عورت, نجی ملکیت اور طبقاتی معاشرہ۔۔۔۔ شاداب مرتضی

آئے روز عورت پر ظلم و جبر کے نہایت بے رحمانہ اور سفاکانہ واقعات کی خبریں آتی ہیں. دل دہلا دینے والے اور انسانیت کو آخری حد تک شرما دینے والے واقعات. ایک مزدور کی بچی کا ریپ کر کے اسے کار میں باندھ کر زندہ جلا دیا جاتا ہے. ہسپتال میں ایک معذور مریضہ کی معذوری سے فائدہ اٹھا کر اس کا جسم نوچا جاتا ہے .ایک سات سال کی بچی کا گینگ ریپ کر کے, گلا دبا کر اسے مار کر, اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی جاتی ہے. خیرات کے نام پر ایک نابینا عورت کی عزت کو لوٹ لیا جاتا ہے. انسان کی انسانیت سے, اپنے معاشرے سے, بیگانگی کی اس سے زیادہ بھیانک مثالیں اور کیا ہو سکتی ہیں؟

ان واقعات پر عوامی حلقوں میں ہونے والے شدید ردعمل میں ایسے واقعات کی وجوہات کا زکر بھی ہوتا ہے. کوئی ان واقعات کا سبب عورت کے وجود کو قرار دیتا ہے. کوئی مردانہ بالادستی اور پدرسری معاشرے کو اس کی وجہ بتاتا ہے. کسی کی نظر میں صنفی امتیاز پر مبنی سماجی رویے اس کی وجہ ہیں اور کسی کے نزدیک قانون و انصاف کی بالادستی نہ ہونا ان واقعات کا محرک ہے.

عمومی طور پر ان واقعات کو مردوں کی بالادستی اور ظلم سے منسوب کر کے ان کے خاف غم و غصے کا اظہار کیا جاتا ہے. مردوں کی جانب سے مردوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے. ان سے اپیلیں کی جاتی ہیں کہ وہ اپنی مردانگی کو قابو میں رکھیں. عورتیں عورت پر ظلم کی شکایت کرتی ہیں. کچھ لوگ حکومت کی نااہلی اور قانون کی طوائف الملوکی پر برستے ہیں. بنیادی سبب کو یعنی “نجی ملکیت” اور معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم کو, جس میں ایک جانب غریب اور کمزور طبقہ ہے دوسری جانب امیر اور طاقتور طبقہ, عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے.

غور کیا جائے تو دکھائی دے گا کہ عورتوں کی عصمت دری اور اجتماعی زیادتی کے واقعات اکثروبیشتر ان عورتوں کے ساتھ پیش آتے ہیں جن کا تعلق مزدور اور کسان یا دیگر قسم کے غریب یا نچلے متوسط گھرانوں سے ہوتا ہے. یہ گھرانے اپنی کمتر معاشی حیثیت کی وجہ سے کسی قسم کا سیاسی و سماجی اثرورسوخ نہیں رکھتے. ایک عام پولیس کانسٹیبل یا آفیسر بھی انہیں خوف و دہشت میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے. اس کے برعکس, شازونادر ہی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوا ہو جس میں معاشی, سیاسی یا سماجی اثرورسوخ رکھنے والے کسی گھرانے کی عورت کو عصمت دری کا یا اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہو.

ایسے واقعات تو آئے روز رونما ہوتے ہیں کہ جن میں کسی غریب, نچلے, یا نچلے متوسط طبقے کی عورت یا لڑکی کو طاقتور, بااختیار اور بااثر لوگوں کی جانب سے آبروریزی کا نشانہ بنایا جائے لیکن ایسا کوئی واقعہ نظر میں نہیں آتا کہ جس میں غریب, نچلے یا نچلے متوسط طبقے کے مردوں نے کسی امیر, بالادست یا سیاسی و سماجی اثرورسوخ رکھنے والے کسی گھرانے کی عورت کو جنسی زیادتی کا شکار بنانے کی کوشش کی ہو.

آخر یہ عورتیں, لڑکیاں اور بچیاں, عموما, غریب اور کمزور طبقے سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کی ہی کیوں ہوتی ہیں جنہیں جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے؟ حکمران طبقے, بااثر اور طاقتور لوگوں سے تعلق رکھنے والے گھرانوں کی عورتوں کے ساتھ یہ واقعات کیوں نہیں ہوتے؟ اس سوال کا مقصد ہر گز اس انتقامی جذبے کا اظہار نہیں کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہونا چاہیے بلکہ ایک بنیادی سماجی حقیقت کی جانب توجہ دلانا مقصود ہے, جسے اکثر دانستہ یا نادانستہ طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے.

معاشرے میں موجود طبقاتی تقسیم کو عورت کی آبروریزی کا اہم ترین سبب تسلیم کرنے سے انکار کرنے والے حلقے عورت کے ریپ کی ایسی مثالیں پیش کرتے ہیں جن کا بظاہر طبقاتی تقسیم سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا. مثال کے طور پر ازدواجی ریپ یا غیر ازدواجی رشتوں میں لڑکی کی مرضی کے بغیر اور انکار کے باوجود جنسی اختلاط. ایسے واقعات کی توجیہ مرد کی جسمانی طاقت اور اس کے ذہن میں موجود مردانہ طاقت کی بالادستی کے تصور سے کی جاتی ہے اور اس قسم کے ریپ کو مرد کی جانب سے اکثر جنسی لذت کے حصول کا زریعہ نہیں بلکہ مردانہ بالادستی کی طاقت کا اظہار بتایا جاتا ہے.

تاہم انسانی معاشرے کی مادرسری معاشرے سے پدرسری معاشرے میں تبدیلی کا تعلق ابتدائی زراعت کے عہد میں محنت کی تقسیم کے عمل میں عورت کی “نجی ملکیت” میں تبدیلی سے ہے جس سے عورت پر مرد کی بالادستی قائم ہوئی اور اس تصور نے جنم لیا. نجی ملکیت کے ظہور کے ساتھ ہی نہ صرف عورت مرد کی نجی ملکیت بن گئی بلکہ انسانی معاشرے میں انسانوں کی ملکیتی اور غیر ملکیتی طبقوں میں, کمزور اور طاقتور میں, مالک اور غلام میں, جاگیردار اور کسان میں اور سرمایہ دار اور مزدور میں تقسیم نے بھی جنم لیا.

بعض لبرل حلقوں کی جانب سے عورت کی جسم فروشی کی صنعت میں “ریپ” کے عنصر کو تسلیم کرنے سے انکار کیا جاتا ہے اور اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے کہ جسم فروشی سے وابستہ عورتیں اس کے نتائج سے واقف ہوتی ہیں اور اس عمل کا حصہ اپنی “مرضی” سے بنتی ہیں. معاشی و سماجی محرکات جو عورتوں کو جسم فروشی پر “مجبور” کرتے ہیں انہیں جسم فروشی کی صنعت میں ہونے والے “ریپ” اور جنسی استحصال کے عوامل سے الگ کردیا جاتا ہے. جسم فروشی کے دوران واقع ہونے والے جنسی عمل کو اس عمل کے اندر محدود کر کے دیکھا جاتا ہے. جبکہ ازدواجی ریپ یا غیر ازدواجی ریپ کو مرد اور عورت کے درمیان موجود پورے سماجی اور تاریخی “پس منظر” میں رکھ کر اس کا تعین کیا جاتا ہے!

لبرل مکتبِ فکر میں عموما عورت کے ریپ کے بنیادی اور اہم ترین سبب یعنی معاشرے میں “نجی ملکیت” کی بنیاد پر موجود طبقاتی تقسیم اور عورت کی نجی ملکیت کے تصور کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے. اس کے برعکس نجی ملکیت کے تحفظ کو ایک قسم کے تاریخی تقدس سے اور انسانی حق سے جوڑ دیا جاتا ہے. نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نجی ملکیت سے جنم لینے والی طبقاتی تقسیم اور اس طبقاتی تقسیم سے جنم لینے والے غریب, کمزور اور نچلے طبقے کی عورتوں کے ریپ اور نجی ملکیت کی بنیاد پر عورت کے ریپ سمیت عورت کے استحصال کی تمام شکلوں کو تحفظ ملتا ہے.

چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لبرل حلقوں کی جانب سے عورت اور مرد کی مساوات اور برابری اور عورت کے استحصال کے خاتمے کے دعوے اس لیے بے وزن ہیں کیوں کہ عورت کے طبقاتی اور صنفی استحصال کی وجہ یعنی نجی ملکیت کے خاتمے کے بجائے لبرل ازم نجی ملکیت کا دفاع کر کے اسے برقرار رکھنے پر زور دیتا ہے.

نجی ملکیت پر مبنی نظام اور سماجی نفسیاتی ڈھانچوں کے نتیجے میں عورت کے استحصال کے خاتمے کے لیے نجی ملکیت کا خاتمہ لازم ہے. تاہم نجی ملکیت کا دفاع اور تحفظ کرتے ہوئے لبرل ازم ایک ایسے مکتہ فکر کے طور پر سامنے آتا ہے جو عورت اور مرد کے درمیان موجود تمام نابرابری ختم تو کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے اسباب کو قائم رکھنا چاہتا ہے.

دوہرے پن کی یہ کیفیت لبرل فکر میں موجود داخلی تضاد کی عکاسی کرتی ہے اور لبرل ازم کو ایسے مکتبِ فکر و عمل کے طور پر سامنے لاتی ہے جو غیر منطقی اور غیر سائنسی ہونے کے ساتھ ساتھ اس وجہ سے خود عورت کے استحصال میں شریک بھی ہے کہ یہ نجی ملکیت کا دفاع کرتا ہے جو عورت کے تمام تر معاشی, سیاسی اور سماجی استحصال کا سبب ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

 شاداب مرتضی پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں. سیاسیات اور سماجیات کے شعبے ان کی دلچسپی کا محور ہیں. ان سے جڑے معاملات پر سوشلسٹ نکتہ نظر سے قلم کشائی کرتے رہتے ہیں. اس کے ساتھ انجمن ترقی پسند مصنفین کے رکن ہیں اور ترقی پسند ادب و فکر کی ترویجی سرگرمیوں میں شامل رہتے ہیں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply