• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اراکین پارلیمان کی سرگرمیوں بارے آئی بی کا مبینہ خط۔۔۔طاہر یاسین طاہر

اراکین پارلیمان کی سرگرمیوں بارے آئی بی کا مبینہ خط۔۔۔طاہر یاسین طاہر

خط میں لکھے ہوئے رنجش کے پیام آتے ہیں
کس قیامت کے یہ نامے میرے نام آتے ہیں
استاد داغ دہلوی نے یہ شعر کسی اور فضا اور سیا ق و سباق یا حالات میں کہا ہو گا۔ اور یقیناً انھیں کسی حکومتی خفیہ ایجنسی سے قطعی کوئی شکایت نہ رہی ہو گی۔نہ ہی صاحبان اقتدار کو ان کی سرگرمیوں پر کسی قسم کا ابہام یا تشویش ہوئی ہو گی۔وہ ایک وہبی شاعر تھے اور کمال کے اشعار کہے انھوں نے۔موضوع مگر استاد داغ دہلوی نہیں۔بس ان کے شعر کے سہارے کالم کی لمبائی پوری کرنی ہے۔ریاستی انتظام میں خفیہ اداروں،اور ان کی رپورٹس کا بڑا کردار ہوتا ہے۔دراصل یہ وہ ادارے ہوتے ہیں جو ملک کو داخلی و خارجی نقصانات سے محفوظ رکھتے ہیں یا پیش آمدہ داخلی و خارجی نقصانات سے آگاہ کر کے ریاستی اداروں کو پیش بندی کرنے کا پابند بناتے ہیں۔خارجی نقصانات کو قارئین اپنے اپنے فہم و ذوق کے مطابق لفظ “خارجی “کے تاریخی مفہوم و تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
چند دن قبل ایک نجی چینل پر یہ رپورٹ نشر ہوئی کہ 37 ممبران پارلیمان کے دہشت گردوں سے روابط و تعلقات ہیں۔ اس لسٹ میں نہ صرف حکمران جماعت کے ممبران پارلیمان شامل ہیں، بلکہ چند وزرا کے نام بھی اس مبینہ فہرست ،جسے خط بھی کہا جا رہا ہے، میں شامل ہیں۔جونہی آئی بی کا یہ خط،یا لسٹ، نشریات کا حصہ بنی تو میرے ذہن میں فوراً میاں افتخار حسین کی وہ پریس کانفرنس آ گئی جب انھوں نے خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر اطلاعات کی حیثیت سے کہا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان اپنے حمایتیوں کو پارلیمینٹ میں لانا چاہتی ہے۔آئی بی کا اراکین پارلیمان کے بارے مبینہ خط،اور اس کی اصلیت کیا ہے؟ اس بارے ایک کمیٹی تو بنا دی گئی ہے۔ لیکن یہ مبینہ خط اپنے ساتھ کئی سوالات لایا ہے جن کے جوابات یقیناً تلاش کیے جانے ضروری ہیں۔ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ میڈیا پہ کسی سیاستدان یا وزیر کے بارے آیا ہو کہ ا س کے کالعدم تنظیموں یا دہشت گردوں سے تعلقات ہیں، یا وہ ان تنظیموں کا پشت بان ہے۔ہاں مگر ایک حکومتی خفیہ ادارے کی طرف سے ایسا غالباً پہلی بار ہوا  کہ3 درجن سے زائد ممبران پارلیمان کی ایک لسٹ خط کی شکل میں وزیر اعظم ہائوس کو روانہ کی گئی۔
ظاہر ہے اس خط سے حکومتی اراکین اور ان سیاستدانوں کی سبکی ہوئی جن کے نام مبینہ خط میں شامل ہیں، ابھی تک یہ واضح تو نہ ہو سکا کہ کون کون سے ممبر پارلیمنٹ کے کون کون سی کالعدم تنظیم یا دہشت گرد گروہ سے تعلقات ہیں؟ اور ان تعلقات کی نوعیت نام نہاد اسلامی نطام کا نفاذ ہے یا کوئی اور سیاسی وجوھات؟مگر قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے آئی بی کی جانب سے مبینہ طور پر جاری ہونے والی فہرست پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔اس کے بعد وفاقی وزیر اجلاس سے واک آؤٹ کرگئے جبکہ نون لیگ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 15 ارکانِ اسمبلی نے بھی ان کے ساتھ واک آؤٹ کیا۔ ارکان پارلیمنٹ کے کالعدم تنظیموں سے روابط سے متعلق مبینہ خط کے معاملے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق، وزیر قانون زاہد حامد اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل نے اہم ملاقات بھی کی۔وزیر اعظم سے ملاقات میں متاثرہ ارکان پارلیمنٹ نے بھی شرکت کی۔ملاقات کے دوران ڈی جی آئی بی نے وزیر اعظم کو مبینہ خط پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ سے متعلق منظر عام پر آنے والے خط کا آئی بی سے کوئی تعلق نہیں۔
متاثرہ اراکین پارلیمنٹ نے وزیر اعظم سے مبینہ خط پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ انتہائی حساس ہے اور مخالفین اس خط کی بنیاد پر ہمارے خلاف سازشیں کرسکتے ہیں۔ اس خط کی بنیاد پر الیکشن کمیشن میں ہمارے خلاف درخواستیں دائر ہوں گی، ہمیں جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے، جبکہ کل کہا جائے گا ہم آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا نہیں اترتے۔ ارکان پارلیمنٹ نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے الیکشن کمیشن، وزارت خارجہ اور داخلہ کو خط لکھنے اور ان سے تحریری طور پر وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا۔ارکان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ حکومت الیکشن کمیشن، وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ پر واضح کرے کہ خط جعلی ہے۔اراکین پارلیمنٹ نے کہا کہ ہم اس معاملے کو آگے نہیں لے جانا چاہتے، اس خط سے بس ہماری جان چھڑوائی جائے۔ اس مبینہ فہرست میں 7 وزرا کے نام بھی شامل ہیں جن پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔چند دن قبل ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں اس حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آئی بی کو رواں سال 10 جولائی کو چند اراکین اسمبلی پر نظر رکھنے کی ہدایت کی تھی، جن میں اکثریت حکمراں جماعت مسلم لیگ نون سے تعلق رکھتی تھی۔آئی بی نے اس دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے وضاحت کی تھی کہ وزیراعظم ہاؤس سے ایسی کوئی فہرست نہیں بھجوائی گئی تھی۔مبینہ فہرست میں وزیر قانون زاہد حامد، ریاض حسین پیرزادہ، بلیغ الرحمٰن، سکندر بوسن اور حافظ عبدالکریم جیسے اہم وزرا کےعلاوہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی اور طاقتور سینیٹرزکے نام شامل تھے۔
اس مبینہ فہرست میں کس حد تک صداقت ہے؟اور کیوں وہ اراکین پارلیمان اس معاملے کو تحقیق تک نہیں لے جانا چاہتے؟بلکہ ان کی توجہ اور کوشش اس پہ ہے کہ کسی طرح ان کی اس خط سے جان چھوٹے اور حکومت ایک سرکاری لیٹر کے ذریعے متعلقہ اداروں سے اس خط کو جعلی قرار دلوائے۔یہ اس سارے معاملے کا میری نظر میں توجہ طلب پہلو ہے۔میں نہیں کہتا کہ مبینہ خط میں درج نام دہشت گردوں کے پشت بان ہیں، مگر اس مبینہ لسٹ کو جاری کرنے کا الزام نہ تو کسی پرائیویٹ ایجنسی پر ہے،نہ ہی کسی دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی پر،اور نہ ہی کسی غیر ملکی این جی او پر۔اگرچہ آئی بی اس حوالے سے اپنا موقف دے رہی ہے اور ڈی جی آئی بی نے وزیر اعظم کو وضاحت بھی دی کہ یہ مبینہ فہرست آئی بی کی جاری کردہ نہیں۔ تو پھر ذرا آئی بی والے اس مبینہ خط کو میڈیا پر لانےا ور اسے آئی بی کے کھاتے میں ڈالنے والوں کے چہروں کی نقاب کشائی توکر دے۔معاملہ اس قدر نازک اور سیاسی الجھنیں لیے ہوئے ہے کہ ہر کھلتی گرہ، نئی گرہ کا بندوبست کرتی چلی جا رہی ہے۔ ورنہ کون کس کس کالعدم تنظیم کا پشت بان اور کس کس کالعدم گروہ کا ویوانہ وار شیدائی ہے، سب آشکار ہے۔یہی اس کالم کا نتیجہ بھی تصور کیا جائے۔

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply