کشمیر کی کسمپرسی :انورادھا بھسین کی تحقیقی کتاب/افتخار گیلانی

قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ میں شاید ہی کسی اور قوم کی بدبختی کا دورانیہ اتنا طویل رہا ہوگا جنتا کشمیریوں کا ہے یہ بد بختی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ گو کہ اس قوم کی بدقسمتی اور کسمپرسی میں اپنوں کی عاقبت نااندیشیوں اور غیروں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ہر دور میں اضافہ ہوتا رہا ہے مگر 5اگست2019 کو مودی حکومت نے جو اقدامات اٹھائے انہوں نے کشمیر کو تاریخ کے ایک ایسے نازک موڑ پر لاکر کھڑا کردیا ہے، جس سے نہ صرف اس کے باشندوں کو مکمل طور پر بے اختیار کرنے بلکہ ہندو قوم پرستی کی تہذیبی یلغار سے ا نکی مذہبی و لسانی شناخت اور انفرادیت کو داو پر لگا کر اپنے ہی وطن میں غیر اور بے بیگانہ کرنے کا عمل شروع کیا گیاہے۔ اس تناظر میں ریاست جموں و کشمیر کے موقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیر انورادھا بھسین نے حال ہی میں اپنی شائع کتاب A DISMANTLED STATE: THE UNTOLD STORY OF KASHMIR AFTER ARTICLE 370 میں پچھلے تین سالوں سے اس قوم پر گزرے لمحات کو ڈاکومنٹ کرکے ایک ہزار کے قریب نئے قوانین کے اطلاق اور مقامی آبادی پر ان کے اثرات پر جس خوبی اور بصیرت کے ساتھ بحث کی ہے، اس نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ ریاست جموں و کشمیر کے جدید صحافت کے بانی وید بھسین کی بیٹی کہلانے کی واقعی حق دار ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں مشکل ترین حالات میں بھی صحافتی اقدار کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

انورادھا لکھتی ہیں کہ5اگست 2019کی صبح جب کشمیریوں کی بدقسمتی کی ایک اوررات کا آغازہو رہا تھا تو اپنے بے چین دماغ کو سکون دینے کیلئے وہ جموں شہر کی مقتدر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے پاس چلی گئیں۔ایک زمانے میں قد آور لیڈر شیخ محمد عبداللہ کے دست راست سیٹھی صاحب واحد ایسے زندہ لیڈر تھے جو جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ممبر رہ چکے تھے۔ انہوں نے ریاست کے آئین کا مسودہ تیا ر کیا تھا، جس کو نئی دہلی میں وزیر داخلہ امیت شاہ اسوقت ردی کی ٹوکری کی نذر کر رہے تھے۔اپنی بوڑھی آنکھوں سے ٹی وی سکرین کی طرف دیکھ کر آنسو پونچھتے ہوئے سیٹھی صاحب کہہ رہے تھے کہ ’’بیٹی سب کچھ ختم ہو گیا۔‘‘ 1950کی دہائی میں اراضی اصلاحات کو لاگو کروانے اور زمینداروں و جاگیرداروں سے زمینیں چھین کر کاشتکاروں میں بانٹنا ان کا ایک اہم کارنامہ تھا۔ انورادھا نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ اصلاحات جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بغیر ممکن ہو سکتی تھیں تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ کشمیر میں مکمل اراضی اصلاحات اسی لئے ممکن ہوسکیں کیونکہ تب تک کشمیرپر بھارت کے اداروں بشمول سپریم کورٹ کی عملداری نہیں تھی اسلئے ا ن اصلاحات کو چیلنج نہیں کیا جاسکا۔ سیٹھی صاحب کہہ رہے تھے کہ شخصی ڈوگرہ راج کے خلاف ان کی جنگ کی افادیت کو آناً فاناً ختم کردیا گیا ہے۔ ’’… میری زندگی کوبیکار کردیا گیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی برباد کر دی، جیل گیا، زیر زمین تحریک چلائی ۔ 1947 سے پہلے اور بعد میں جابر طاقتوں سے لڑا۔مگر افسوس صد افسوس۔ــ‘‘ انورادھا کے مطابق ایک ایسا شخص ، جو زندگی بھر بے خوف رہا، اس کے چہرے پر ناامیدی واضح تھی۔ جنوری 2021میں ان کا انتقال ہوگیا۔

ماضی کے دریچے کھولتے ہوئے سیٹھی صاحب انورادھا کو بتا رہے تھے کہ 1949 میں، شیخ عبداللہ نے جموں و کشمیر کے مستقبل پر بات چیت کرنے کیلئے نئی دہلی ایک وفد بھیجا، جس میں وہ بھی شامل تھے۔ اس وفد نے وزیرا عظم جواہر لال نہرو اور وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ساتھ کئی دور پر مشتمل بات چیت کی۔ دونوں لیڈران جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو تسلیم کئے جانے کے حامی تھے۔ سیٹھی صاحب کے بقول ان کے وفد نے پانچ نکات پیش کئے، جن میں اراضی اصلاحات، قرضوں کی معافی، شخصی ڈوگرہ راج کا خاتمہ، علیحدہ کرنسی اور علیحدہ آئین و جھنڈا شامل تھے۔ نہرو اور پٹیل نے الگ کرنسی کے مطالبہ کو تو مسترد کر دیا، مگر باقی چار پر حامی بھر لی۔ مگر اب یہ سبھی چیزیں ا ن کی ٹمٹماتی آنکھوں کے سامنے چھینی جا رہی تھیں۔ بھارتی لیڈروں کے باقی وعدوں کی طرح اس کو بھی ہوا میں اڑایا جا رہا تھا۔دستاویز الحاق کی شق 5 میں ہی بتایا گیا تھا کہ انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ ،جو بعد میں بھارتی آئین قرار پایا ،کے ذریعے الحاق کی شقوں میں ترمیم نہیں کی جائیگی۔ شق 7 میںبتایا گیا کہ اس دستاویز کی رو سے بھارت کے مستقبل کا آئین یا حکومت بھارت ، ریاست کے انتظامی امور میں مداخلت کا حقدار نہیں ہوں گے۔ 4 اگست 2019 کی آدھی رات کو جب کشمیر میں سڑکیں سیل کر دی گئیں، تمام مواصلاتی رابطے منقطع کر دئیے گئے، انورادھا کی بہن سرینگر میں درگاہ حضرت بل سے متصل کشمیر یونیورسٹی کے گیسٹ ہاوس میں مقیم تھیں۔ شام کو اس نے فوجیوں کی غیر معمولی نقل حرکت دیکھی۔ رات گئے تک اس کے فون کے سگنل ہی غائب تھے۔ صبح گیسٹ ہاؤس کی لینڈ لائن بھی ڈیڈ تھی۔ گیسٹ ہاوس میں وارانسی یعنی بنارس یونیورسٹی کے کچھ سکالرز مقیم تھے، وہ نباتیات کے کسی پروجیکٹ پر کام کرنے کیلئے کشمیر آئے ہوئے تھے۔کسی طرح یونیورسٹی سے بسیں حاصل کرکے وہ ائیر پورٹ پہنچے۔

انورادھا کی ہمشیرہ ، پہلی ایسی خاتون تھی، جو چشم دید واقعات سنانے کیلئے جموں پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ۔ اس کا کہنا تھا کہ سرینگر ایک خوف و دہشت کی بستی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ پورا شہر خار دارتارو ں سے بھرا ہواہے اور ہر گلی اور موڑ پر سپاہی تعینات ہیں۔ ائیر پورٹ کے راستے ان کی کئی جگہوں پر چیکنگ کی گئی۔ وہ راستے بھر معلوم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ایسا کیا کچھ ہوا ہے کہ کرفیواور اسطرح کی پر اسرار خاموشی طاری کی گئی ہے۔ مگر بتانے والا کوئی نہیں تھا۔کسی کو پتہ نہیں کہ کیا ہوا ہے۔ انہیں ائیر پورٹ تک پہنچے میں دو گھنٹے کا وقت لگا۔ جموں پہنچ کر ان کو معلوم ہوا کہ بھارتی پارلیمنٹ نے ریاست جموں و کشمیر کو دولخت کرکے لداخ اور بقیہ خطے کو دو مرکزی انتظام والے علاقوں میں تبدیل کردیا ہے اور اسی کے ساتھ خود بھارتی آئین میں اس خطے کے آئینی حقوق اور محدود خود مختاری کو ختم کر دیا ہے۔

انورادھا لکھتی ہیں کہ تین دن بعدجب وہ سرینگر میں تھیں، غیر اعلانیہ کرفیو کے دوران اپنے دفتر جارہی تھیں تو ان کو کئی سیکورٹی رکاوٹیں عبور کرنا پڑیں۔ ایک رکاوٹ پر جموں و کشمیر پولیس کے اہلکار نے ان کو بتایا کہ ان کو غیر مسلح کردیا گیا ہے۔ پولیس نے درخت کے سائے میں کرسی پر آرام فرما تے سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے ایک آفیسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم ان سے احکامات لیتے ہیں۔ کتاب کے مطابق خصوصی حیثیت کا چھن جانا صرف ایک جذباتی مسئلہ نہیں تھا بلکہ یہ جموں و کشمیر میں جمہوریت کی آخری نشانیاں تھیں، جن کو فوجی بوٹو ں تلے روند دیا گیا۔ بھارت نے مشروط الحاق سے مکمل انضمام کی طرف مارچ کیا۔ بتایا گیا کہ اس انضمام سے کشمیریوں کو بھارتی شہریوں کے برابر حقوق ملیں گے۔ وہ جمہوریت کے پھل کا پوری طرح لطف اٹھا سکیں گے۔ مگر شہریوں کو گھیر کر اور سول سوسائٹی کے ساتھ دشمنوں جیسا سلوک کرکے کس طرح کی جمہوریت لائی جا رہی ہے؟ حقوق انسانی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ کارکن خرم پرویز کو نومبر 2021 کو انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا۔ کشمیر ٹائمز کی مدیر کے بقول ان کی گرفتاری سے ٹھیک ایک ماہ قبل انہوں نے سری نگر میں ان کے دفتر میں دو گھنٹے گزارے۔ خرم نے ان سے کہا کہ صورتحال تشویشناک ہے ۔ لوگوں پر خاموشی طاری کر دی گئی ہے ۔وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود سول سوسائٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر وہ کوئی راستہ تلاش کرنے کو کوشش کر رہے تھے ۔یہ راستہ انکی گرفتاری کے بعد بند ہو گیا۔

ویسے تو پچھلے ستر سالوں میں، جموں و کشمیر کی خودمختاری اور جمہوریت پر دیگر حکومتوں کے دور میں بھی کاری وار کئے گئے ہیں مگر موجودہ اقدامات سے کشمیر کے مسئلہ کے دیرپا اور پر امن طور پر حل کرنے کے راستے مسدود ہو گئے ہیں۔ اس تنازعہ کے ایک فریق یعنی کشمیریوں کو مکھن میںپڑے بال کی طرح باہر نکال دیا گیا ہے۔ ان کی اب کوئی حیثیت باقی نہیں رہ گئی ۔ لگ بھگ 334 ریاستی قوانین میں سے 164 قوانین کو منسوخ کر دیا گیا ہے اور 167 قوانین کو بھارتی آئین کے مطابق ڈھال لیا گیا ہے۔ مزید 800نئے قوانین نافذ کئے گئے ہیں۔ ان قوانین نے مقامی آبادی کو حقوق بخشنے کے بجائے مزید بے اختیار کر دیا ہے۔ نہ صرف حق رائے دہی سے محرومی بلکہ شہری و سیاسی آزادیوںکو سلب کرنے اور آبادیاتی تبدیلی کیلئے زمین ہموار ہو رہی ہے۔ ہندو اکثریتی جموں میںبھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی خوشیاں منا رہے تھے۔ سوشل میڈیا پر بتایا جا رہا تھا کہ ’’اب کشمیریوں کو سبق سکھا دیا گیا ہے۔ اب ہم بھی ڈل جھیل کے کنارے زمین خریدیں گے۔‘‘ نفرت اور جہالت کا ایک طوفان برپا تھا۔

ان اقدامات کے دور رس اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ، کتاب میں بتایا گیا ہے کہ خود ہندو اکثریتی جموں اور لداخ کے بدھ اکثریتی لیہہ ضلع میں ، جہاں ریاست کے دولخت ہونے اور بھارت میں ضم کرنے پر خوشیاں منائی گئی تھیں ، اب یہ احساس گھر کر رہا ہے کہ وہ ایک بڑے نقصان کے طرف گامزن ہیں۔ جموں کے کاروباری طبقہ کو اب بھارت کے کارپوریٹ کے ساتھ مسابقت کرنی پڑ رہی ہے۔ دوسری طرف بدھ آبادی ، جو پہلے ہی قلیل تعداد میں ہے ،کو شناخت کا مسئلہ درپیش ہے۔ اس خطے میں اب چین ، بھارت کے لئے ایک واضح خطرہ کے طور پر ابھر آیا ہے، جس کا علاج فی الحال بھارت کے پاس نہیں ہے۔ چین کے ساتھ سرحدی تنازعات کبھی بھی بے قابو ہو سکتے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر کے اندر مایوسی اور خوف کاعنصر مقامی آبادی کو کسی بھی انتہا تک لے جانے کا موجب بن سکتا ہے۔خاموشی ایک طوفان کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے۔ پورے خطہ کو ایک آتش فشاں کے اوپر بٹھادیا گیا ہے، جو مختلف شکلوں اور مختلف آوازوں کے ساتھ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

انورادھا خبردار کرتی ہیں کہ بھارتی حکومت کی موجودہ کشمیر اور خارجہ پالیسی خطے کیلئے نہایت خطرناک رجحانات کی حامل ہے۔ مواصلات پر پابندی کی وجہ سے کشمیر میں میڈیا پر بھی عملی طور پابندی لگائی گئی تھی۔انورادھا نے 10 اگست کومعروف وکیل ورندا گروور کے ساتھ پٹیشن تیار کرکے اسکو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ کشمیر میڈیا کی طویل خاموشی نے بھی ایک آزاد اور خودمختار میڈیا کے مستقبل کے امکانات کے بارے میں خوف اور خدشات کو جنم دیاتھا۔ ایک میڈیا پروفیشنل کی حیثیت سے، کشمیر ٹائمز کے سب سے سینئر ایڈیٹرز میں سے ایک کے طور پر،اس پر آواز اٹھانا ان کے فرائض میں شامل تھا۔ انہوں نے استدعا کی تھی کہ پریس اور میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے انٹرنیٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن سروسز اور فوٹو جرنلسٹ اور رپورٹرز کی نقل و حرکت پر عائد سخت پابندیوں میں فوری نرمی کی جائے۔ٹھیک پانچ ماہ بعد، 10 جنوری 2020 کو، عدالت نے کہا کہ حکومت طویل عرصے تک انٹرنیٹ یا لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں نہیں لگا سکتی۔ اس کے علاوہ اس نے کہا کہ ان حقوق کو عارضی طور پر چھیننے کے لیے درست وجوہات کو پبلک ڈومین میں لانا ہو گا۔ یہ سب کچھ بتانے کے باوجود عدالت نے فوری طور پر پابندیوں کو واپس لینے کا حکم نہیں دیا۔ اس نے جموں و کشمیر حکومت سے کہا کہ وہ سات دنوں کے اندر پابندیوں کو کم کرنے کے لیے ایک ‘جائزہ کمیٹی’ قائم کرے۔حکومت نے میڈیا کیلئے عارضی طور پر فیسیلیٹیشن سینٹر (MFC) ہا ئی سیکورٹی زون میں ایک ہوٹل کے تہہ خانے میںقائم کیا ، جس کی کڑی نگرانی کی جاتی تھی۔ بس یہی ایک جگہ تھی، جہاں باہر فون کیا جاسکتا تھا۔ دو سو سے زیادہ صحافی تین کمپیوٹرز اور فون استعمال کرتے تھے۔

3 فروری 2021 کوجموں و کشمیر پولیس نے انٹرنیٹ پر رضاکاروں کے طور پر ایک نجی فورس تشکیل دی، جو انٹرنیٹ پر نظر رکھ کر پولیس کو رپورٹ کرینگے۔ یہ ایک طرح سے سویلین ملیشیا کا قیام تھا، جس طرح نوے کی دہائی میں اخوان کے نام سے عسکریت پسندوں سے نپٹنے کیلئے احتساب اور جوابدہی سے مبرا ایک غیر سرکاری فورس ترتیب دی گئی تھی۔بس ان کے ہاتھ میں بندوق کے بجائے کمپیوٹر اور فون دیا گیا۔ ایک صحافی کی حیثیت سے انورادھا بتا رہی ہیں کہ بھارت کے مین سٹریم میڈیا کا رول اس دورا ن نہایت ہی بدبختانہ رہا۔ جمہوریت کے ایک ستون کا کردار نبھانے کے بجائے اس میڈیا نے ہندوتوا کے خانے میں رنگ بھر کر کشمیریوں کی زندگیا ں مزید اجیرن بنادیں۔

مواصلاتی پابندیوں سے عوام کو ہراساں و پریشان کردیا گیا۔ کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گاؤں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و لینڈ فون بند تھے۔ بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کیلئے ان کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ پولیس اہلکاروں نے تحصیلدار تک پیغام پہنچانے کیلئے ان کوا پنے وائرلیس سیٹ کا استعمال کرنے تو دیا مگر کوئی مدد نہیں آئی۔ آخر کار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر 2019کو راجوری پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔ اسی ضلع کے تھانمنڈی کے ایک اور سرپنچ نے بتایا کہ لاک ڈاؤن شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد فوج اور پولیس نے بافلیاز گاؤں میں چھاپے مارے، گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کی اور لوگوں کو مارا پیٹا۔ فون ، انٹرنیٹ، ٹی وی وغیرہ بند ہونے کی صورت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

انو رادھا کے مطابق کشمیر میں ہر دور میں ہی کٹھ پتلی حکومتیں رہی ہیں، جو نئی دہلی کے اشاروں پر کام کر تی تھیں۔ بھارت نے توکشمیر کے سب سے بڑے لیڈرشیخ عبداللہ تک کو نہیں چھوڑا۔ قید و بند کی زندگی گزارنے کے باوجود انہوں نے آخری ماہ و سال نئی دہلی کی چھتر چھایا میں گزارکر اقتدار سنبھالا مگر اس کے باوجود ان مقامی سیاستدانوں کو چند آزادیاں مہیا تھیں اور ایک سرخ لکیر تھی، جس کو نئی دہلی کے حکمرانوں کو عبور کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ 5 اگست کو یہ لکیر روند دی گئی اور اس وقت ان سیاستدانوں کی حالت سب سے قابل رحم ہے۔ یہ واضح ہو گیا ہے کہ مرکز میں حکمران بی جے پی مسلم اکثریتی خطہ کو کنٹرول کرنے اور اس پر حکومت کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔اس کے لئے مسلم لیڈروں کو منقسم رکھنا ہے، کشمیری سیاست دانوں کو گڈے گڑیا کے طور پر کام کرنا ہے۔ کسی کو مراعات دیکر ، کسی کو تعدیب کا نشانہ بناکر ، تو کسی کو بے عزت کرکے بی جے پی کیلئے اقتدار کا راستہ صاف کرنا ہے۔ 2018میں جب دو مقامی پارٹیاں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بی جے پی کو اقتدار سے باہر رکھنے کیلئے ہاتھ ملایا اور حکومت سازی کیلئے دعوی ٰ پیش کیاتو گورنر ستیہ پال ملک نے بتایا : چونکہ کوئی دعویٰ نہیں آیا، اس لئے وہ گورنر راج نافذ کررہے ہیں۔ بعد میں انہوں نے اسمبلی ہی تحلیل کر دی۔ جب ان کو بتایا گیا کہ محبوبہ مفتی نے اراکین اسمبلی کی اکثریت کے دستخطوں پر مشتمل خط ان کو بھیجا تھا، تو ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے دفتر کی فیکس مشین خراب تھی اسلئے حکومت سازی کے دعویٰ کا خط ا ن کو مل نہیں سکا۔

دفعہ 370 کے خاتمہ کے دو ماہ بعد ہی کم از کم 7.27 مربع کلومیٹر کا جنگل کا رقبہ فوج کے حوالے کر دیا گیا اور 1,800 سے زیادہ درختوں کی کٹائی کی منظوری دی گئی۔ 26 جولائی 2020 کو جموں و کشمیر کی انتظامی کونسل نے مزید دو ترامیم کرنے کی منظوری دی تھی۔ جموں و کشمیر کے کسی بھی علاقے کو ‘اسٹریٹجک ایریاز’ کے طور پر ڈیکلیر کیا جاسکتا ہے، جہاں مسلح افواج بلا روک ٹوک تعمیرات اور دیگر متعلقہ سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ مئی 2020 کو سری نگر سے تقریباً 26 کلومیٹر دور پٹن میں بھارتی فوج کی ایک یونٹ نے 129 کنال اراضی پر قبضہ جمالیا۔ پہلے پانچ مہینوں کے اندر ہی بڑے پیمانے پر زمین کی تلاش کی مشق میں، جموں و کشمیر حکومت نے صنعتی انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے کشمیر کے علاقے میں 203,020 ایکڑ سرکاری اراضی میں سے 15,000 ایکڑ کی نشاندہی کی۔ حکام کے مطابق اس زمین کا زیادہ تر حصہ ماحولیاتی طور پر حساس ہے کیونکہ یہ یا تو دریاؤں، ندیوں اور دیگر آبی ذخائر کا حصہ ہے یا اس کے قریب ہے۔ جموں میں ترقی کے لیے 42,000 ایکڑ سرکاری اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر حکومت کی فاریسٹ ایڈوائزری کمیٹی نے 727 ہیکٹر (1,780 ایکڑ) سے زیادہ جنگلاتی اراضی کو تبدیل کرنے کی منظوری دی ہے۔ اس نے نامزد جنگلاتی علاقوں اور سوشل فارسٹ کے علاقوں میں کم از کم 1,847 درختوں کی کٹائی کی بھی منظوری دی ہے ۔ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اس طرح کے منصوبوں کے لیے جلد بازی سے منظوری کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان میں سے 198 منصوبوں کو 18 ستمبر سے 21 اکتوبر 2019 تک تینتیس دنوں کے دوران چار اجلاسوں میں منظور کیا گیا۔

12ابواب پر مشتمل 400صفحات کی یہ کتاب، جو بین الاقوامی اشاعتی ادارے ہارپر کولنس نے شائع کی ہے، صحافیوں اور کشمیر پر تحقیقی اور مطالعاتی کام کرنے والوں کیلئے ایک نہایت ہی عمدہ گائڈ ہے۔ نہایت ہی سشتہ صحافتی زبان میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔

اس کتاب میں بھارت کے سیکولر اور لبرل طبقہ کو مخاطب کرکے ان کو خبردار کیا گیا ہے کہ موجودہ بی جے پی حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اسکو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ ، گلی گلی بھارت کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائینگے۔ کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی ، جس کے ذریعے اکثریتی آبادی کو بے وقعت کرنے کا سامان کیا گیا، اب آسام میں دہرایا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ جموں و کشمیر کے بعد تناسب کے اعتبار سے سب سے بڑی مسلم آبادی یعنی 34فیصد آسام میں ہی ہے۔ اسی طرح کشمیر میں مقامی آبادی کو زمینوں سے بے دخل کرنے کا تجربہ اب بحیرہ عرب میں لکشدیب جزائر میں دہرایا جا رہا ہے، جہاں کے مسلم قبائلیوں کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔

کشمیر پر مودی حکومت کے اقدامات کے ایک د ن بعد یعنی 6اگست 2019 کو معروف کالم نویس پرتاپ بانو مہتہ نے انڈین ایکسپریس میں لکھا تھا کہ بی جے پی کو لگتا ہے کہ اس کے قدم سے کشمیر کا ’’بھارتیہ کرن‘‘ ہوگا، مگر یہ وقت ہی بتائے گا کہ کہیں یہ قدم بھارت کے’’ کشمیر کرن ‘‘کرنے کا سبب تو نہیں بنے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

بھارت کے باضمیر افراد کیلئے یہ ایک بڑا سوال ہے کہ مودی حکومت نے تو کشمیر میں قبرستان کی خاموشی طاری کر دی ہے، وہ کب اپنی خاموشی توڑ دیں گے یا اپنی باری کا انتظار کریں گے۔ اگر اب بھی نہ جاگے تو یادرکھیں، وہ جرمن پادری مارٹن نیومولر کی اس نظم کی عملی تفسیر بن جائینگے۔۔
پہلے وہ سوشلسٹوں کے لیے آئے،
اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔
کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔
پھر وہ ٹریڈ یونینوں کے لیے آئے،
اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔
کیونکہ میں ٹریڈ یونینسٹ نہیں تھا۔
پھر وہ یہودیوں کے لیے آئے،
اور میں نے کوئی بات نہیں کی۔
کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔
پھر وہ میرے لیے آئے —
اور میرے لیے بولنے کے لیے کوئی بچا نہیں تھا۔
بشکریہ فیسبک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply