گوادر کو گوادر ہی رہنے دو

گوادر کو گوادر ہی رہنے دو

بات پرانی ہے جب اچانک پورے ملک کو گوادر ہو گیا تھا۔ جنرل مشرف کا دور تھا اور یوں لگا جیسے گوادر میں تیل نکل آیا ہو۔ جیسے کبھی لالچی گورے کیلیفورنیا کو بھاگے تھے، اس بار دیسی لالچی باقی صوبوں سے گوادر کو بھاگے۔ مجھے یاد ہے کہ میرے ایک دوست نے آٹھ مربعے زرعی زمین بیچ کر گوادر اور گرد و نواح میں بے بہا زمین خرید لی۔ میں نے کہا ملک جی، پاگل ہو گئے ہو؟ وہاں زمین چار چار جگہ بک رہی ہے، قبضوں کا خطرہ الگ اور تو نے زرعی مربعے بیچ دئیے۔ ملک نے میری سادگی(جو یقینا اسے بے وقوفی ہی لگی ہو گی) پر میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولا، "او بھولے رانے، تجھے پتہ ہی نہیں گوادر کیا ہے۔ ایک دور آنا ہے کہ اس میں سے دس ایکڑ بھی مجھے مل گیا تو میری نسلیں سنور جائیں گی۔" شاید ملک درست تھا۔

گوادر اب انٹرنیشنل پورٹ بن رھا ہے۔ سی پیک کا حصہ۔ اب ایئرپورٹ پہ دنیا بھر سے جہاز آئیں گے۔ زمینیں اربوں کی ہو جائیں گی، کاروبار ہوں گے، پیسہ پیسہ ہو جائے گا۔ مگر کچھ جاھل لوگ اس ترقی کا رستہ روکنے کو کھڑے ہیں۔ ہمارے ایک دوست نے تو انکو پوچھا ہے کہ گوادر کو دبئی اور کراچی بنانا ہے یا پسماندہ ہی رکھنا ہے۔ میرے پنجابی دوست کو اپنے بلوچ بھائیوں کی بہت فکر ہے۔

مگر یارو، ان بلوچوں سے نا سہی، فقط گوادر والوں سے ہی پوچھ لو کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ ہاں زمینیں اربوں کی ہو جائیں گی، مگر بلوچ کی نہیں بلکہ ان پنجابیوں اور کراچی کے سیٹھوں کی جو عرصہ ہوا یہ زمینیں ہتھیا چکے۔ ان افسروں کی جنکو وہاں مربعے الاٹ ہو چکے۔ ہاں کاروبار ہو گا، جہاز اتریں گے، مگر گوادر والے فقط قلی اور ملازم ہوں گے۔ آپ کراچی کی مثال دیتے ہیں۔ پھر گوادر میں کراچی کے سے مسائل سے پہلو تہی کیوں؟ ویسے سنئیے، مائی کلاچی کی مچھیرا بستی کے اصل مکین اب کہاں ہیں؟ کراچی ترقی یافتہ بن چکا مگر ثمرات کس نے سمیٹے؟ ان مچھیروں کی اولاد تو آج بھی مچھیرا ہی ہے۔

ہمارے دوستوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ نیو کانز کے بنائے تصورات، گلوبلائزیشن، فری مارکیٹ اور "ترقی" جیسی اصطلاحات گوادر کے غریب کو فقط غریب ہی رکھیں گی، ثمر فقط وہ سمیٹیں گے جو باقی کے ملک میں سمیٹ رہے ہیں۔

ویسے زرا سن گن لیجیے، گوادر میں پانی کی شدید قلت ہو گئی ہے۔ ٹرالر مافیا نے مقامی مچھیروں کی زندگی اسقدر عذاب بنا دی ہے کہ اب وہ دھرنے دے رہے ہیں۔ پورٹ بنائیے، مگر مقامی آبادی کے تحفظات بھی دور کیجیے، انکے خدشات بھی سنئیے۔ ورنہ ترقی کے نام پر جو کانٹا ڈالا ہے، شاید مچھلی اسکے سمیت شکاری کو سمندر میں گھسیٹ لے۔

چلتے چلتے ایک غریب مچھیرے سے ایک "شبھ چنتک" کا مکالمہ سنتے جائیے۔ شبھ چنتک نے مچھیرے سے کہا کہ مجھے تیری فکر ہوتی ہے، یہ کانٹا ڈالنا چھوڑ اور جال خرید کہ زیادہ مچھلی آئے۔مچھیرے نے پوچھا کہ پھر کیا ہو گا؟ شبھ چنتک بولا کہ فری مارکیٹ میں بیچنا، پھر خوشحالی آئے گی، ٹرالر خریدنا، اور زیادہ مچھلی پکڑنا، سو اک دن تو بہت امیر ہو جائے گا، گاڑی بنگلہ ہو گا، دولت کی ریل پیک ہو گی۔ مچھیرے نے کہا پھر کیا ہو گا؟ شبھ چنتک بولا پھر تیرے نوکر تیرے لئیے کام کریں گے، جو چاہے گا خریدے گا، ریٹائر ہو کر سمندر کے کنارے لیٹ کر آرام سے مچھلی کا شکار کرنا۔ مچھیرے نے مسکراتے ہوے کہا، تو اب کیا کر رہا ہوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

گوادر والے اپنی مچھلی پکڑ رہے ہیں، شبھ چنتک گوادر کو گوادر ہی رہنے دیں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply