برما میں ہونے والے مظالم پر دنیا کی خاموشی

برما میں ہونے والے مظالم پر دنیا کی خاموشی
رابعہ احسن
ظلم کی کوئی کیٹیگری نہیں ہوتی خواہ یہ جسمانی ہو، ذہنی ہو، نفسیاتی، یا پهر عوامی ہو یا عالمی۔ آج ہم زندگی کے جس دور سے گزر رہے ہیں ہمیں ظلم کی ہر قسم کی مثال باآسانی اور وافر مقدار میں نظر آرہی ہے۔ ہم بذات خود ظلم کی کسی نہ کسی شکل سے دوچار بهی ہیں ۔ کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہے کہ زندگی جتنی آزاد خیال ہوتی جارہی ہے ظلم بهی اتنا ہی آزاد اور مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ ہم اپنی آنکهوں سے دیکھ رہے ہیں احتجاج کرنے کیلئے آزاد بهی ہیں اور اپنی طرف سے ہر ممکن احتجاج کر بهی رہے ہیں۔ آج سے چند دہائیاںپیچھے چلے جائیں تو ایسا نہیں تهااحتجاج مشکل تها مگر ایک چیز پہلے اور اب دونوں میں یکساں ہے ظلم کے خلاف بے تحاشا احتجاج کے باوجود بهی ظلم آج بهی انتہا پر ہے۔
بلکہ بعض مقامات پر تو انتہاں سے بهی آگے۔ اسرائیل کی بمباری سے لیکر آج حلب میں جو حالات ہیں، مسلمان دنیا میں ہر طرف مر رہے ہیں کہیں انهیں غیر مسلم مار رہے ہیں تو کہیں یہ خود ہی اپنے بہن بهائیوں کے جانی دشمن ہوگئے ہیں ۔ایران عراق کی جنگیں اس بات کا کهلا ثبوت ہیں اور جو ابهی حلب میں ہورہا ہے جو تمام مشرقوسطیٰ میں عرصئہ دراز سے ہوتا آیا ہے اور پتہ نہیں کب تک ہوتا رہے گا کوئی جنگی ماہرین، سیاسی تبصرہ نگار، پیشن گو اس بات کی خبر دینے سے قاصر ہیں کہ آخر یہ ظلم جو صدیوں سے چلا آرہا ہے اس کی انتہا کب ہوگی؟یہ جو جنگیں، بمباریاں، فائرنگ ، ماردهاڑ اور لوٹ کهسوٹ ہماری وراثتوں کے سنگ سنگ چل رہی ہے اس کا اختتام کیسے ہوگا۔ افغانستان تباہ ہوگیا۔ کویت کے لوگ دربدر ہوئے عراق کی خانہ جنگی کبهی ختم نہیں ہوتی ۔ اتنی عظیم الشان ریاست کی دهجیاں اڑگیئیں ۔اور کتنے افسوس کا مقام ہے کہ مسلم ممالک حتی; کہ ملکی گورنمنٹ نے ہی اپنے تسلط اور اقتدار کیلئے اپنے ہی لوگوں پہ موت مسلط کر دی اور ظلم کی اس انتہا پہ کوئی بهی کچھ نہیں کرپا رہا۔ الٹا حلب کو ہر طرف سے گرانے کیلئے بہت ساری قوتیں اکٹهی ہوگئیں جنهیں ہم ظلم کے اتحادی کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
عرصئہ دراز سے برما کے مسلمان گاجر مولیوں کی طرح کٹ رہے ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں ۔ ان پہ بم نہیں برسائے جاتے بلکہ ان کو چهریوں سے کاٹا جاتا ہے ان کو مارا جاتا ہے جسمانی تشدد، ذہنی تشدد، خواتین کی بے حرمتی اور بچوں پہ بہیمانہ ظلم۔ لیکن حیرت ہے کہ اتنے سالوں سے جاری اس ظلم پہ انسانی ہمدردی کی کوئی تنظیم کوئی ایکشن نہیں لیتی ۔کوئی برما کے مسلمانوں کی مدد کو نہیں پہنچتا جنهیں صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے گردن پہ چهری چلواکے حلال ہونا پڑتا ہے ۔ہمارے کئی ملا جو مسجدوں میں بیٹھ کر دن رات جنت پکی کرتے ہیں کچی زمینوں پہ پکنے والی اس دوزخ کے خلاف کوئی احتجاج نہیں کرتے۔ کوئی محمد بن قاسم کیوں پیدا نہیں ہوتا کیونکہ آج ہمیں جو دین سکهایا جارہا ہے وہ محض آخرت سنوارنے کیلئے ہے مگر دنیا کو سنوارے بغیر ہم اپنی آخرت کیسے سنوار سکتے ہیں ۔کسی کو کٹتا دیکھ کے لاحول ولا قوت پڑھ کے ہم کیسے گزر سکتے ہیں، ہمیں تو اللہ اکبرکہہ کے بے خطر آگ میں کود جانا چاہئیے، ہم بحیثیت انسان اتنے تعفن کو دیکھ کے سو کیسے جاتے ہیں۔ کیا ہم اسی نبی کی امت ہیں جو ساری ساری رات کهڑے ہو کر بارگاہ_الہٰی میں اپنی امت کی خیرخواہی کیلئے رورتے تهے۔ ہم کیا کر رہے ہیں ہم تو خیرکسی کهاتے میں ہی نہیں لیکن ہم میں سے ایک عظیم دنیا عشاء کی نماز پڑھ کے دودھ کاگلاس پی کر باقی کی سنتیں پوری کرکے سو جاتی ہے، میرا تو صرف ان سے یہ سوال ہے کہ کیا دین صرف عشاءکی نماز تک ہے یا اگر رات کو جاگ آئی بهی تو تہجد پڑھ لی اور باقی دنیا جائے بهاڑ میں ۔اس طرح کے نمازی پرہیزی تو سیدهے جنت میں جائیں گے۔
ہم درس و تدریس میں جنت خرید رہے ہیں لیکن ہم میں سے کوئی نہیں جو کسی کی زندگی میں پوری نہ سہی ادهوری جنت ہی ڈال دے،کہاں گئے وہ غازی وہ شہید جو جنگ بدر کیلئے نکلے تهے۔ کہاں گئے وہ دین کے غزوات؟ اور اب تو یہ حالات ہیں کہ ہم ڈرتے ہیں کہ جنگ سے متاثرہ افراد کیلئے بول کے کہیں ہم بهی دہشت گردی کے زمرے میں ہی نہ آجائیں۔
برما میں کتنے سالوں سے ریاستی دہشت گردی انسانیت کے سب سے نچلے درجے سے بهی نیچے گری ہوئی ہے تو کوئی ان بدھ متوں کو دہشت گرد کیوں قرار نہیں دیتا۔ ابهی حال ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں میانمر پولیس روہینگا کے دیہاتیوں پر ظلم ڈهاتی ہوئی دکهائی گئی ہے۔ جس میں آٹھ سال سے بڑی عمر کے بچوں، بزرگوں اور نہتے لوگوں کو پولیس نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ جو کہ اس احتجاج کی سزا ہے جو لوگوں نے اس وقت کیا جب اقوام متحدہ کی ٹیم ریاست راکهین میں دورے پر آئی ہوئی تهی ۔
جیسے ہی اقوام متحدہ کے افسران ریاست سے باہر نکلے میانمر کی فوج نے مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ جبکہ ان کے لیڈر آنگ سان سو کی کے آفس نے اس بات کی تردید کردی کہ یہ ویڈیو میں دکهایا جانے والا تشدد عام شہریوں پر نہیں بلکہ کچھ مشتعل گروپوں پر کیا گیا ،لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے دیہاتیوں کو احتجاج کرنے پر ہی یرغمال بناکر ان پر تشدد کیا گیا جس بهی قسم کے لوگ تهے وہ آٹھ سال کے بچوں کو حراست میں لینا یا انهیں قوانین سکهانا دنیا کے کس آئین میں لکها ہواہے؟آٹھ سال کے بچے ہوتے ہی کیا ہیں جو کمرے میں اکیلے سو بهی نہیں سکتے ان کو گورنمنٹ یرغمال بناتی ہے۔ تف ہے ایسی گورنمنٹ پہ اور پوری عالمی برادری پہ جو اس ظلم پر خاموش ہیں ۔ ظلم کی یہ داستاں اپنے تمام تر شواہد کے ساتھ کے سوشل میڈیا اور کئی ویب سائٹس پر موجود ہے مگر کیا ہوا اقوام متحدہ سے بهی حقائق چهپا لئے گئے۔
کتنے ہی سالوں سے جاری ظلم کی یہ اندهی چکی رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ اقوام متحدہ کو اپنے پراجیکٹس پہ اور باقاعدگی سے کام کرنا ہوگا اور ظالم ملکوں کے خلاف قوانین مرتب کرنے ہوں گے ۔حکومتوں کو جرمانہ کیا جائے اور تمام ممالک اس بات پر اگر اتفاق سے جم جائیں تو دنیا کے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔مسئلہ کشمیر حل ہوسکتا ہے مسئلہ فلسطین حل ہوسکتا ہے، شاید پاکستان کے مسائل بهی حل ہوسکیں ۔ آج کل ہم تمام بنیادی ضروریات سے متعلقہ مسائل سے ہٹ کر محض پانامہ کی دستاویز میںالجھ کر رہ گئے ہیں ہماری حکومت کرپٹ ہے ،ہم سب جانتے ہیں مگر ہم بے بس ہیں، بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو مضبوط ہونا ہوگا ظلم کی کسی بهی قسم کو بحیثیت ظلم ہی حل کرنا ہوگا اس میں کسی بهی قسم کے ریاستی یا سیاسی مفادات سے ہٹ کر کام کرنا ہوگا مگر سیاست تو ویسے بهی اب بچے ہی کهیلیں گے۔ حالیہ کینیڈا میں ایم پی پی کے انتخابات کیلئے ابهرنے والے انیس سالہ نوجوان اور بلاول بهٹو کو دیکھ کر لگتا ہے اب سیاست محض کهیل ہے، بچے بچے اٹھ کر کهیلیں گے۔ کسی کی ساری عمر لگ جاتی ہے ایک مسئلے کو سدهارنے میں اور کوئی اچانک ہی کہیں سے آکهڑا ہوتا ہے
رہ گیا ظلم تو بدقسمتی سے وہ ہمیں وراثتوں کے سنگ سنگ ملا ہے، ہم اسے روزمرہ کے کهانے پینے کی طرح ہضم کرتے جارہے ہیں ہم دنیا کی تکلیفوں پہ لعنت بهیج کر مصلے پہ بیٹهے مسلمان اسی اڑن طشتری میں جنت کو پرواز کرجائیں گے۔ ہماری آنکهوں کے سامنے ظلم ہوتا ہے، مگر اپنی پوزیشن آکورڈ ہونے کے ڈر سے ہم نظریں پهیر لیتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر کو تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ نفسانفسی اور ماردهاڑ کی اس کبهی نہ ختم ہونے والی داستاں کو سدهارنے کیلئے انسانوں کو آگے بڑهنا ہے، ہم باغی نہیں ہوسکتے۔
پهر سوسائٹی میں موو کیسے کریں گے، لوگ ہمیں دیکھ کر ہنسیں گے، ہم ظلم سہتے ہیں صرف لوگوں کی ہنسی سےبچنے کیلئے ہم اپنے تکئے آنسووں سے بهگونے والے لوگ دوسروں کی کیا مدد کریں گے۔ اللہ برما کے حالات پر کرم کرے۔ ہم اجتماعی دعا کا انتظام تو کرسکتے ہیں۔ آرام سے بیٹھ کر ٹینٹ میں ساری رات پورے محلے کو سپیکر پہ رو رو کر سنائیں گے اور اس افتاد اور ہماری آہ و بکا پہ جب سارا محلہ دل کهول کے روئے گا تو اللہ ہماری دعا کیسے نہیں سنے گا ۔

Facebook Comments

رابعہ احسن
لکھے بنارہا نہیں جاتا سو لکھتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply