتا ہے اور وہ دن رات دیدے نچوڑتا رہتا ہے۔
لالا نصیر اور مِیں کتنی ہی دیر روتے رہے کچھ پتہ نہیں۔واپس آکر میں اس قبر گیا، فاتحہ پڑھی ۔۔پھر مجھے خیال آیا کہ چندرا تو اس قبر میں نہیں ہے ،یہاں تو اس کا کلبوت دفن ہے ،چندرا تو کنویں میں ہی رہ گئی تھِی سو میں چندرا سے ملنے کنویں پہ آگیا۔
پرانے کنویں کی منڈھیر پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو ایک ٹھنڈا ٹھار اندھیرا اس کی تہہ میں ٹھہرا ہوا ہے جس نے اس کے ظاہر پر باطن کا پردہ ڈال رکھا ہے۔۔ اس گھپ اندھیرے میں نظریں گم سی ہو جاتی ہیں تو انسان کو اپنی بینائی کے کھو جانے کا اندیشہ ہونے لگتا ہے اور نظریں کنویں کے سیلن زدہ دیواروں پہ رینگتی ہوئی باہر آجاتی ہیں۔

 

Facebook Comments

شہزاد حنیف سجاول
افسانہ نگار۔ ڈرامہ نویس۔ فلسفہ و الہیات کا طالب علم۔ کلر سیّداں ضلع راولپنڈی سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply