• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نوجوانوں میں انتہا پسندی کا رجحان، اسباب اور سدباب۔اعزاز کیانی

نوجوانوں میں انتہا پسندی کا رجحان، اسباب اور سدباب۔اعزاز کیانی

دہشتگردی  پاکستان کے لیے کوئی نیا چیلنج نہیں ہے  بلکہ پاکستانی قوم سالوں سے دہشت گردی سے نبردآزما ہے ۔ پاکستان نے ہزاروں جانوں کی قربانی دی ہے جس میں  نہ صرف ایک قابل ذکر تعداد سکیورٹی اداروں کے اہلکار وں اور افسران کی ہے بلکہ کئی دوسرے اہم عہدے دار وں یہاں تک کہ سیاست دانوں   کی زندگیاں بھی  دہشت گردی کی نذر ہوئی ہیں  ۔الغرض پاکستانی عوام کا ہر طبقہ دہشت گردی سے متاثر ہوا ہے۔لیکن اس وقت دہشت گردی سے متعلق جس نئی تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ یقیناً   قابل توجہ امر ہے ۔ دہشت گردوں کی طرف سے نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کرنا  حیرت کی بات نہیں ہے بلکہ فی الواقع نوجوانوں اور بالخصوص طلباء کا  دہشت گردوں سے متاثر ہونا اور ان کا آلہ کار بن   جانا قابل حیرت بھی ہے اور اصل مسئلہ  بھی ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  نوجوانوں میں شدت پسندی اور انتہاپسندی کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کے آخر   حقیقی اسباب کیا ہیں ؟میرے نزدیک اس بڑھتے رحجان کے تین اسباب ہیں :

اول۔ ہمارا نصاب تعلیم ،

دوم۔ تربیت کا فقدان

سوم ۔ہمارا مجموعی نظام ریاست

دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کی جانب سے بالعموم عوام اور بالخصوص نوجوانوں کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے جس چیز کو سب سے موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے وہ بلا شک و شبہ مذہب ہے اور ہمارے تعلیم نصاب میں اسی کے متعلق  عدم توجہی  بھی برتی جا رہی ہے اور اسی کے متعلق تعلیم  کا  بھی فقدان ہے ۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے لیے  تعلیمی اداروں میں  اسلامی تعلیم کا کوئی  انتظام نہیں ہے بلکہ ہمارے نظام تعلیم میں سے اسلامی تعلیمات  مزید گھٹتی  ہی چلی جا رہی ہیں  اور اسلامی مضامین میں شامل موضوعات اول تو خود محدود ہیں اور  پھر ان محدود موضوعات کا بیان بھی  اجمالی ہے ۔تعلیمی اداروں کی اس کمی کو پورا کرنے کی صورت تو یہ تھی  نوجوانوں کے لیے گھر  میں  اسلامی تعلیم کا کوئی مناسب بندوبست ہوتا  لیکن افسوس کہ گھریلو درسگاہوں کا حال بھی کمرشل درسگاہوں سے کچھ مختلف نہیں ہے ۔ یوں آج کی نوجوان نسل     دنیاوی تعلیمی درسگاہوں کے طلباء اسلام کی اصل تعلیمات  اور اسلام کے  حقیقی تصور سے ہی مکمل بے خبر ہو چکے ہیں چنانچہ اس حالت میں ان کے سامنے اسلام کی جو بھی  تعبیر پیش کی جاتی ہے  وہ اسی کو اسلام کی اصل تعبیر سمجھ بیٹھتے ہیں اور ان تنظیوںکا آلاءکار بنتے چلے جاتے ہیں ۔

میرے نزدیک عوام کی  تربیت اور اصلاح کی اصل ذمہ  داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ  وہ تعلیمی اداروں ، میڈیا  اور دوسرے تمام ذرائع کو پابند کرے کہ  وہ عوام کی تربیت ، اصلاح ، راہنمائی اور تعمیر کو  ترجیحات میں شامل کریں  لیکن افسوس  کہ  قومی تربیت  کبھی ریاست کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہی ہے۔ریاست کی غفلت کی صورت میں یہ بار خود بخود میڈیا اور تعلیمی اداروں کے کندھوں پر آتا ہے  لیکن   یہاں بھی کوئی یہ زحمت  گوارا کرنے کو  تیار  نہیں  ۔ ہمارے تعلیمی ادارے جو ماہانہ لاکھوں روپے  طلباء سے تعلیم اور تربیت کے نام پر  وصول کرتے ہیں  وہاں بھی طلباء کی حقیقی تربیت کی جانب کوئی توجہ نہیں ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیوں  کے نام  پر اخلاقیات ،اسلامی اقدار  کو پامال کیا جا رہا ہے ، فحاشی  اور منشیات کو  فروغ دیا جا رہا ہے ، پارٹیاں اور کھیلوں کے مقابلے تو منعقد کیے جا رہے ہیں  لیکن حقیقی  تربیت کی جانب کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔   تعلیمی اداروں کی عمارتوں کے نام  بلکہ یونیورسٹیوں کے نام تک تاریخی اشخاص کے نام پر رکھے جاتے ہیں مگر آج تک ان میں اس پائے کا کوئی شخص تو دور حقیقی معنوں میں ان کا کوئی جانشین   بھی پیدا نہیں ہو سکا ۔

میڈیا   جو اس دور میں قوم کے سب سے بڑا  خادم ہونے کا   دعوے دار ہے وہاں  بھی قومی تربیت کاکوئی سامان موجود نہیں ۔میڈیا  قومی تربیت میں نہایت موثر کردار ادا کر سکتا تھا   مگروہ آج کی دنیا میں ایک منی سینما   بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو میڈیا  پر اسلام محرم، رمضان ، حج اور چند دوسرے گنے چنے ایام تک محدود ہو کر رہ گیا ہے اور ان دنوں کے علاوہ اگر اسلام کا کہیں تذکرہ کیا  بھی جاتا ہے تو وہ بھی فقط موضوع بحث کے طورپر۔  میڈیا اور تعلیمی اداروں کے علاوہ عوام کی تربیت کی ذمہ داری سیاسی جماعتوں پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ہاں سیاست  اقتدارحصول  کی جدوجہد کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے ۔

تعلیمی نصاب کے خلا کو پُر کرنے کا بہترین ذریعہ  تربیت تھی  لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم اس میدان  میں بھی ناکام ہیں ۔اب ذرا غور کیجیے  کہ جب اتنے سارے ذمہ داران اپنی حقیقی ذمہ داریوں سے غافل ہوں بلکہ وہ خود ہی الٹے راستوں کے راہی ہو ں تو وہاں نوجوانوں کا ریت کے کسی چمکتے ٹیلے کو پانی سمجھ کر اس کی طرف  لپکے جانا  کچھ عجب  نہیں ہے۔ اگر ریاست کے مجموعی نظام کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا ، جس کاریاستی مذہب اسلام ہے  اور جس کی ہر فوجی و سول تقریب میں اس جملے کی  مسلسل تکرار کی جارہی ہو کہ پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی جائے  گی    وہاں حقیقت میں اسلام کے نفاذ کی آج تک کوئی سرکاری  کوشش ہی نہیں کی گئی بلکہ ریاست کو سکیولر اور لبرل ریاست بنانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ۔

اگر معاشرے کا تجزیہ کیا جائے تو معاشرے میں ایسے لوگوں کی ایک واضح اکثریت پائی جاتی ہے جو  مغربی سحر میں گرفتار  روشن خیالی اور آزاد خیالی کے نام پر سرے سے مذہب کے وجود اور بالخصوص اسلام کے وجود کے ہی منکر ہیں یا  اسلام سے عدم شناسائی کی وجہ سے اسلام دشمنی   کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔چنانچہ ریاست کے مجموعی نظام اور افراد  کے ان گروہوں نے اسلام کو اپنے ہی ملک میں حالی کی اصطلاح میں غریب الوطن  اور اقبال کی اصطلاح میں محبوس  کردیا ہے ۔اب ذرا انصاف کا دامن تھام  کر فیصلہ کیجئیے کہ اس حالت میں سلام کے ساتھ لگاؤ رکھنے والا شخص   کسی غلط تعبیر کا  اگر قائل ہو جاتا ہے تو کیا اس  میں ہماری خامیوں کا کوئی دخل نہیں ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  اس بڑھتے رجحان کا سدباب کس طرح ممکن ہے ؟

دہشت گردی کے خاتمے کی بہترین عملی صورت تو یہ کہ نصاب تعلیم میں اورنظام تعلیم میں تبدیلیاں   لائی جائیں ۔اسلامیات کے مضمون کو ازسرے نو مرتب کیا جائے ، اسلام کی تمام بنیادی تعلیمات، احکام  اور اسلام کی تاریخ کوشامل نصاب کیا جائے  مثلا جہاد  کیا ہے ،، جہاد کرنے کا حق کس کو حاصل ہے ، جہاد کن کن صورتوں میں اور کن کن کے خلاف کیا جا سکتا ہے ، دوران جہاد  کیا احکام ہیں ، جہاد اور دہشتگردی میں کیا فرق ہے وغیرہ اور اسی طرح دوسرے تمام موضوعات کو بھی اپنے تمام تر لوازمات  اور متقاضیات کے ساتھ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے، اسلام کی تاریخ کو  خالص اسلامی اصولوں ، عہد خلفاء راشدین اور عہد صحابہ  سے بیان کیا جائےاور اسلامیات کے مضمون کوتمام  درجوں کے طلباء کے لیے لازم کیا جائے، تاکہ نوجوانوں کے اذہان میں اسلام کا صحیح  تصور  بھی واضح ہو اور ان کے سامنے اسلام کی حقیقی تعبیر پیش کی جاسکے۔ ملک بھر سے تمام غیر رجسٹر  مدارس   کو اول تو رجسٹر کیا جائے  اور اگر وہ رجسٹریشن کے معیار پر پورا نہیں اترتے تو ایسے تمام مدارس کو  بند کر دیا جائے ۔

نصاب تعلیم اور مدارس  میں  یہ اصلاحات دراصل پہلی منزل ہیں   جن کا ہم سے وقت اور حالات  فوری مطالبہ کر رہے ہیں ۔وگرنہ میری رائے میں تعلیم کا بہترین نظام یہ  ہے کہ

تعلیم کی تمام ذمہ  داری ریاست پر ہو پرائیوٹ تعلیمی اداروں کا خاتمہ کر دیا جائے،تعلیمی اداروں کی تقسیم ( دینی و عصری )   کو ختم کر دیا جائے ،ملک میں ایک ہی جامع  تعلیمی نظام    رائج ہو جو   بہ یک وقت عصری بھی ہو  اوردینی بھی،یعنی ملک بھر کے سکولوں میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ وہی ادارے دینی تعلیم بھی فراہم کریں   ،ملک بھر کے   کالجوں اور  جامعات میں  عصری تعلیم کے شعبوں کے ساتھ اسلامی تعلیم کے الگ شعبے قائم کیے جائیں۔

طلباء اپنے  شعبوں کا  جن میں  وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہیں  اپنی مرضی سے انتخاب  کریں لیکن اسلامی شعبوں  میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو عصری تعلیم کے دیگر ضروری مضامین بھی پڑھائے جائیں اور اسی طرح  عصری شعبوں میں اعلیٰ تعلیم  حاصل کرنے والے طلباء کو دینیات کے بنیادی مضامین لازمی پڑھائے جائیں ۔ملک میں عوام اور  خاص طور پر  نوجوانوں کے لیے تربیت کا مناسب بندوبست کیا جائے جس کا انتظام نہ صرف تعلیمی اداروں   اور میڈیا میں ہو بلکہ دوسری تقریبات  کو  بھی اس کا ذریعہ بنایا جائے۔
ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ تو ظاہر ہے کہ ایک دن میں نہیں ہو سکتا  لیکن   عملاً   اقدامات  کیے  جاسکتے ہیں    اور اپنی نیک نیتی کا اظہار اور کاوشوں سے عوام کو   مطمئن کیا جا سکتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوجوانوں میں  دہشتگردی اور انتہاپسندی کے بڑھتے رجحانات کا اگر  درست  احساس نہیں کیا جاتا اور اس کے سدباب کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے جاتے تو  ہم نہ صرف اپنی موجودہ نسل  بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی تباہ کر رہے ہیں ۔اگر بروقت عملی اقدامات نہیں کیے جاتے تو  وہ نسل جس کے ہاتھوں میں   ملک کی باگ دوڑ  جانے والی ہے ان کے ہاتھوں میں اسلحہ ہوگا ،  وہ اذہان جن پر مستقبل میں ملکی فیصلوں کا بھار   آنے والا ا ن کے اذہان میں دشمن کی عطا کردہ چالیں اور ترکیبیں ہوں گی اور وہ  کندھے جن پر ملک کے مجموعی نظام کا بوجھ آنے والا ہے ان پر بندوقیں  لٹک رہی ہوں گی۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply