ٹائم پاس۔حسین امام

اس دنیا میں غربت، بیروزگاری، توانائی، دہشت گردی اور کرپشن کے علاوہ جو سب سے بڑا مسئلہ حضرتِ انسان کو درپیش ہے وہ ہے “ٹائم پاس”
یہ وہ مسئلہ ہے جو دو سال کے بچے سے لے کر ستر سال کے بوڑھے تک اور ملک کے عام شہری سے لے کر وزیراعظم سمیت اس دنیا میں موجود چھوٹے چھوٹے ممالک سے لے کر وقت کی بڑی بڑی تمام سُپر پاورز کو یکساں درپیش ہے۔ اس طرح یہ ایک عالمی مسئلہ بن جاتا ہے۔

اب ٹائم پاس کے حوالے سے یہ واقعہ  ہی سن لیں ۔

گزشتہ ہفتے سیالکوٹ سے لاہور بذریعہ ریل جانے کا اتفاق ہوا، ابھی سفر کا آغاز ہوا ہی تھا کہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے دو آدمیوں نے آپس میں بات شروع کی۔

پہلا آدمی۔ آپ کہاں جا رہے ہیں؟

دوسرا آدمی۔ میں لاہور جا رہا ہوں

دوسرا آدمی۔ آپ کہاں جا رہے ہیں؟

پہلا آدمی میں بھی لاہور جا رہا ہوں

پہلا آدمی۔ آپ وہاں کس جگہ  جا رہے ہیں؟

دوسرا آدمی۔ جی میں شادمان جا رہا ہوں اور آپ؟

پہلا آدمی۔ میں بھی شادمان جا رہا ہوں؟

پہلا آدمی۔ آپ شادمان میں کہاں جائیں  گے؟

دوسرا آدمی۔ میں گلی سیداں والی میں جاؤں  گا اور آپ؟

پہلا آدمی۔ جی میں بھی اسی گلی میں جاؤ ں گا۔

پہلا آدمی۔ آپ وہاں کس گھر میں جائیں گے؟

دوسرا آدمی۔ میں مکان نمبر B210 میں جاؤں گا۔ آپ وہاں کس مکان میں جائیں گے؟

پہلا آدمی۔ میں بھی مکان نمبر B210  میں جاؤں گا۔

اس سے پہلے کہ  وہ مکان کی منزل اور کمرے کا بھی پوچھتے، میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، جناب حد ہوگئی ہے آپ دونوں ایک ہی شہر ، محلے ، گلی  حتیٰ کہ  ایک ہی مکان میں جارہے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں۔ اب پہلے والے دو آدمیوں میں سے بڑی عمر والے نے جواب دیا۔۔

جناب آپ کو یہ جان کر اور بھی حیرت ہو گی کہ ہم جہاں جا رہے ہیں وہ میرا سسرال اور دوسرے آدمی کا ننھیال ہے اور ہم دونوں باپ بیٹا ہیں۔ دراصل ہم سفر کی بوریت کو کم کرنے کے لیے ٹائم پاس کر رہے ہیں۔ اس وقت  میں نے منہ میں آئے الفاظ کو کیسے قابو کیا وہ میں ہی جانتا ہوں یا میرا اللہ۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہمارا ٹائم پاس نہیں ہوتا۔ اب ایک روز میں نے ٹائم پاس کرنے کے لیے ٹی وی چلایا ، ٹی وی سکرین پر ایک اینکر پرسن، ایک چرواہا اور دو بکرے نظر آرہے ہیں۔

اینکر۔ آپ ان بکروں کو کیا کھلاتے ہیں؟

چرواہا۔ کون سا کالا یا سفید؟

اینکر۔ کالا

چرواہا۔ گھاس،

اینکر۔ اور سفید کو؟

چرواہا۔ اس کو بھی گھاس

اینکر۔ کالے بکرے کو  رات کو کہاں رکھتے ہو؟

چرواہا۔  بڑے کمرے میں۔

اینکر۔ اور سفید کو؟

چرواہا۔ اس کو بھی وہیں بڑے کمرے میں

اینکر۔ کیسے نہلاتے ہو؟

چرواہا۔ کس کو؟

کالے کو یا سفید کو؟

اینکر۔ کالے کو

چرواہا۔ پانی کے ساتھ

اینکر۔ اور سفید کو؟

چرواہا۔ اسے بھی پانی کے ساتھ

اب  دونوں ہاتھ جھاڑتے ہوئے اطمینان سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ پروگرام کا وقت ختم ہوا۔ اور میں نے بھی منہ میں آئے الفاظ کو قابو کرتے ہوئے ٹی وی بند کردیا۔

میرے خیال میں  ٹائم پاس   میڈیا والوں کے لیے زیادہ بڑا مسئلہ ہے  اور   وہ اس مسئلے کو حل کرنے میں کافی  حد تک کامیاب  بھی ہو چکے ہیں، روز رات آٹھ سے بارہ  ہر چینل پر چار پانچ ٹاک شوز چلتے ہیں جن کا ایجنڈا ایک ہی ہوتا ہے بس ہر گھنٹے اینکر پرسن، تجزیہ نگار اور سیاستدان بدلتے ہیں۔ اس سے ہمارا تو ٹائم پاس ہوتا ہی ہے لیکن اُن کا پیسہ بھی بنتا ہے۔
اب دیکھیں عمران خان صاحب کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی مجھ سے زیادہ سینئر سیاستدان ہیں لیکن پارٹی چاہتی ہے کہ میں لیڈر آف دی اپوزیشن بنو۔ ہمیں اس معاملے میں خان صاحب سے پوری ہمدردی ہے دراصل ان دنوں خان صاحب کا ٹائم پاس نہیں ہو رہا، پہلے تو وہ پارٹی کی خواتین ورکرز کو گندے میسج  بھیج کر  ٹائم پاس کر لیا کرتے تھے لیکن اب سکینڈلز کے ڈر سے وہ سلسلہ بھی رُک گیا ہے۔ اگر عمران خان صاحب لیڈر آف دی اپوزیشن بن جاتے ہیں تو اس سے خان صاحب کے ساتھ ساتھ میڈیا والوں کے لیے بھی ٹائم پاس کرنا بہت آسان ہو جائے گا، روز اس زبان سے اک نیا بیان نکلے گا جس پر بحث و مباحثے میں اچھا وقت کٹے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ارے صاحبو! آپ کرپشن اور دہشت گردی کو اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ سمجھ بیٹھے ہوں گے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہی ٹائم پاس کرنا ہے۔ اس عالمی مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمیں مناسب اقدام اُٹھانے ہوں گے نہیں تو وہ دن دور نہیں جب ہر کوئی غصے کی وجہ سے زبان پر آئے الفا ظ کو کڑوے گھونٹ کی طرح پی رہا ہوگا۔

Facebook Comments

حسنین امام
حسنین امام (خانقاہی) سیاسیات کے طالبعلم ہیں۔ مختلف اخبارات میں ہفتہ وار کالم اور فیچر لکھتے ہیں۔اسلامی و معاشرتی موضوعات میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔ کہانی و افسانہ نگاری کا شوق رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply