ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک صاحب علم و فکر کی نظر ایک چلغوزے پہ پڑی تو موصوف کی عقل و دانش کا نقطۂ محور چلغوزہ ایسا بنا کہ توبہ ہی بھلی۔ آخر کار موصوف کا عمر بھر کا تجربہ اور غور و فکر رنگ لائے اور انہوں نے ایک نئی تھیوری کی بنیاد ڈالی اور وہ ہے چلغوزہ تھیوری ۔ تازہ بہ تازہ سوشل میڈیا پہ پیش کردہ داستانِ چلغوزہ۔ اگر تو آپ سوشل میڈیا پہ پائے جاتے ہیں تو موضوعِ سخن کون ہے آپ جان ہی گئے ہونگے کہ آج پاپا کی پرنسز سے لے کر حافظ و ناصر اور چاند کا ٹکڑا سے لے کر مون خان کے فیس بک پہ ایک ہی تذکرہ ہے، چلغوزے کا؟
موضوعِ گفتگو قبلہ نے تو زمانۂ جدید و قدیم سب کو مات دے دی ہے اپنی چلغوزہ تھیوری سے۔ سارا پاکستان انگشتِ بدنداں ہے اور باقی عالم بھی جلد ہی حیرت کے سمندر میں ڈوبنے کو ہے۔
ایک وہ نالائق تھا نیوٹن،جس کے سر پہ سیب آگرا تو کم عقل نے بجائے اس سیب کے گرنے کی توجیہہ صنفِ نازک سے جوڑنے کے، زمین کی کشش ثقل سے جوڑ دی۔ یہ سائنسدان ہوتے ہی کند ذہن ہیں، اسی لیے ایک خاص مکتبۂ فکر والے سائنسدانوں کے بڑے خلاف ہیں کہ کون اپنی نئی نسلوں کو اس غلط کام میں لگائے، جب وہ بغیر سائنس پڑھے ہی چلغوزہ تھیوری جیسا عظیم کارنامہ انجام دے سکتے ہیں۔
اللہ سلامت رکھے موصوف کے استادوں اور اس ادارے کو جہاں سے وہ فارغ التحصیل ہوئے ۔ آج اُن کے استادِ محترم عَش عَش کر اٹھے ہونگے کہ کیا لعل و گوہر تیار کیا ہے اس زمانے میں۔ انہیں چاہئیے کہ موصوف کا نام اس جلیل القدر کارنامے کے لیے نوبل پرائز کمیٹی کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ مروجہ سائنسی ریسرچ و ایجادات کے ضمن میں اگلا ایوارڈ موصوف کو ہی دے سکیں۔
ویسے تو بچپن سے یہی سنتے آئے تھے کہ چلغوزہ ہوتا ہے لیکن کیا کیجئیے جناب کہ کچھ ذہنوں میں"وجودِ زن" سے صرف اس کائنات کے رنگ ہی نہیں روشن بلکہ ان کے اپنے صبح و شام کے تصور اور تفکر کا محور بھی یہی وجودِ زن ہے۔ اب چشم تصور میں لائیے کہ ان موصوف کی نظر پڑی چلغوزے پر، تو جناب نے چلغوزے کھانے کا ارادہ کیا۔ ایک خراب چلغوزہ ہاتھ آیا تو کچھ اور پہ عنایت کی۔ کچھ دیر بعد ایک اور پہ تبدیلی رنگ سے خرابی کا شبہ ہوا، آخرکار چند چلغوزوں کے بعد ایک چلغوزہ جاکر اس قابل نکلا کہ کھایا جاسکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حضرت سیدھا سیدھا چلغوزہ کھا کہ الحمداللہ کہتے لیکن وہ ٹھہرے عاقل و مفکر۔ شاید ایسا ہی اتفاق اکثر کو چلغوزے کھاتے وقت ہوچکا ہو لیکن باقی کم عقلوں کو کہاں اتنی عقل کہ ان چلغوزوں کی حالت و ذائقے کو وجودِ زن کے پردے اور حجاب سے مربوط کرسکیں۔یہ خاص ہنر صرف خدا نے اپنے منتخب بندوں کو دیا ہے، ہم عام گناہگاروں کو نہیں اس لئے ہم نے آج تک چلغوزے کو چلغوزہ ہی سمجھا، اس میں رکھے قدرت کے اشاروں کو نہیں۔
صاحب فکر نے اپنی رائے کو صائب جانتے ہوئے جیسے ہی لوگوں کو اس سے آگہی دی، پوری فیس بک چلغوزہ چلغوزہ ہوتی دکھائی دی۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے تو مارک زکربرگ نے بھی آج چلغوزہ کی انگلش ڈھونڈنے کی کوشش ضرور کی ہوگی تاکہ سمجھ سکے کہ پاکستان کا ہاٹ ٹاپک شاد کے سوٹ کے بعد کیا ہے۔مفکر اعظم نے بڑے غورو فکر کے بعد جو چلغوزہ تھیوری پیش کی ہے، اس کی رو سے باپردہ عورت کی مثال اچھے چلغوزے کی اور بے پردہ عورت کی مثال خراب چلغوزے کی سی ہے اور اگر درمیانی رہ گزر پہ ہے تو بھی اچھائی کی طرف نہیں بلکہ خرابی کا باعث یعنی بد ذائقہ چلغوزے جیسا یا جیسی ہی ہوگا۔ ان کی اس مثال سے ہر صاحب علم کو بلا صنفی امتیاز تکلیف پہنچی ہوگی لیکن ایک عورت ہونے کی حیثیت سے میری ذہنی اذیت اور دل آزاری دوگنی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ہمارے دین کی تبلیغ اور فتاوٰی دینے والے ایسے لوگ ہیں جو عورت کو ابھی تک ایک انسان کا درجہ دینے کو تیار نہیں۔ ان کے لیے کل بھی عورت ایک جنس یا شے سے زیادہ نہ تھی اور آج اکیسویں صدی بھی ان کی سوچ پر اثر انداز ہونے سے قاصر ہے۔
اب اس تھیوری پہ کچھ دیسی لبرلز اور تجزیہ کار اُٹھائیں گے دُشنام طرازی کے پتھر اور کردیں گے ساری مولوی برادری کی ایسی دھلائی کہ پھر من و تو کا فرق مشکل ہو جائے گا۔لیکن ایک دوسری صورت بھی ہے کہ آپ ان مفکر اعظم سے ان سوالوں کے منطقی جواب طلب کریں اور عورتوں کی اس توہین اور دل آزاری کے لئے اسی طرح معافی کا مطالبہ کریں جس طرح ان کے مکتبۂ فکر کی روایت رہی ہے۔
جنابِ والا سے عرض ہے کہ: جناب من اس دنیا کی تکمیل میں جتنا آپ کا حصہ ہے اتنا ہی عورت کا تو آپ کو کس نے یہ حق دیا کہ ایک انسان یعنی اشرف الخلوقات کو ایک انتہائی ادنی ٰسی چیز سے تشبیہ اور مثال دے کےسمجھائیں؟ آپ الزامات دیتے ہیں جدید دنیا کو، مغرب کو اور اس میں بسنے والی عورت کو کہ مغرب نے عورت کو ایک نمائش کا ذریعہ بنالیا ہے۔ چلیں آپ کی بات مان بھی لی جائے تو آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مغرب نے عورت کو انسان ہونےکے حقوق سے ہی نہیں نوازا بلکہ عورت ہونے کےرائٹس بھی دئیے ہیں۔ اُن ممالک میں آپ عورت کو ایک فوڈ پروڈکٹ سے تشبیہہ دے کر تو دیکھیں قانون کیسے آپ کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔
یہ اسی مملکتِ خداداد کی عنایت ہے کہ آپ کھلے بندوں ایک انسان کو اور عورت کو کھانے کی چیز سے تشبیہہ دینے کی جرات کرتے ہیں۔ یہ وہی عورت ہے جس کے لیے رسول پاک احتراماً کھڑے ہوجایا کرتے تھے اور یہ وہی عورت ہے کہ ایک ماں کے روپ میں جس کے قدموں تلے رب نے ہر مرد کی جنت رکھ دی ہے۔
لیکن اگر آپ اب بھی اپنی بات پہ بضد ہیں تو یہ بتائیے کہ آپ تو رب کے بتائے گئے رستے پہ چلنے کے دعویدار ہیں تو یہ کونسی مثال ہے جس کو سن کر کوئی عورت توہین محسوس کرنے کے بجائے آپ کے بتائے گئے رستے پہ آنا پسند کرے گی؟ جناب من، اللہ اور نبی کا رستہ تو پیار اور عزت کا رستہ ہے، توہین کا تو ہرگز نہیں۔ تو آپ دنیا کی آدھی آبادی کی نمائندہ عورتوں کی اس قسم کی توہین کرنے کی کیا توجیہہ پیش کرتے ہیں؟کیا آپ اس مثال کے دینے پہ نادم ہیں؟
کیا آپ بھی معافی مانگنا پسند کریں گے؟یا آپ صرف معافی منگوانے کا تقاضا کرنے کے لئے دنیا میں آئے ہیں؟
کوئی ہے جو ان سوالوں کا جواب دینا پسند کرے گا دوستو کہ یہ سوال کی حرمت کا سوال ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں