خلافت سے کربلا تک: چند تعارفی مباحث۔۔ پہلی قسط

چند تمہیدی باتیں :
علماۓ فن کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ نظاموں کی جنگ کی تاریخ ہے- ہر تہذیب کا اپنا world view ہے جس کے تحت وہ اپنا سیاسی نظام تشکیل دیتی ہے- اسلامی تہذیب کے تناظر میں اس کلیے کو سامنے رکھتے ہوۓ اگر ہم اسلام کے world view کو اجمالاً بیان کرنے کی کوشش کریں تو مندرجہ ذیل points سامنے آتے ہیں :

• یہ کائنات ایک خالق کی بامقصد مخلوق ہے اور اپنی تمام تر ضروریات میں اسی کی محتاج –

• خالق کائنات نے کرۂ ارضی پر انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجا –

• اپنے نائبین کی ہدایت کا بندوبست الله نے اپنے نمائندگان خصوصی یعنی انبیاء کے ذریعے کیا ہے –

• انسان الله کی ہدایت پر اپنی دنیاوی زندگی میں کتنا عمل پیرا ہوا اس کا جواب اس کو ایک دن خالق کی بارگاہ میں دینا پڑے گا – اسی دن کو قیامت کہا جاتا ہے- جس کے بعد انسان کو ایک ابدی زندگی عطا کی جائے گی جہاں وہ اپنے عمل کی بنیاد پر راحت یا عذاب میں مبتلا کیا جائے گا-

• ختم نبوت کے بعد اب امت محمدیہ کو تاقیامت اصلاح الناس کا فریضہ انجام دینا ہے-

• الله کا انسان سے بنیادی مطالبہ عبادت ہے اور اسے یہ مطالبہ انفرادی و اجتماعی دونوں سطحوں پر پورا کرنا ہے –

• تمام عباد، الله کے نائب ہیں مگر اجتماعی سطح پر نظم کو قائم رکھنے کی خاطر اپنے اندر سے کسی ایک کو باہمی مشورے سے اپنا امیر مقرر کریں گے جو اصلاح نفس اور اصلاح الناس دونوں کا بندوبست کرے گا –

• یہ امارت نہ کسی خاندان کا حق ہے اور نہ وراثت میں منتقل ہو سکتی ہے-

• نظم اجتماعی الله اور رسول کی ہدایات کو سامنے رکھتے ہوۓ کام کرے گا تو اس کو خلافت علی منہاج النبوه کہیں گے-

• اگر یہ نظم کسی خاندان یا متغلب کے ہاتھوں میں ہوگا تو وہ ملوکیت یا صحابہ کی اصطلاح میں قیصریت کہلاۓ گا –

اس بنیادی تمہید کے بعد ہم اسلام کی ابتدائی تاریخ کا جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ جو نظم اجتماعی رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے قائم کیا تھا آپ کی وفات کے تیس سال بعد ہی اپنے بنیادی اصول سے منحرف ہو گیا – گو پورے کا پورا نظام منہدم نہیں ہوا مگر اس کی سب سے اعلی سطح برقرار نہ رہی اور نظام حکومت شوری کے بجاۓ وراثت بن گیا – اس سلسلۂ مضامین میں ہم اسی تغیر کے اہم مراحل کا جائزہ لیں گے – اور یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے ٹھیک تیس سال بعد یہ نظام ایک غلط رخ پر چل پڑا اور ساٹھ سال بعد اسی تغیر کے نتیجے میں وہ سانحہ (سانحہ کربلا ) پیش آیا جس کی سرخی آج بھی اسلام کے چہرے پر تازہ ہے –

ہم اپنی تحریر میں بنیادی اخلاقی حدود کا خیال کریں گے اور اپنے ناقدین سے بھی اس کی توقع رکھیں گے – تاہم صرف اس اعتراض کا جواب دیں گے جو آیات قرآنی یا صحیح الاسناد روایات کی بنیاد پر کیا جائے گا –

خلافت و ملوکیت کا فرق صحیح احادیث کی روشنی میں اور اعتراضات کا رد –

ہماری نظر میں یہ کہنا کسی طور صحیح نہیں ہے کہ خلافت و ملوکیت کا فرق بنیادی طور پر کوئی شرعی فرق نہیں بلکہ کچھ سیاسی مفکرین اسلام کا تخلیق کردہ ہے- خلافت و ملوکیت کا فرق خود حضور اکرم صلی الله علیہ سے مروی صحیح السناد احادیث سے ثابت ہے-

حضور صلی الله وسلم نے ارشاد فرمایا

" تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيكُمْ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ تَكُونَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُونُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ"
"تم میں نبوت رہے گی جب تک الله چاہے گا کہ رہے اور پھر اس کو اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا اٹھانا- پھر خلافت علی منہاج النبوت قائم ہو گی، وہ بھی رہے گی جب تک الله چاہے گا کہ رہے اور پھر الله اسے بھی اٹھا لے گا جب وہ چاہے گا- پھر کاٹ کھانے والی ملوکیت آئے گی، وہ بھی رہے گی جب تک الله چاہے گا اسے رکھنا پھر الله چاہے گا تو اسے بھی اٹھا لے گا- پھر زبردستی کی حکومت آئے گی، وہ بھی رہے گی جب تک چاہے گا کہ رہے، پھر اٹھ جائے گی جب الله اسے اٹھانا چاہے گا- اس کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوت آئے گی"

(المسند احمد بن حمبل، حدیث نمبر ١٨٤٠٦، و قال الارنوط و زبیر علی زئی رحمتہ الله علیہ حدیث صحیح)

ایک اور صحیح حدیث میں حضور نے اسی امر کی مزید وضاحت اور خلافت علی منہاج النبوه اور ملوکیت کے آغاز کا تعین کچھ ان الفاظ کے ساتھ فرمایا ہے:

"حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ قَالَ: حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً، ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ» ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ: أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ، وَخِلَافَةَ عُمَرَ، وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ، ثُمَّ قَالَ لِي: أَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ قَالَ: فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الخِلَافَةَ فِيهِمْ؟ قَالَ: كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ المُلُوكِ"

راوی کہتا ہے کہ حضرت سفینہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ مخبر صادق، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا"میری امت میں خلافت ٣٠ سال ہے، اس کے بعد ملوکیت ہے"

پھر حضرت سفینہ رضی الله عنہ نے مجھ سے فرمایا تم گن لو کہ ابو بکر رضی الله عنہ کی خلافت ٢ سال، حضرت عمر رضی الله عنہ کی خلافت ١٠ سال، حضرت عثمان رضی الله عنہ کی خلافت ١٢ سال اور حضرت علی رضی الله عنہ کی خلافت ٦ سال یہ کل ملا کے ٣٠ سال ہوۓ- سعید کہتے ہیں میں نے ان سے کہا یہ بنو امیہ سمجھتے ہیں کے ان میں بھی خلافت ہےتو حضرت سفینہ نے ارشاد فرمایا بنو الزرقاء جھوٹ بولتے ہیں، یہ تو بادشاہ ہیں بدترین بادشاہوں میں سے"
(سنن الترمذی، حدیث ٢٢٢٦، و قال شیخ البانی و شیخ زبیر علی زئی رحمتہ الله علیہم حدیث صحیح)

اسی طرح رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "أول من يغير سنتي رجل من بني أمية" "سب سے پہلے جو میری سنت کو بدلے گا وہ بنو امیہ سے ہو گا" شیخ البانی اس کی تشریح میں کہتے ہیں:"ولعل المراد بالحديث تغيير نظام اختيار الخليفة، وجعله وراثة. اور اس مراد خلیفہ کے تعین کا نظام ہے، کہ وراثت بنا دیا گیا "
(سلسلہ الحادیث صحیحہ )

ان احادیث کے مخالف صحیح مسلم کی"إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ لَا يَنْقَضِي حَتَّى يَمْضِيَ فِيهِمِ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً" یعنی"یہ امر یعنی خلافت اس وقت تک ختم نہ ہوگی یہاں تک کہ ان میں بارہ خلفاء گزر جائیں" حدیث پیش کی جاتی ہے-یہ حدیث گو صحیح ہے مگر اس کی یہ تشریح کہ بارہ کے بارہ خلفاء مسلسل ہوں گے یا نیک ہوں گے کسی طور صحیح نہیں – اور نہ ہی ان احادیث سے میل کھاتی ہے جن میں خلافت راشدہ کے بعد ایسے واقعات کا ذکر ملتا ہے جن کی بنا پر ان ادوار کو کسی طرح بھی صحیح اسلامی حکومت کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا- پہلے ہم بارہ خلفا والی حدیث کا جائزہ لیتے ہیں:

