محترم تنویر عالم صاحب نے مکالمہ شروع کیا کہ اسلام کو مولوی سے بچاؤ.
حضور بجا فرمایا ہم آپ کے ساتھ ہیں لیکن اسلام کو اس وقت خطرہ اپنوں سے ہے بیگانوں سے نہیں۔
ہم کچھ دیر کیلیے مولوی کو اک پیشہ سمجھ لیتے ہیں باقی پیشوں کی طرح
ڈاکٹرز کو لیجیے !
میری اپنی زندگی میں اور قارئین کے علم میں بھی ہوگا کہ بیشتر اوقات ڈاکٹرز لوگ بھی ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیتے ہیں کہ بندہ حیران ہو جاتا ہے کہ ڈاکٹری میں انہوں نے سیکھا کیا؟
استاد کو لیجیے!
معاشرے کا سب سے قابل قدر اور جسکو قوم کا معمار کہا جاتا پیشہ لیکن افسوس کہ پروفیسرز اور وائس چانسلر لیول کے لوگوں کے کارناموں پر انسانیت کو بھی افسوس ہوتا ہے۔
انجئنیئرنگ آج کل کا مشہور پیشہ
لیکن ان کے پراجیکٹ سائٹس پر کیے گئے فیصلے بعض دفعہ جان لیوا بھی ثابت ہوئے ہیں۔
لیکن حیرت اس وقت ہوتی جب اک ہی پیشے کو اتنا رگڑا جاتا کہ چلغوزے کی تہہ سے دھوتی کہ گرہ تک کھول دی جاتی ہے۔
حضور اب آئیں حقائق کی طرف
پاکستان میں بہت کم ایسے مدارس ہونگے جہاں معمولی فیس لی جاتی ہو جبکہ اکثر عطیات سے چلتے ہیں لیکن کالجز اور یونیورسٹیز میں جہاں بھاری بھر کم فیس کے بعد جب ایوارڈ یافتہ نائلہ رند پنکھے سے لٹکی نظر آئی تو کیوں نہ کہا کہ تعلیم کو ایسی یونیورسٹی سے بچاؤ۔
قصور سے پڑھے لکھے ووٹوں سے بنا ایم این اے جب اڑھائی سو سے زائد زیادتی ویڈیو کیس میں سامنے آیا تو کیوں نہ آواز لگی کہ ووٹرز کو ایسے چوکیدار سے بچاؤ
عالی مآب جناب جج صاحب کے گھر سے زخموں سے داغی بچی برآمد ہوئی کیوں نہ کالم کا عنوان ہوا کہ عدلیہ کو درندوں سے بچاؤ؟
جناب عالی عرض کروں تو شکایت ہوگی لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم نے کبھی کوئی زرخیز ذہن اسلام کو دیا ہی نہیں، جب آپ یا میرے گھر کا وہ بچہ جو او لیول A گریڈ میں کامیاب کرنے کہ بعد دارلعلوم کراچی جیسی عظیم درسگاہ کا حصہ بنے گا تو نہ اب جیسے مولوی رہیں گے اور نہ دوبارہ ایسے واقعات ہونگے
مولوی کو کچھ دیجیے یقین مانیں دوبارہ ایسے مکالمے کی ضدورت پیش نہیں آئے گی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں