زرداری پر ایمانداری کا کوئی الزام نہیں

ضیا الحق نے جب یہ دیکھا کہ پیپلز پارٹی کے بانی اور چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت اقتدار سے علیحدہ ہونے کے بعد بھی کم نہیں ہورہی تو اُس نے غیر سیاسی ہتھکنڈے استعمال کیے۔ سب سے پہلے اُس نے بھٹو پر مالی بدعنوانی کا الزام لگایا کہ عرب امارات سے ملنے والے پچیس لاکھ ڈالر بھٹو نے خردبرد کرلیےمگر اس وقت کے عرب امارات کے حکمران  نے خود اس کی تردید کردی۔ ذوالفقار علی بھٹو پر اُن کے مخالفین بہت سےالزامات لگاتے ہیں مگران کے ایک کٹر نظریاتی مخالف جماعتِ اسلامی کے سابق نائب امیر پروفیسر غفور احمد مرحوم سے کئی برس پہلے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا بھٹو صاحب مالی خردبرد میں ملوث تھے تو پروفیسر غفور نے جواب دیا تھا کہ بھٹو پر ہر الزام لگایا جاسکتا ہے لیکن بھٹو پر مالی خرد برد اور لوٹ مار کا الزام کوئی نہیں لگاسکا۔

آصف زرداری جو اب سابق صدر ہوگئے  ہیں، اپنی صدارت کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد ایوان صدر سے رخصت ہوچکے ہیں ،کہتے ہیں کہ وہ پاکستانی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جو اپنے عہدے کی میعاد پوری کر کے “باعزت” طور پر ایوان سے رخصت ہوئے ہیں۔اس سے پہلے کوئی صدرعزت سے ایوان صدرسے رخصت نہیں ہوا۔ ان کی رخصتی سے پہلے کافی تقریبات کی گئیں، ان میں ان کی اپنی جماعت نے انہیں عشائیہ اور وزیراعظم نواز شریف نے انہیں الوادعی ظہرانہ دیا۔ نواز شریف نے اپنی تقریر میں اُن کوزبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ “صدر زرداری 1973ء کے آئین کو اُس کی اصل شکل میں بحال کرنے پر تادیر یاد رکھے جائیں گے”، وزیر اعظم نواز شریف نےایک نئی بات یہ بھی بتائی کہ “میرا اور آصف علی زرداری کا ایک جیسا ایجنڈا ہے”۔ پیپلز پارٹی کےجیالوں نے ان کی پانچ سالہ مدت مکمل ہونے پر بھنگڑے ڈالے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں قومی اسمبلی میں چند آئینی ترامیم کی گئیں جن میں اٹھارویں ترمیم اور صدر مملکت کےکسی حکومت کو بر طرف کرنے کے اختیارات قومی اسمبلی کو واپس مل گئے، جس سے عام آدمی کاکوئی لینا دینا نہیں۔

آصف زرداری کی پاکستانی سیاست میں آمد صرف اس وجہ سے ہوئی کہ اُن کی شادی بینظیربھٹو سے ہوئی، اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ ایک گمنام انسان ہوتےاور شاید اپنے قریبی حلقے میں ہی پہچانے جاتے۔ بینظیر بھٹو 1988 میں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنی اور تھوڑے عرصےبعد ہی آصف زرداری “مسٹر ٹین پرسینٹ” کے طور پر سامنے آئے۔ بینظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کو کرپشن کی بنیاد پر ختم کیا گیا، اُ ن کی دوسری حکومت کو ختم اُس وقت کے صدر فاروق لغاری نے کیا جن کو خود بینظیر بھٹو ہی لے کر آئیں تھیں۔ لیکن اُس وقت تک شاہی جوڑے کی کرپشن اس قدر بڑھ چکی تھیں کہ فاروق لغاری کو بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کرنی پڑی۔ شاہی جوڑے کی کرپشن کا یہ حال تھا کہ بینظیر بھٹو نے وزیراعظم ہوتے ہوئے یہ بیان دیا تھا کہ کک بیک اور کمیشن کو قانونی حیثیت دے دینی چاہیے۔ بینظیر بھٹو تو 27 دسمبر 2007 کو قتل کردی گئیں جو اکتوبر میں خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان واپس آئیں تھیں۔ اپنی جلاوطنی ختم کرنے سے پہلےبے نظیر بھٹو نےجنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک معاہدہ  کیا تھا  جس کو این آر او کہا گیا۔ این آر او کے تحت جو ثمرات بے نظیر بھٹو نے حاصل کرنے تھے، وہ آصف زرداری کے حصے میں آئے۔ پیپلز پارٹی نے فروری 2008ءکے عام انتخابات میں بھرپور حصہ لیا اور اس عوامی ہمدردی کا فائدہ اٹھایا جو دہشت گردی کی سفاکانہ واردات میں بے نظیر بھٹو کی موت سے پیدا ہوئی تھی، ستمبر 2008 میں آصف زرداری پاکستان کے صدر بن گے۔ آصف زرداری کی قیادت میں جو پیپلزپارٹی کی شکل بنی اُس میں اب ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کا کردار صرف اُن کے نام کے نعرے تک تھا، اب پیپلز پارٹی دراصل آصف زرداری کی ذاتی کمپنی بن گئی ہے۔

پیپلز پارٹی کی حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری ہونے پر آصف زرداری، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، اُن کی کابینہ کے اراکین ، پیپلز پارٹی کے لیڈران اس بات پر خوشی سے پھولے ہوئے تھے کہ ان کی حکومت نے پانچ سال تک ایک جمہوری حکومت کو چلایا۔ پیپلز پارٹی کا پانچ سالہ دور حکومت کا یہ ریکارڈ ہے کہ اس سے زیادہ بدعنوان حکومت پاکستان میں اس سے پہلے کوئی نہ تھی۔ گذشتہ پانچ سال کے دوران زرداری حکومت کے دور میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ، بدترین کرپشن، بری گورننس، طویل لوڈشیڈنگ، غربت کے ساتھ اندرونی و غیر ملکی قرضوں میں اضافہ ہوا ، مشرف دور کے 34 بلین ڈالر کے قرضے پانچ سال میں ڈبل ہوگئے، 62 روپے کا ڈالر 100 روپے کا ہوگیا ، ملک کے تمام ادارے تباہ ہوگئے۔

آصف زرداری، دو  وزیراعظم، وفاقی اور صوبائی وزرا نے مل کر کرپشن اور بری گورننس کے حوالے سے ماضی کے کرپشن کےتمام ریکارڈ توڑڈالے ۔ اربوں روپے کی کرپشن کر کے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اورملکی معیشت کو مفلوج بناڈالا۔ خود کش دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کی یلغار نےکوئٹہ اور پشاور جیسے بڑے شہروں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے، کراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے اس کا وہ برا حال ہے کہ یہ شہر جو کبھی امن کا گہواراہ تھا آج لاقانونیت اور لاشوں کا شہر بن چکا ہے، زرداری حکومت کے پانچ سالہ دور میں کراچی میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے پانچ ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان اس شہر میں عام بات ہے۔ سرکاری اور فوجی املاک پر حملے، فرقہ وارانہ نفرت، بے روز گاری اور مہنگائی اس حکومت کے تحفےتھے۔

آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کی حکومت کے دور میں کرپٹ ترین اقوام میں پاکستان کا درجہ اوپر کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ جن اداروں کو روک ٹوک کرنا چاہیے تھی اُ ن کو ساتھ ملالیا ،لہذاکرپشن پر کوئی روک ٹوک نہ رہی اس لیے قومی احتساب بیورو اور فیڈرل انویسٹی گیشن  ایجنسی جیسے انسداد بدعنوانی کے ادارے کرپشن بڑھانے میں شانہ بشانہ رہے۔ یہ ادارے بااثر ملزموں کے ثبوت ختم کرنےاور انہیں بچانے میں پیش پیش رہے۔ یہ ہی وجہ ہے بین الاقوامی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 2012 کے لیے 18 ویں سالانہ کرپشن درجہ بندی جاری کی جس میں 176 ممالک میں پاکستان 139 ویں نمبر پر تھا۔ پاکستان کو کرپشن، ٹیکس چوری اور بری گورننس کے باعث 8500 ارب سے زائد کی کثیر رقم کانقصان اٹھانا پڑا۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق گیلانی حکومت کے دوران 2008 سے 2011 تک پتہ چلنے والے کرپشن کیسز  کا مجموعہ 2 ہزار 765 ارب روپے ہے۔ اس کے علاوہ حکومتی وزیر خزانہ نے خود ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب سے زائد کی کرپشن کی تصدیق کی جوپانچ سال میں ڈھائی ہزار ارب روپے بنتی ہے ۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 2010 میں 315 ارب کی کرپشن کی نشاندہی کی۔ گردشی قرضے 19 کروڑ سے زائد تھے۔ پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز، ریلوے، سوئی سدرن، سوئی ناردرن گیس اور پی ایس او جیسے قومی ادارے آج تباہی کے دھانے پر ہیں ۔ سابق چیئرمین نیب فصیح بخاری نے اعتراف کیا تھا کہ کرپشن سے ملک کو یومیہ 12 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 70 ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود 2011کے سروے کے مطابق کم آمدن، معاشی بدحالی اور مہنگائی کی وجہ سے 58 فیصد پاکستانیوں  کو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا سامنا ہے۔ 2011 میں اسلامی ترقیاتی بینک نے خبردار کیا کہ پاکستان میں  غذائی  عدم  تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہو چکی ہے جبکہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 10 کروڑ پاکستانی غذائی بحران سے دوچار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

گزشتہ پانچ سالوں میں غربت عام ہوگئی ہے، آج عوام کے پاس کھانے کے لیے روٹی ہے نہ ہی پینے کا صاف پانی اورنہ ہی روزگار، بجلی کے بحران کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ میں بے پناہ اضافہ ہوا، جس کے باعث عوام پریشان اور ملکی معیشت تباہ ہوگئی ہے، پیپلز پارٹی کی کرپشن نے ملک کو تباہ و برباد کردیا ہے۔آصف زرداری نے پانچ سالہ دور حکمرانی  میں جولوٹ مار کی ہے اس کے بعد صرف یہ ہی کہا جاسکتا ہے کہ ایوان صدر سے “باعزت” رخصت کے دعوےدار آصف زرداری کوپاکستانی عوام نے گیارہ مئی کو اس کا بھرپور جواب دے دیا تھا۔ آصف زرداری کے بارے میں پاکستانی عوام کا کہنا ہے کہ ” ذوالفقار علی بھٹو پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا اور آصف زرداری پر ایمانداری کا کوئی الزام نہیں ہے”۔

Facebook Comments

سید انورمحمود
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ میں تاریخ کو سامنےرکھ کرلکھتا ہوں اور تاریخ میں لکھی سچائی کبھی کبھی کڑوی بھی ہوتی ہے۔​ سید انور محمود​

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply