کعبہ میں موسیقی ۔عثمان گُل

روم میٹ کے ساتھ حرمِ کعبہ میں نماز پڑھنے اور طواف کرنے آگیا۔ مکہ میں رہنے کی ایک یہ بڑی سعادت ہے کہ بندہ وقتاً فوقتاً کعبہ میں حاضری دیتا رہتا ہے۔حرمِ مکّہ کی نماز ، مطاف ( طواف کی جگہ) کے بیچ اللہ کے در پر کھڑے ا س کے بندے اور امام کعبہ کی بہترین قرات میں تلاوت ۔۔ وہ کیفیت ہے جس کو الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے۔

عشاء کی تیسری رکعات میں امام کے اللہ اکبر کی آواز پر سب مسلمان اللہ کے حضور سجدہ ریز ۔۔۔۔۔۔

سبحان ربی العلی
سبحان ربی العلی

“کسی مہرباااان نے آ کے، میری زندگی سنوار دی،
ہو کسی مہربان نے آ کے، میری زندگی سنوار دی ،
میری دھڑکنوں نے ۔۔

پچھلی صف سے آتی تیز گونجتی انڈین گانے کی نسوانی آواز نے مجھے سحر سے نکال باہر کیا۔

کسی صاحب کے موبائل کی انڈین گانے کی فل آواز میں لگی ٹون مطافِ کعبہ میں گونج رہی تھی اور لوگ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے انڈین گانا بمعۂ موسیقی سماعت فرما رہے تھے۔حالت یہ تھی کہ سجدہ میں کتنی دفعہ کیا پڑھا اور کون سی رکعت میں ہیں، غصہ کی لہر میں سب بھول گیا۔ موبائل والے بھائی نے بھی پتا نہیں کس تجوری میں موبائل رکھا ہوا تھا کہ بند ہی نہیں کر پا رہا تھا۔خیر اللہ اللہ کر کے اُس خدا کےبندے نے کال کاٹی، آخری رکعت کے لیے کھڑے ہوئے لیکن مجال ہے جو شودے لوگوں کو موبائل کا استعمال آتا ہو، کال کینسل ہونے  کے باوجود ایک منٹ کے اندر اندر دوسری کال، اور لڑکی کو پھر مہربان کے آنے کا خیال آگیا۔

ابھی دوسری دفعہ کال کاٹی ہی تھی اس شخص نے کہ پھر کال کرنے والے کو کیڑے نے کاٹا اور پھر مہربان ڈھول باجا لے کر حاضر ہو گیا۔نماز کون سی تھی اور رکعت کون سی تھی، یاد نہیں آرہا تھا، دل کیا نماز توڑ کر موبائل لے کر فرش پر دے ماروں۔ مگر جیسے تیسے نماز پوری کی۔سلام پھیرتے ہی غصے  کے گھونٹ پیتے ہوئے منہ پیچھےکر کے پوچھا، موبائل کس کا تھا، لوگوں نے بالکل میرے پیچھے بیٹھے شخص جو انڈین یا شاید بنگالی تھا، کی طرف اشارہ کیا۔

میرے کچھ بولنے سے پہلے ہی، کمال ڈھٹائی اور لاپرواہی سے بولا بند تو کر دیا نا۔ ۔۔۔ دل کیا موبائل توڑ کر کہوں، لو میں نے پکا بند کر دیا، اب نہیں بجے گا۔مگر حرم کی حرمت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اتنا ہی بول پایا: ” یا حرم کی عزت کرنا سیکھو یا موبائل استعمال کرنا”مگر آفرین ہے ان صاحب پر، مجال ہے جو آس پاس ہی کسی سے معذرت کی ہو۔ بات سنتے ہی، فوراً پاؤں سرپر رکھ کر باہر کو بھاگے۔

اس واقعہ میں غلطی موبائل سائیلنٹ کرنا بھولنے سے زیادہ اس ٹون کی ہے جو سیٹ کی گئی تھی، اور اس سے بھی  زیادہ اس ڈھٹائی کی ہے جو ان صاحب نے دکھائی۔ اگر آپ کو کوئی بھی گانا پسند ہے، جو مرضی آئے گناہ کیجیے، ہم بھی کون سے دودھ کے دھلے ہیں، مگر موبائل کے استعمال، ٹون سیٹ کرنے، اور کب سائلنٹ کرنا ہے، کال کرنے پر اگر کوئی کاٹ دے تو فوراً بغیر ایمرجنسی کے کال نہیں کرنی۔ یہ بنیادی باتیں ہیں، جس کے لیے کسی تربیت کی نہیں، تھوڑی سی عقل اور کامن سینس کی ضرورت ہوتی ہے، جو واقعی ان کامن ہے۔

اسی طرح کا واقعہ کچھ سال پہلے مسجدِ نبوی میں پیش آیا جدھر پنجاب سے آئے ہوئے ایک صاحب امامِ مسجد نبوی ﷺ سے قریب ہی نماز میں کھڑے ہوئے تھے اور دورانِ نماز نصیبو لال کی آواز میں بیہودہ گانے کی  رنگ ٹون    ان صاحب کے موبائل  پر  بجاٹھی۔ یاد رکھیے پیچھے کچھ فٹ کے فاصلے پر روضہ رسول ﷺموجود ہے۔۔۔۔

امام مسجد نبوی نے نماز توڑی، منبر پر چڑھے اور چھوٹی سی تقریر کرتے ہوئے جس طرح روئے، اور جو کہا، شرم دلانے اور کھانے کے لیے کافی تھا۔

مجھے سمجھ نہیں آتی آخر ہم نے موبائل کو بنا کیا لیا ہے؟ مجھے کبھی اتنا اعتراض نہیں رہا ان لوگوں پر جو زیادہ وقت حرم میں سیلفیاں لیتے رہتے ہیں، کہ شاید  زندگی کا پہلا موقع ہو، یادگار لمحے قید کرنا چاہتے ہوں، مگر ہر چیز کے استعمال کا طریقہ، اور اصول ہوتے ہیں۔ آپ ایک دن موبائل بند کر کے صرف عبادت کی نیت سے آئیے حرم، دیکھیے عبادت کی حلاوت محسوس ہوتی ہے یا نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موبائل کو استعمال کے طریقے سے استعمال کیجیے، دوسروں کی پرسنل لائف میں بے وقت میسج اور کال کر کے دخل اندازی سے پرہیز کیجیے، خصوصاً عبادت کے اوقات میں۔ دورانِ جماعت اگر غلطی سے موبائل سائلنٹ کرنا یا بند کرنا بھول بھی گئے ہیں اور کال آگئی ہے تو فوراً سے پہلے کال کاٹ کر مابائل سائلنٹ کیجیے یا بند کر دیجیے، غلطی آ پ کی ہے صیحح بھی آپ نے کرنی ہے، دوسروں کی عبادت خراب مت کیجیے اور خدارا، اللہ کے گھر کا احترام کرنا سیکھیے ایسا نا ہو ہمارے اعمال سلب کر لیے جائیں اور ہم فالتو میں جان ہلکان کیے جا رہے ہوں۔

Facebook Comments

عثمان گل
پیشے کے لحاظ سے اِنجینیئر۔ معاشرے میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لحاظ سے مثبت تبدیلی کا خواہاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply