جینئس۔کاشف محمود

بچپن کی نیندکیسی ظالم ہوتی ہے، ہم سب جانتے ہیں۔ لیٹنا چھوڑیں، ایک ذرا ٹیک ملی اور لمحوں میں جھٹ پٹ آنکھ لگ گئی۔ ذاتی تجربہ بتاتا ہے کہ اس کی وجہ ایک تھکا دینے والی روٹین ہوتی ہے۔ صبح سکول کے لیے سات بجے اٹھیں۔ تمام دن پڑھائی، کھیل اور بھاگ دوڑ کے بعد، گھر واپس آئیں۔ دوپہر کا کھانا کھا کر ٹیوشن پڑھنے کی باری آجاتی ہے ۔ شام سات بجے ٹیوشن سے فارغ ہو کر مسجد میں قاری صاحب سے پارہ پڑھیے۔ آٹھ بجے رات کا کھانا۔ تفریح کا کیا سوال؟ سمارٹ فون چھوڑیے، ٹی وی پر بھی ایک ہی چینل، یعنی پی ٹی وی۔ جہاں نو بجے کے خبرنامہ کے بعد ’فرمان الہی ‘ ہی میسر تھا۔ اور ہمارے لیے فرمان یہ تھا کہ سکول کا بستہ سمیٹ کے سونے کے لیے چلے جائیں۔

اس نیم فوجی روٹین کے بعد مزید ہل جل کی تاب بھی نہ ہوتی۔ تکیہ پر سر رکھتے ہی، تھکن اور بوریت سے پلکیں بوجھل اور خواب و خیال کی سرحد گڈ مڈ ہو جاتیں۔ گھر میں کسی دوسرے کمرے سے ٹی وی کا شور ڈسٹرب کرنا تو دور، محسوس تک نہ ہوتا۔پنکھے کی ہلکورے لیتی آواز غنودگی کے بادل اتارتی۔ سونا چھوڑیں، بے ہوشی سمجھیں۔ اب بچپن کی اس نیند کو کوئی نہیں روک سکتا تھا ۔ سوائے ایک جینئس کے بھاری لہجے میں بولے گئے ڈائیلاگ کی آواز کے، جسے سنتے ہی نیند رفو چکر۔

بیٹھک میں ہمارے کچھ کزن وی سی آر پر فلم دیکھ رہے ہیں اور اس جینئس کی آواز کوہِ ندا کی صدا ہے۔ اب فکر یہ ہے کہ کیسے ڈانٹ سے بچ کر یہ فلم دیکھی جائے۔وہ ہیرو کبھی گیارہ ملکوں کی پولیس کی پکڑسے دو ر ایکdon ہے، کبھی اپنے ’ددوُ‘ کا لاڈلا بیٹا ارجن سنگھ بن جاتا ہے، کہیں اندھیری راتوں کا شہنشاہ۔ October 11 اس فلم نگری کے جینئس, امیتابھ بچن کا جنم دن تھا۔

فلم ایک باقاعدہ مضمون ہے۔ بقول مستنصر حسین تارڑ، جیسے کوئی امیدوار نوکری کے انٹرویو کے دوران یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے چیف انجینیئر بھرتی کر لیں، مجھے بچپن سے چیف انجینیئربننے کا شوق ہے، اسی طرح اداکاری اور فلم کی تکنیک بھی باقاعدہ پڑھی اور سیکھی جاتی ہے۔ سو ہم اس فیلڈ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ بس معمولی شائق کے طور پر اتنا جانتے ہیں کہ ہمیں کیا پسند ہے۔ اور ہمارے پسندیدہ اداکار امیتابھ بچن ہیں۔

ان کے کمالات کا تکنیکی جائزہ ہمارے بس کا نہیں۔ لیکن کچھ سامنے کی باتیں بالکل no-brainier ہیں۔ حلیہ، جسامت، آواز اور ان سب سے بڑھ کر انکساری۔ وہ baritone آواز جس کی وجہ سے شروع میں رول ملنے میں مشکل ہوئی، بعد میں بہترین اثاثہ بنی۔ جامہ زیبی ایسی کہ کئی کرداروں, مثلاً شہنشاہ، کے گیٹ اپ iconic بن گئے۔ ذرا تصور کریں ، فلم طوفان میں بچن صاحب نے جو گیٹ اپ کیا، اسی ملبوس میں کوئی اور اداکار کیسا لگتا۔ اگر کارٹون نہیں، تو کم از کم کامیڈین ضرور بن جاتا۔ فلم شرابی میں ایک ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال کر رکھنے کا انداز سپر ہٹ ہوا، جس کی اصل وجہ دیوالی کے پٹاخوں سے زخمی ہاتھ تھا۔

ہمارے جینئس کو کامیڈی کا موقع ملا تو ارجن سنگھ جیسا کردار کیا۔ اس کی کرکٹ پر مزاحیہ انگریزی کمنٹری آج بھی لاجواب ہے۔ ایکشن سب کر لیتے ہیں لیکن angry   young   man  کا  title اس جینئس کو ہی ملا۔ ٹریجیڈی میں مقدر کا سکندر بادشاہ ثابت ہوئی۔Penguin نے انڈین سنیما پر کتاب چھاپی، A  century   of   Indian  cinema۔ سرورق کے لیے بچن صاحب سے زیادہ موزوں کون ہوگا؟۔ انکساری ایسی کہ پچھلی صدی کے بہترین اداکار کا ایوارڈ ملنے کے بعد، ایک سوال پوچھا گیا کہ آپ کی پذیرائی کا کیا راز ہے۔ سادہ سا  جواب ملا، ’میرے بھاگ!(قسمت)‘ ۔

مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں کہ کسی شخص کے پسندیدہ اداکاروں سے اس کی عمر کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ کلیہ امیتابھ بچن کے کیس میں غلط ثابت ہوتا ہے۔ جن فلم بینوں کو زنجیر اور آنند پسند آئی، ان کے بچوں کوجے اور ویروُ کی دوستی بھا گئی۔ پھر پندرہ سال قبل ٹیلی ویژن پر چلنے والے پروگرام ’کون بنے گا کروڑ پتی ‘نے millennial کو بھی charm کر لیا۔سو، بچپن کی ان بوریت بھری راتوں میں بھی یہی ہوتا۔ داستان گو اپنے سحرانگیز لہجے میں سماں باندھ دیتا۔چاہے انگریزوں کے زمانے کے جیلر سے شرارت ہو، یا امریش پوری کی درگت ، صبح کلاس میں نیند آنے کے ڈر پہ غالب آجاتی۔ ہم بھی چپ چاپ بستر چھوڑ، بیٹھک میں جا کر اپنے بھائیوں کے ساتھ پکچر دیکھنے لگتے۔ ہمارے بھائی ہم سے پوچھتے، کیوں صبح سکول نہیں جانا؟ پھر خود ہی خاموش ہو جاتے۔ شاید وہ بھی اسی جینئس کے فین ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

کاشف محمود
طالب علم ہونا باعث افتخار ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply