ترقی کے خواب دیکهنے سے پہلے نظریات طے کریں

جن پیارے ہم وطنوں کا خیال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کارکردگی کے باعث سیاسی میدان سے آوٹ ہو چکی ہے انہیں اپنے خیالات پہ نظر ثانی کر لینی چاہیے
کارکردگی بہت بعد میں آتی ہے ابهی تک تو اسٹیبلشمنٹ سے جنگ میں ہراول دستے کا کردار نبهایا جا رہا تها نظریات طے ہو رہے تهے جن پہ سوسائٹی کی بنیاد رکھنی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی ملائیت پرست پالیسی سے معاشره تهک کے چور ہو چکا اور اب بستر مرگ پہ ہے۔ اب پیپلزپارٹی کی قیادت میں لبرل قوتوں کے اسٹیئرنگ سنبهالنے کے دن ہیں جو نئے سرے سے سماج کا رخ متعین کریں گی
یاد رہے کسی بهی معاشرے کی بنیاد رکهنے میں نظریات سب سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشرے کی بنیاد درست ہو تو باقی سب ترقی کے اعشاریے خودبخود بہتر ہونے لگتے ہیں وگرنہ ترقی عارضی ثابت ہوتی ہے کهوکهلے جسم کی مانند جسکے اندر روح نہیں ہوتی مگر دیکهنے میں خوشنما لگتا ہے ۔
سیاست کے دور جدید میں جو مشاہده تاریخ نے ہم تک تواتر سے پہنچایا ہے وه یہ ہے کہ ریاست کی نظریاتی شکل طے ہونا ضروری ہے ۔یعنی ریاست اپنی شہریت کے اصول طے کرے گی کہ آیا وه سب شہریوں کو بلا تفریق رنگ ونسل و مذہب برابری کی بنیاد پر دیکھتی ہے یا مذہب کے نام پر فرق روا رکھتی ہے اور جو سبق عہد حاضر کے سیاسی امام مغرب نے اپنے تجربات سے سیکھ کر ہم تک پہنچایا ہے وه ہے ۔جدید تصور ریاست میں مذہب کی ریاست سے علیحدگی کا ناگزیر ہونا ۔ریاست کن بنیادوں پر قائم ہونی چاہیے ؟ کامیاب مثال کے لیے دور جدید میں ہم چند بنیادی قدروں کا ذکر کر سکتے ہیں مثلاً ۔جمہوریت ،آزادی اظہار ،سیکولرازم ۔
پہلی دو قدریں کسی نا کسی شکل میں ہمارے یہاں آزادی کے بعد بهلے کمزور ہوں یا طاقتور موجود رہی ہیں ہم اسلامی دنیا کے ان دو تین خوش قسمت ممالک میں سے ہیں جو جدید تصور سیاست کی ان دو قدروں سے کسی قدر آشنا ہیں اور تیسری کے لیے لڑائی جاری ہے اسی پیمانے پر باقی اسلامی ممالک کو پرکھ لیں ۔ترکی تیسری قدر سیکولرازم سے بہت عرصہ پہلے کمال اتا ترک کے دور میں آشنا ہو چکا تها جو مذہبی پیشوائیت کی وجہ سے مغرب سے جو اسکا پرانا حریف تها سے بچھڑنے کے احساس کی وجہ سے جنم لیتا ردعمل تها ۔کسی عوامی مکالمے کے نتیجے میں جنم لیتی سوچی سمجھی تحریک نہیں تها ۔مگر ترکی تاریخ کی اس کروٹ کیوجہ سے اس اہم سماجی قدر سے شناسا ہو گیا۔ البته پہلی اور دوسری قدر کے معاملے میں اسےپچھلی ایک دو دہائیوں میں کہیں جزوی کہیں مکمل کامیابی ملی ہے۔ ملائیشیا ان سب قدروں سے کافی حد تک آشنا ہو چکا ہے۔ مصر صرف جمہوریت کا ہلکا سا مزا چکھ پایا ہے باقی مسلم دنیا یمن، انڈونیشیا جیسی اکا دکا مثال کو چهوڑ کر جدید تصور ریاست و سیاست سے بہت دور ہے۔ وسط ایشیائی ریاستیں کمیونزم کے اثرات سے نکلنے میں وقت لے رہی ہیں۔ انکے بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے ۔
جمہوریت و اظہارِ رائے کی آزادی کو چھوڑ کر سیکولرازم کے لیے انکے ہاں گراؤنڈ تیار ہے ۔مگر پہلی دو قدروں کے نا ہونے سے تیسری قدر اپنا مکمل فائده ریاست کے عوام تک منتقل نہیں کر پاتی اور یہی خلا وسط ایشیا کو متاثر کر رہا ہے مگر یہ عجب نہیں ہے ۔ایک نظام سے دوسرے نظام تک مکمل منتقلی وقت لیتی ہے ۔خطہ پاکستان انگریز کی برکت سے ان قدروں سے آشنا ہو چکا تها مگر یہاں عجیب قضیہ یہ ہے کہ ان تین لازمی قدروں میں سے تیسری قدر اس مملکت کے قیام کی بنیادی وجہ کی ضد ہے۔ یہ ملک مذہب کے نام پہ تشکیل پایا ہے یا یوں کہہ لیں کہ ایک ایسا مضبوط طبقه ملک میں موجود ہے جو مذہب کو ملک پاکستان کے قیام کی وجہ سمجهتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ و مذہبی جماعتوں کو ڈهال بنا کر جمہور کی رائے معلوم کیے بغیر ملکی آئین میں مذہب داخل کر چکا اور اپنے مخالفین جو سیکولر لبرل بیانیے کے علمبردار ہیں انہیں جبراً اپنی رائے عوام تک پہنچانے سے روکتے ہوئے اپنا بیانیہ نافذ کر چکا ہے۔
یہاں یہ سوال اٹهایا جائے گا کہ بهٹو صاحب کی جماعت جو ،اس وقت لبرل سیکولر بیانیے کی علمبردار ہے وہی تو ملکی آئین میں مذہب کے داخلے کی وجہ بنی تهی ،جواب یہ ہے کہ بهٹو صاحب کو اسٹیبلشمنٹ جو بزعم خود نظریہ پاکستان کی محافظ بنی ہوئی تهی اور مذہبی جماعتوں کی پشت پناہی کر رہی تهی کی طاقت دیکهتے ہوئے اس کام پہ مصلحتاً راضی ہونا پڑا ،وگرنہ آئین کی منظوری ناممکن ہو جاتی جب کہ ان طاقتوں نے اس سب کے باوجود انہیں معاف نہیں کیا اور پهانسی کے پهندے تک پہنچا کر دم لیا ۔مذہبی بیانیے کے بد اثرات ملک کو دہشت گردی کی خوفناک لپیٹ میں لے کر اب واپسی کی راه دکها رہے ہیں اور یہی وه وقت ہے کہ اب ہمیں سیکولرازم کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنے کا رستہ مل رہا ہے ۔قصہ مختصر ہمارا قضیہ تیسری قدر ہے جو کہ بہت اہم ہے کہ ہم پہلی دو کی تاریخ رکهتے ہوئے صرف اسی وجہ سے ناکام رہے۔ اب وقت ہے کہ سب لبرل سیکولر قوتیں یکجان ہو کر اس کے لیے کام کریں۔

Facebook Comments

کاشف حسین
بزنس مین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply