نذر غالب- نظم آنند -۱۰

ما ہمہ عین خودیم ا ما خود از وہمِ دوئی
درمیانِ ما و غالب،ؔ ما و غالبؔ حائل است
۰۰۰۰۰۰
میں کہ غالب کا ہی اصلی روپ تھا
اس کے زمانے سے بھی ابداً پیشتر
پیدا ہوا تھا
تھا تو شاعرایک ا پل چھن کا مگر
ابتدائے لا زماں سے
آج کے ظرفِ زماں تک
پوچھتا پھرتا تھا کہ آخر کون ہوں میں
’’میں‘‘ کہ فردیت میں اپنی ایک ہوں
از خود ہوں ، یکتا اور یگانہ!
ایک ہوں ، تو
اس تداول میں بھلا ہم جوع ہے وہ کون میرا
جو مری رگ رگ میں ، میرے خون کی ہر بوند میں
سب مانس پٹھوں میں شریکِ باہمی ہے
میری خوشیوں میں وہ ساجھی دار
میرے رنج میں اک مونس و غمخوار … آخر کون ہے یہ دوسرا؟
تولید کے دن سے برابر، جس سے میں
ٹانکا ہواہوں ؟

خود ہی ہوں خود سے سوالی
اور خود ہی یہ جوابِ استخارہ
بوجھ لیتا ہے پہیلی!

Advertisements
julia rana solicitors

’’دوسرا کوئی عجیب الخلق عجبک تو نہیں ہے
انسجامی ’عین‘ ہی ہے، لابدی ہے
ہاں، وہی ہے
جس کی ’’اپنی‘‘ آنکھ اپنے ہی خمیرِ ِ تولیت میں دیکھتی ہے
یعنی …جزو لاینفک ہی ہے تمہارا
تم، کہ ’مُیں‘ ہو
اور اپنی عینیت ، یعنی انا میں قید ہو پردے کے پیچھے
اور یہ پردہ وہی ہے ’عین‘ غالب
جو تمہاری راہ میں حائل ہے تو پھر
کس طرح دیکھو گے اس کا کل سراپا، کل حقیقت ؟
قطعیت غالبؔ کی …جو اُس پار ہے ، اس تک پہنچنے کے لیے
راستے میں( ’دوئی‘ کی صورت میں) غالب کی ہی
اپنی عینیت حائل ہے…
…اس سے بچ اگر سکتے ہو تو کوشش کرو
اور پار پہنچو!
…………………………………………………………………………………………………………………………………..
نوٹ۔ ایک
یہ شعر غالب کے غمکینؔ کے نام تحریر کردہ دس مکتوبات کی نفری(دیکھیں: پرتو روہیلہ ’’غالب کے غیر مدوّن فارسی مکتوبات‘‘(2013ء) (صفحہ 21) کے خط نمبر ۲ سے لیا گیا ہے۔
شعر کا آزاد ترجمہ ان الفاظ میں کیا جا سکتا ہے۔ ’’ہم اپنے آپ کا ہی ’عین‘ ہیں، لیکن دوئی کے وہم میں پڑے ہوئے ہیں اور اسی لیے
ہمارے اور غالبؔ کے درمیاں ہم اور غالبؔ آ دھمکے ہیں۔ (یعنی خود کو پہچاننے میں ہم خود ہی حائل ہیں)‘‘
نوٹ ۔۲۔ یہ شعر تحریر میں لانے کے بعد غالب رقمطراز ہیں۔ ’’غرضیکہ ہر قسم کے ذکر و فکر و (جذبہ) اشتیاق کے بعد اس خاکسار کے دل کو تو حضرت محی الدیں ابن عربی کے ایک فقرہ نے موہ لیا ہے اور وہ ہے۔ ’’الحق محسوس‘‘ و ’’الحق معقول‘‘ اور مخلوق عالمِ زمیں سے آسمان تک (ہیں) اور احدیت کی کیفیت کے علاوہ جو بھی تصور کریں وہ سب تعلقِ محض ہے۔ ‘‘(ترجمہ پرتو روہیلہ)(صفحہ 2
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply