• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کافرستان میں ٹوٹتے مجسمے اور اسلامستان میں اکھڑتے مزار۔۔حافظ صفوان محمد

کافرستان میں ٹوٹتے مجسمے اور اسلامستان میں اکھڑتے مزار۔۔حافظ صفوان محمد

وسعت اللہ خاں و مبشر علی زیدی اور بعض دیگر دوست آج کل تواتر سے بعض ممالک میں لگے ہیروؤوں کے مجسموں کے توڑے جانے اور ان کی بے حرمتی کے بڑھتے واقعات کی سماجی اور نفسیاتی وجوہات کو ذکر کر رہے ہیں۔ عثمان قاضی نے شام میں عمر بن عبد العزیز کی قبر اکھاڑے جانے کے واقعے پر اپنا مشاہدہ لکھا۔ اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن گنڈے دار۔ آئیے اس پر کچھ بات کرلیں۔

قبروں کے اکھاڑنے اور لاشوں کو جلانے پھانسی دینے کے واقعات کی تاریخ بہت پرانی بھی ہو لیکن قریب کی معلوم تاریخ میں اس کا آغاز امویوں اور عباسیوں سے ہوتا ہے۔ اس دور کے واقعات کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا قبر اکھاڑی اور لاش جلائی کا کوئی مقابلہ چل رہا ہے۔ چوکوں میں لاشیں لٹکانے کی وہ سنت زندہ کی جا رہی ہے جس کا آغاز عبداللہ بن زبیر کی لاش کو خانہ کعبہ میں لٹکانے سے ہوا تھا۔ حیرت ہوتی ہے کہ اسلام کے اخلاق اور اسلام کے امن دار مذہب ہونے کے ماننے والے مسلمان اس قدر ظلم کیسے کرلیتے ہیں۔

امریکہ میں کولمبس کے اور یورپ میں مختلف لوگوں کےمجسموں پر جو عوامی غصہ نکل رہا ہے اس کی وجوہات تاریخی ہیں جب کہ ہمارے یعنی مسلمانوں کے ہاں تاریخی کرداروں کی قبروں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی وجوہات، بیشتر، معاشی اور مذہبی ہیں۔ مثلًا 2001 میں بامیان میں بدھا کے تاریخی مجمسوں کی طالبان کے ہاتھوں مسماری، جس کی بازگشت ابھی قومی صحافتی فضا میں باقی ہے، کی وجوہات جو بعد میں مذہب کی طرف رخ کرگئیں، دراصل بچوں کو خوراک کی تقسیم میں آنے والی بے اعتدالی اور بعض اہلکاروں کا نامناسب رویہ تھیں۔ اسی طرح جب یکم جولائی 2014 کو داعش کے ایک رکن ابوتراب المقدسی نے ٹویٹ کیا کہ
If Allah wills, we will kill those who worship stones in Mecca and destroy the Kaaba. People go to Mecca to touch the stones, not for Allah.
تو یہ بات بالکل واضح تھی کہ ان لوگوں کے نزدیک قبریں اکھاڑنے یہاں تک کہ خانہ کعبہ کو مسمار کرنے کے لیے مضبوط مذہبی دلائل موجود ہیں۔

ہمیں یہ بات تسلیم کرنی چاہیے کہ ہمارے ذہنی سانچوں کی ڈھلائی میں کچھ ایسی کمی رہ گئی ہے کہ امن کا مذہب ہونے کے دعووں کے باوجود ہمارا عمل قابلِ تقلید یا تعریف کم ہی رہا ہے۔ جب ہماری کتابوں میں محمود غزنوی کے سومنات پر سترہ حملوں کی مہما گائی جاتی ہے، یعنی وہ حملے جن کا مقصد اشاعتِ اسلام بالکل نہیں تھا، تو ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ ہمارے بچے یہ ذہن لے کر پلیں بڑھیں گے کہ کسی بھی دوسرے مذہب کی عبادت گاہ کو مالی یا سیاسی منفعت کے لیے مسمار کرنا فخر کی بات ہے۔ خوب جان لینا چاہیے کہ ان بنیادوں پر پرداختہ ذہنوں کی صفائی مکالمہ بین المذاہب قسم کی لیپا پوتی سے ممکن نہیں ہے۔

میں تسلیم کرتا ہوں کہ بامیان کے مجسموں کی مسماری اور خانہ کعبہ کی مسماری وغیرہ جیسی حرکات یا عزائم ساری دنیائے اسلام کا مشترکہ ذہن نہیں ہے بالکل ویسے جیسے حضرات شیخین کی قبروں کو اکھاڑنا اور ان کی لاشوں کو پھانسی دینے کا اعلان سارے شیعاؤں کا مشترک عزم نہیں ہے، لیکن یہ بات واضح ہے کہ اس قسم کی باتوں کے پیچھے نہ صرف معاشی و سیاسی بیانیہ موجود ہے بلکہ مذہبی دلائل کے بڈاوے بھی کھڑے ہیں۔ ضرورت ہے کہ وہ پورا نظام بدلنے کی ابھی سے فکر کی جائے جو ایسے نظریات کی اشاعت کو معاش سے منسلک کر رہے ہیں ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

مسلمانوں کی بعض مرجع قسم کی شخصیات کی قبروں کے اکھاڑے جانے کے پے درپے واقعات اور کافرستان میں مجسموں کا گرایا جانا انسانیت کے اپنے ماضی کو ری وزٹ کرنے کے سفر کا ایک پڑاؤ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اور کوئی شک نہیں کہ یہ ایک خوفناک سفر کا پتہ دے رہا ہے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کافرستان میں ٹوٹتے مجسمے اور اسلامستان میں اکھڑتے مزار۔۔حافظ صفوان محمد

  1. اس کی پیچھے چھپی صدیوں کی نفرت ۔زیادتی اور نانصافیوں کا کردار زیادہ یوتا ہے۔پھر جب طاقت ملتی ہے تو نفرت بائر آتء دیر نہیں لگتی

Leave a Reply