• اس حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خلفاء کا لفظ استعمال کیا ہے، اور اس کے ساتھ راشدین کا اضافہ نہیں کیا – یہاں ایک دوسری حدیث ملاحظہ ہو: "فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ " یعنی "تم پر میرے اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء کے طریقے کی پہروی لازم ہے" (مشكاة المصابيح و سند صحیح ) -اس حدیث میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خلفاء کے ساتھ راشدین کا اضافہ فرمایا ہے اور مسلمانوں کے لیے قابلِ اتباع صرف خلفاء راشدین کےدور کو قررا دیا ہے- یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر بارہ کے بارہ خلفاء کی حکومت کا اسلامی ہونا اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے تو ان کو خلفاء راشدین کی فہرست سے باہر کیوں رکھا جاتا ہے؟ کیوں احکام شرعیہ کی تشریح میں یزید اور مروان ایسے حکمرانوں کے فیصلوں کو حجت کے طور پر پیش نہیں کیا جاتا؟

• اس حدیث میں صرف غلبۂ اسلام یعنی مسلمانوں کا دوسری اقوام کے مقابلے میں قوی ہونے اور فتوحات کرنےکا ذکر کیا گیا ہے، ان خلفاء کے طرز حکمرانی کی توثیق نہیں کی گئی _ اس حدیث میں خلیفہ کا لفظ اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوا ہےنہ کہ خلافت علی منہاج النبوه کے معنی میں-یہاں خلیفہ کا اصطلاحی مطلب مراد لینا دوسری احادیث صحیحہ اورایسے واقعات کے خلاف ہے جن کے مطابق ان خلفاء کے دور میں خلاف اسلام کام ہوۓ_

• اس حدیث سے اکثر علماء نے ان خلفاء کا ایک دوسرے کے بعد ہونا مراد نہیں لیا، اور جہاں مراد لیا ہے ان کاعادل ہونا یا ان کی حکومت کا اسلامی ہونا نہیں مانا_ یہی قرین قیاس بھی ہے ورنہ آپ اس فہرست میں چند بنیادی مسائل کا شکار ہوں گے- جن میں سے سب سے بنیادی مسلہ یہ ہے ایک ہی وقت میں مروان بن حکم اور حضرت عبدالله بن زبیر رضی الله عنہ دونوں حکمران رہے ہیں- اس فہرست میں ان دونوں حضرات میں سے کس کا نام شامل کیا جائے گا؟ نواسہ ابوبکر رضی الله عنہ کا ؟ پھر تو دوسری لڑی کا تسلسل ٹوٹ جائے گا- اور اگر مروان بن حکم کا نام شامل کیا جائے گا تو ان صریح احادیث کا کیا جائے گا جن میں آل مروان پر لعنت خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی زبان سے ثابت ہے_ مثال کو طور یہ حدیث دیکھیں: عبدالله بن زبیر نے فرمایا"وربّ هذا البيت! لقد لعن الله الحكم وما ولد على لسان نبيه صلى الله عليه وسلم " یعنی "ربِ کعبه کی قسم، الله نے اپنے نبی کی زبان سے حکم اور اس کی اولاد (مروان) پر لعنت کی"
(سلسلۂ الحادیث صحیحہ )

• اس سلسلہ میں فیصلہ کن بات خود رسول الله کی وہ حدیث ہے جو امام مسلم نے اسی باب میں درج کی ہے، جس سے خود بخود یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ خلفاء مسلسل نہیں ہوں گے بلکہ قیامت تک ایسے ادوار بارہ مرتبہ آئیں گے جن میں اسلام اپنی مکمل شکل میں قائم ہوگا ! حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں "لَا يَزَالُ الدِّينُ قَائِمًا حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، أَوْ يَكُونَ عَلَيْكُمُ اثْنَا عَشَرَ خَلِيفَةً، كُلُّهُمْ مِنْ قُرَيْشٍ" یعنی دین ہمیشہ قائم وباقی رہے گا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے یا تم پر بارہ خلفاء حاکم ہوجائیں اور وہ سب کے سب قریش سے ہوں- اس حدیث سے قطعی طور پر ثابت ہوگیا کہ یہاں بارہ خلفاء مسلسل مراد نہیں ہیں –

• خود صحابہ سے قیصریت اور خلافت کا فرق ثابت ہے ، مثلاً صحیح بخاری کی ایک حدیث اور اس کی شرح ملاحظہ ہو "حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، قَالَ: كَانَ مَرْوَانُ عَلَى الحِجَازِ اسْتَعْمَلَهُ مُعَاوِيَةُ فَخَطَبَ، فَجَعَلَ يَذْكُرُ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ لِكَيْ يُبَايَعَ لَهُ بَعْدَ أَبِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ شَيْئًا، فَقَالَ: خُذُوهُ، فَدَخَلَ بَيْتَ عَائِشَةَ فَلَمْ يَقْدِرُوا، فَقَالَ مَرْوَانُ: إِنَّ هَذَا الَّذِي أَنْزَلَ اللَّهُ فِيهِ، {وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي} [الأحقاف: 17]، فَقَالَتْ عَائِشَةُ مِنْ وَرَاءِ الحِجَابِ: «مَا أَنْزَلَ اللَّهُ فِينَا شَيْئًا مِنَ القُرْآنِ إِلَّا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ عُذْرِي"
(صحیح البخاری حدیث نمبر٤٨٢٧)
"جب حضرت معاویہ رضی الله عنہ نے مروان کو حجازکا امیر بنا کر بھیجا تو اس نے (مسجد نبوی میں) خطبہ دیا اور اس میں اس بات کا ذکر کیا کہ معاویہ رضی الله عنہ کے بعد ان کے بیٹے یزید کی بیعت کرلی جائے توحضرت عبدالرحمن بن ابوبکر رضی الله عنہ نے اس کو کوئی بات کہی_ جس کو سن کر مروان نے کہا پکڑ لو اس کو، اتنے میں وہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کے حجرے میں داخل ہو گئے- تب مروان نے کہا یہی ہے وہ جس کے بارے میں قران کی یہ آیت اتری ہے "وَالَّذِي قَالَ لِوَالِدَيْهِ أُفٍّ لَكُمَا أَتَعِدَانِنِي" یعنی "اور جس نے اپنے ماں باپ سے کہا کہ تم پر تف ہے کیا تم مجھے یہ وعدہ دیتے ہو کہ میں قبر سے نکالا جاؤں گا " اس پر حضرت عائشہ نے اپنےحجرے سےکہا "ہمارے بارے میں الله نے میری براءت والی آیات کے علاوہ کوئی آیت نازل نہیں کی"

امام بخاری نے ابنِ ابوبکر رضی الله عنہ کے الفاظ نقل کرنے کی بجاۓ صرف "شیا" کا لفظ کہا ہے مگر امام ابن حجر نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوۓ دوسری احادیث پیش کر کے ان الفاظ کی تفصیل یوں بیان کی ہے " فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ مَا هِيَ إِلَّا هِرَقْلِيَّةٌ " یعنی یہ ولی عہدی ہرقلیت ہے" اس کے جواب میں مروان نے کہا "سُنَّةُ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ " ابوبکر اور عمر کی سنت ہے" اس پر حضرت عبدالرحمن نے کہا "سُنَّةُ هِرَقْلَ وَقَيْصَرَ" یہ قیصر و کسریٰ کی سنت ہے- (فتح الباری، جز8 )
اس حدیث سے واضح ہے کہ خود صحابہ کےنزدیک ان حضرات کا طریق انتخاب اسلامی نہیں بلکہ فارسی و رومی شاہوں جیسا تھا- فتح الباری میں ہی دوسری جگہ ابن حجر فرماتے ہیں "مُعَاوِيَةُ خَلِيفَةً لَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ مُعَارَضَةٌ لِحَدِيثِ الْخِلَافَةُ بَعْدِي ثَلَاثُونَ سَنَةً لِأَنَّ الْمُرَادَ بِهِ خِلَافَةُ النُّبُوَّةِ وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ وَمَنْ بَعْدَهُ فَكَانَ أَكْثَرُهُمْ عَلَى طَرِيقَةِ الْمُلُوكِ وَلَوْ سموا خلفاء" یعنی " معاویہ رضی الله عنہ کا خلیفہ ہونا خلافت کے تیس سال ہونے کے مخالف نہیں ہے، کیوںکہ وہاں خلافت سے مراد خلافت علی منہاج النبوہ ہے- رہا سوال حضرت معاویہ اور ان کے بعد میں آنے والوں کا تو ان میں سے اکثر ملوکیت کے طرز پر تھے چاہے ان کا نام خلیفہ ہو"(فتح الباری، جز١٢)

Advertisements
julia rana solicitors london

حضرت سفینہ رضی الله عنہ کی جس حدیث میں خلافت اور ملوکیت کا فرق کیا گیا ہے، اس حدیث پر ہمارے بعض "محققینِ عہد ِ نو" نےاعتراض کیا ہے مگر اس کی صحت ائمہ فن کےنزدیک مسلم ہے اس لیے ان کی جرح سے کوئی فرق نہیں پڑتا- ہم اس سلسلہ مضامین کے اختتام میں ان شاء الله اس حدیث کی تخریج اور اس پر ائمہ فن کی آراء ایک ضمیمہ کی شکل میں تحریر کر دیں گے –

Facebook Comments

حسنات محمود
سائنس و تاریخ شوق، مذہب و فلسفہ ضرورت-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply