عقائد ونظریات پر بحث کس نتیجے پر ختم ہوئی۔ شاہد یوسف خان

سوشل میڈیا اب ایک ایسی خارزار زمین بن چکا ہے جہاں قدم رکھتے ہوئے کانٹے چبھنے کا خدشہ رہتا ہے۔ جہاں یہ معلوم نہیں کہ یہ نظریات اور عقیدے کی بحث ہمیں اب گمراہی کی طرف نہ دھکیل دے۔ اگر کہیں  سے مضبوط دلائل اور مکالمہ پر ہمارا دماغ اٹک بھی جاتا ہے مگر دوستوں کے اگر مگر ، ادھر اُدھر کے جملے پھر ہمیں اپنے صحیح عقیدے اور راستے پر لے آتے ہیں۔ دو روز پہلے ایک مطالبہ بھی کیا کہ اب ہمیں مذہبی ، سیاسی ، سماجی بیانیے بدلنے کے لیے سوشل میڈیا کے مفکرین کو آگے آنا ہوگا۔

جتنے دلائل ہمارے پاس سوشل میڈیا پر ہوتے ہیں یقین کریں اب دل نہیں کرتا کہ کسی محفل یا تقریب میں چلے جائیں یا جمعہ کے خطبے پر زیادہ ثواب حاصل کرنے کے لیے مولوی کا وعظ سننے پہلی صفوں میں جا بیٹھیں۔ اگر کبھی دس منٹ پہلے پہنچ بھی گئے تو یقین مانیے مولوی صاحب کی تقریر سے اکتاہٹ ہوتی رہتی ہے کہ یہ کیا کہہ رہا ہے اسے تو کچھ معلوم ہی نہیں اور دل کرتا ہے کہ اس کا مائیک چھین  کر اپنا علمی بیانیہ یہاں پیش کریں کیونکہ یہ مولوی تو لوگوں کو غلط راستے پر لے جا رہے ہیں اور پرانی باتیں کرنے کا کیا حاصل۔انہیں تو سائنسی ترجیحات پیش کرنی چاہئیں تھیں جس کی ہمیں  ضرورت ہے۔ کیا کریں بس پُرتشدد رویوں کی وجہ سے پھر ہم جُمعہ پڑھنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ پچھلی صفوں میں بیٹھ کر پھر وہیں سے انتہائی سپیڈ سے نکلتے ہیں کہ فرض تو اب ادا ہوگیا۔

اب ہمیں تو انٹرنیٹ پر موجود کسی دوسرے کا مضمون شئیر کرتے ہوئے بھی ڈر ہی لگتا ہے کہ کسی درست دانشور کے ہتھے نہ چڑھ جائیں ۔ عام طور پر شیعہ سنی، بریلوی وہابی عقائد کے علاوہ اور دو   مقبول عام ہیں ایک مجاہدین کی جماعت تو دوسری سائنسدانوں کی دونوں کے پاس سوالات کرنے پر جہالت کا مرتبہ ہی ملتا ہے۔ اپنی رائے پیش کر کے چلے جاتے ہیں لیکن وہ منطقی انجام کو نہیں پہنچاتے ۔ پھر اس گروہی تقسیم میں بھی ہر طرف واہ واہ اور اپنے ہم خیال دوستوں کا جتھا چاہیے۔ یقین نہ آئے تو دس دن خوشامدی ہاں میں  ہاں کرتے رہیں تو آپ کو جواب بھی مل جائے گا لیکن اگر آپ نے کوئی تلخ سوال کردیا تو پٹاخ سے آپ کو بلاک کردیں گے چاہے جتنا بڑا بھی معتدل مزاج اور حقیقت پسند بندہ ہو۔ ۔

محرم کے پہلے عشرے میں پُرامن طریقے سے رائے پیش کی اور اس میں یہی اظہار کیا کہ واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا انتہائی دردناک واقعہ ہے اس پر اپنے اپنے عقیدے کے مطابق رہیں،  لیکن اس پر بھی ہمیں جاہل اور نامعقول گردانا گیا۔ پھر ہمیں بھی سکون آیا کہ اب کہیں نہیں چلنی۔ امن کا راستہ تو یہی ہے ہاں کوئی بندہ تاریخ تک درست سمت میں پہنچ جاتا تو کیا مسلمان آپس میں دست و گریباں ہوتے اور شیعہ سنی ایک دوسرے کے خلاف فرقے بن جاتے۔ ہر کسی کی اپنی رائے ہے عقیدہ ہے دھرم ہے اس میں تبدیلی جس طریقے سے کچھ دوست لانا چاہ رہے ہیں کبھی ممکن نہیں ہے۔

ہم بچپن میں خو مجالس میں جایا کرتے تھے اور نادان تھے  تو دل سے روتے تھے بس اب یہ ہوا کہ کسی مسجد میں بھی جانے سے کتراتے ہیں۔کون کہاں پلٹ جائے کس عقیدے کو سمیٹ لے یہ کوئی پتہ نہیں۔ جب اسلامی مدارس میں پندرہ سال پڑھنے والے مُلحد اور سیکولر بن سکتے ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ کوئی بندہ ایک جگہ پر قائم رہے۔ یہ عقیدہ نطریہ دو چیزوں کے ذریعے انسانی  ذہن میں سرایت کرتا ہے ایک تو موروثی ذریعے سے کہ بس ہمارا عقیدہ ہی ٹھیک ہے دوسرے کافر گمراہ اور جہنمی ہیں یا کسی دوسرے کے لیے رعایت ہے۔

دوسرا یہ کہ انسان جب آگے بڑھتا ہے  علم کی تلاش جاری رہتی ہے تو وہ اپنا عقیدہ خود بھی متعین کرسکتا ہے لیکن اس کے لیے بھی اچھے اساتذہ کی ضرورت ہوتی ہے جو فلسفے اور عقل پر ایمان لائے بغیر   خدا کی قدرت کو بھی تسلیم کریں۔ ورنہ کچھ عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ ایسے اساتذہ اور مفکرین کی پیدائش بھی ہوئی ہے ہمارے ہاں جو ہر بات پر عقلی دلیل کو اپنا عقیدہ مانتے ہیں لیکن اپنے ہاں عقلی دلیل کا ستعمال صحیح نہیں کر پاتے۔ انہیں یہ عقلی دلیل کا فلسفہ صرف چند کتابوں سے ملا ہے ورنہ عقلی دلیل کے لیے تو دنیا میں دیکھنے سے ہی پتہ چلتا ہے کہ قدرت کی تخلیقات تو انسان کو اپنے رب کے قریب کر دیتی ہے۔

آپ کسی دیہات میں رہنے والے سادہ لوح بندے کو جس طرح کا عقیدہ، دلیل اور فلسفہ سنائیں گے ، بتائیں گے تو وہ بیچارہ اسی پر یقین لائے گا۔ چند سال ہوئے کہ میرے گاؤں میں پہلی مرتبہ اہلحدیث مسلک کے مطابق ایک نماز جنازہ پڑھا ئی گئی ، جنازہ توبہر طورلوگوں نے پڑھ لیا لیکن بعد میں کیا تھا لوگ اس پر توبہ کر رہے تھے۔ میں نے ایک بزرگ سے پوچھا “چاچا کیوں توبہ توبہ کرتے جا رہے ہیں؟”
یار یہ جنازہ تو اس نے غلط پڑھا دیا ہے۔ میں نے کہا   جنازہ تو ٹھیک تھا، اس پر توبہ نہیں کرنی چاہیے، آپ نے تو ثواب کے لیے پڑھا ۔ اللہ سے دعا مانگیں کہ قبول ہوجائے۔ اس نے کہا”نہیں بیٹا یہ ہمارے بزرگوں نے کبھی نہیں پڑھا یا پڑھایا ،نہ ہی  بتایا، یہ کوئی نیا اسلام ہے کیا”؟ اس سے میں نے پوچھا آپ کو نماز جنازہ میں پڑھنے کے لیے دعائیں آتی ہیں ؟ تو کہا نہیں وہ تو امام کو پڑھنی چاہئیں ہم تو اس کے پیچھے ہوتے ہیں”۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک وقت میں ہمارے دیہاتوں میں شعلہ بیاں مقررین کو پسند کیا جاتا تھا اور تقریر کے دوران بڑے زور سے نعرے گونجتے تھے کبھی کسی کافر کے لیے تو کبھی اپنے عقیدے اور اپنی طاقت ظاہر کرنے کے لیے تاکہ مخالف سنے کہ ہم کتنے مضبوط ہو چکے ہیں۔ مخالف سیدھا سادہ بھی گالیاں نکال کے چلتا بنتا تھا۔ خیر اب یہ کام کم ہوگیا ہے لیکن سوشل میڈیا پر یہ کام جاری و ساری ہے ۔ محرم کا پہلا عشرہ کس طرھ گزرا بہت ہی ڈر ڈر کے کہیں کسی عقیدے کی گستاخی ہی نا کر بیٹھیں ۔ ڈر کے مارے سوال کرنے کی جہت چھوڑ دی ہے  ورنہ معاشرتی علمی تسکین کے لیے سوال تو لازمی حصہ ہوتا ہے۔ جس معاشرے میں سوال کرنے والے چھوڑ جائیں اور خوشامدیوں کی بھرمار ہوجائے تو وہ معاشرے اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں۔ سوالات کریں اور جوابات دینے والے کے پاس اگر اہلیت ہے تو رائے اور نقطہ نظر پیش کرے ورنہ خاموش رہے اور اہل علم کو آگے لائے۔ مسخر کرنے کا حکم اور سوال کرنے کے لیے ہمیں اسلام اجازت بھی دیتا ہے۔ سوالات اور کھوج کی بدولت سائنسی تسخیر دراصل اسلام کا سبق تھی لیکن ہم ابھی تک  افسانوں، من گھڑت  قصہ ماضی سے  نہیں نکل پا رہے۔

Facebook Comments

شاہد یوسف
شاہد یوسف خان ایم اے سیاسیات اور ماس کمیونیکشن کا طالبعلم ہے ۔ علم کی تلاش میں سرگرداں ہے، سیاسی و سماجی موضوعات پر اس کی رائے دراصل سوالات پر مشتمل ہوتی ہے اور جوابات کی تلاش میں۔ ڈیر ہ غازی خان۔موجودہ تعلق : لاہور۔ذریعہ معاش: ایجوکیشن ریسرچ ادارے میں ملازمت۔مذہبی انتہاپسندی، سیکولر انتہاپندی، الحاد نامی زہر، سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام سے نفرت ۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”عقائد ونظریات پر بحث کس نتیجے پر ختم ہوئی۔ شاہد یوسف خان

  1. بالکل شاہد خان صاحب نے عمدہ تجزیہ کیا ہے کہ لاحاصل بحث سے بہتر ہے کہ ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانی ہوگی۔ ہمین ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا۔

Leave a Reply