یہ 19 دسمبر 1997 کی خوشگوار صبح ہے ہلکے ہلکے بادل،تیز ہوا اور کبھی کبھی آسمان کی کوکھ سے ٹپکتی بوندیں۔ جہاز کے پہیوں نے زمین کو چھوا تو چشم تخیل میں یادوں کے پے در پے دریچے کھلتے چلے← مزید پڑھیے
دادا جی کے کمرے کی پچھلی دیوار میں جو کھڑکی ہے اس سے باہر دیکھیں تو دور دور تک کھیتوں کی ہریالی نظر آتی ہے ساتھ والے جھنڈ کے درخت اپنے سر جوڑے آپس میں سرگوشیاں کرتے رہتےہیں اور ان← مزید پڑھیے
پرانے کنویں کی منڈھیر پر کھڑے ہو کر دیکھیں تو ایک ٹھنڈا ٹھار اندھیرا اس کی تہہ میں ٹھہرا ہوا ہے جس نے اس کے ظاہر پر باطن کا پردہ ڈال رکھا ہے۔۔ اس گھپ اندھیرے میں نظریں گم سی← مزید پڑھیے
آج اتوار ہے اور میں گھر کی دوسری منزل پر ٹیرس میں بیٹھا سامنے وادی میں بادلوں کی آنکھ مچولی دیکھ رہا ہوں۔ بارش ابھی ابھی رکی ہے چھت کے کھپریلوں سے بارش کا پانی بوند بوند ٹپک رہا ہے۔۔← مزید پڑھیے