کرونا وائرس اور مسلمان۔۔عدیل احمد

جیسا کہ آ ج کل کرونا نامی وائرس نے پوری دنیا پر حملہ کیا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں اموات  واقع ہو چکی ہیں۔ پوری دنیا کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ جہاں ایک طرف پوری دنیا اس کا علاج دریافت کرنے کی طرف لگی ہوئی ہے، وہاں دوسری طرف ہم مسلمان اسے کفار کی سازش اور ان پر اللہ کی طرف سے آنے والا عذاب قرار دے رہے ہیں۔

کرونا وائرس جب تک چین میں تھا تب تک یہ اللہ کا عذاب تھا اور جب یہ پاکستان میں آیا تو اس نے اللہ کی آزمائش کی شکل اختیار کر لی۔ ہمارے ہاں مذہبی طبقے کو ایک دوسرے پر تنقید کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے۔ جو کام ہمارے مذہبی طبقے کو اچھا نہیں لگے گا وہ کام اس ملک میں نہیں ہو گا۔آج کل مذہبی طبقے نے سعودی حکومت کو نشانہ بنایا ہوا ہے جس نے طواف کعبہ اور مساجد میں آنے پر پابندی لگا دی ہے۔ ہم مسلمان تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر کعبہ کا طواف رک گیا تو دنیا ہی مٹ جائے گی۔ ایسے بیان دینے سے پہلے ہمیں یہ باتیں بھی سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح خانہ کعبہ کا طواف دین کا حصہ ہے اسی طرح جان کی حفاظت بھی دین کا حصہ ہے۔ اگر ہماری جان ہی نہیں رہے گی تو پھر ہمارا دین کس کام آئے گا۔ حدیث مبارکہ  کا  ترجمہ ہے :
اگر تمہاری وجہ سے کسی دوسرے مسلمان کو اذیت پہنچے تو تم مسجد میں نہ آؤ۔

اس اذیت کی وجہ پیاز اور لہسن کھانے کے بعد آنے والی بدبو تھی۔ اگر اس وائرس کے مقابلے میں دیکھا جائے تو بدبو ایک معمولی سی چیز ہے۔ مگر ہم لوگ ہمیشہ ہر معاملے میں مذہب کو لے آتے ہیں۔ ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ  کریم پوری دنیا کی حفاظت فرما، مگر ہم اس معاملے میں بھی اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ  اگر ہم دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتے بھی ہیں  ،تو وہ دعا صرف مسلمانوں کے لیے ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اس وبا سے بچ جائیں تو ہمیں اللہ سے مدد مانگنے کے ساتھ ساتھ خود بھی اس سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر کرنی ہو ں گی۔ ہمیں اپنی عقل کو برؤے کار لاتے ہوئے اس کا حل نکالنا ہو گا۔ کیونکہ خدا بھی اس قوم کی مدد نہیں کرتا جو اپنی مدد آپ نہیں کرتی۔ ہمیں سخت اقدام اٹھانا پڑےیں  گے، ورنہ   بعد میں ہمارے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ بھی نہیں بچے گا۔

Facebook Comments

Adeel Ahmed 11
حق کی تلاش میں نکلا مسافر، سچ بات کہنے سے ناڈرنے والا،،، حق کے لیے آواز اٹھانے والا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply