آج کا دن پاکستان اور سعودی عرب کی تاریخ میں ایک ایسا موڑ ہے جو آنے والی دہائیوں تک خطے کی سیاست اور سلامتی کے نقشے پر اپنی چھاپ چھوڑے گا۔ ریاض میں ہونے والے اسٹریٹجک باہمی دفاعی معاہدے (SMDA) پر دستخط محض دو ملکوں کے درمیان ایک دستاویز کی تکمیل نہیں بلکہ ایک نئے دفاعی اتحاد، ایک نئی سوچ اور ایک نئے عالمی پیغام کی عملی صورت ہے۔ یہ معاہدہ اعلان کرتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب اب نہ صرف سفارتی اور معاشی رشتہ دار ہیں بلکہ ایک دوسرے کے دفاع میں شریک، ایک دوسرے کی سلامتی کے ضامن اور ایک دوسرے کی طاقت کے امین بھی ہیں۔ یہ شق کہ کسی ایک پر حملہ دونوں پر حملہ شمار ہوگا، صرف قانونی یا عسکری تحریر نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے لیے بھی ایک نیا پیغام ہے کہ حرمین شریفین کا تحفظ اب پاکستان کی عسکری ذمہ داری کا باضابطہ حصہ ہے۔
یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا ہے جب خطہ عدم استحکام کی نئی لہروں سے دوچار ہے۔ اسرائیل کا قطر پر حملہ خلیج کی سلامتی کے لیے غیر معمولی خطرہ ثابت ہوا اور عالمی طاقتوں کی خاموشی نے اس خدشے کو مزید گہرا کر دیا کہ اب کوئی بھی ملک تنہا اپنی حفاظت نہیں کر سکتا۔ دوسری طرف پاکستان اور بھارت کی مئی 2025 کی جنگی جھڑپ نے جنوبی ایشیا کو ایک بار پھر بارود کے ڈھیر پر بیٹھا دیا تھا۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں ریاض اور اسلام آباد نے یہ فیصلہ کیا کہ اجتماعی دفاع ہی واحد راستہ ہے۔ سعودی عرب کے لیے یہ معاہدہ مغربی اتحادیوں پر انحصار سے ہٹ کر ایک قریبی اسلامی شراکت دار کے ساتھ اپنی سلامتی جوڑنے کی علامت ہے، جبکہ پاکستان کے لیے یہ فیصلہ خطے میں اپنی عسکری، سفارتی اور مذہبی حیثیت کو مزید مستحکم کرنے کا ذریعہ ہے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان میں فوجی اثر و رسوخ ایک متنازع عنوان ہے لیکن فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنی عسکری بصیرت اور سفارتی ڈپلومیسی کے ذریعے اس معاہدے کو حقیقت میں بدلنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے سعودی قیادت کو اس امر پر قائل کیا کہ پاکستان نہ صرف ایک فوجی طاقت ہے بلکہ ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے نہایت اخلاص اور قربانی کا جذبہ بھی ہے۔ ان کا یہ پیغام دونوں ممالک کی قیادت کے دلوں میں اتر گیا اور آج یہ معاہدہ اسی اعتماد کی بنیاد پر سامنے آیا ہے۔
تاہم اس معاہدے کو محض ایک عسکری اقدام سمجھنا اس کی اہمیت کو محدود کر دے گا۔ یہ معاہدہ دفاعی صنعت میں شراکت داری، فوجی ٹیکنالوجی کے تبادلے، مشترکہ مشقوں اور انٹیلی جنس شیرنگ کو بھی شامل کرتا ہے۔ اس کے اثرات معاشی میدان میں بھی ظاہر ہوں گے، جہاں سعودی سرمایہ کاری پاکستان میں نئے اعتماد کے ساتھ بڑھے گی اور پاکستان کی دفاعی صنعت کو بھی نئی جہتیں ملیں گی۔ یہ ایک ایسا اتحاد ہے جس کی جڑیں صرف فوجی طاقت میں نہیں بلکہ مذہبی، سیاسی اور معاشی گہرائیوں میں بھی پیوست ہیں۔
عالمی منظرنامے پر اس معاہدے کے اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ اور یورپی ممالک اسے دلچسپی اور تشویش دونوں کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ بھارت کے لیے یہ معاہدہ ایک نیا چیلنج ہے کیونکہ اس سے خطے میں پاکستان کی حیثیت مزید مضبوط ہوگی، جبکہ اسرائیل کے لیے یہ اتحاد اس کی خلیجی پالیسیوں میں ایک رکاوٹ کے طور پر ابھر سکتا ہے۔ اس سب کے باوجود، سعودی عرب اور پاکستان کے نزدیک یہ فیصلہ ایک ناگزیر حقیقت ہے، کیونکہ بدلتے حالات میں یکجہتی اور مشترکہ دفاعی حکمتِ عملی کے بغیر سلامتی کے تقاضے پورے کرنا ممکن نہیں رہا۔
اس معاہدے کی اصل کامیابی تب ہوگی جب اس پر عملدرآمد بھی اسی سنجیدگی اور عزم کے ساتھ کیا جائے گا جس کے ساتھ یہ طے پایا ہے۔ مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز، تیز رفتار ردعمل کی صلاحیت، اور دونوں افواج کی ہم آہنگی وہ اقدامات ہیں جو اس معاہدے کو کاغذ سے حقیقت میں بدلیں گے۔ اگر یہ وژن حقیقت کا روپ دھار گیا تو پاکستان اور سعودی عرب صرف ایک دوسرے کے محافظ نہیں ہوں گے بلکہ پورے خطے کے امن اور توازن کے ضامن بھی بن سکتے ہیں۔

یہ معاہدہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ جب خطرات بڑھ جائیں تو اتحاد ہی واحد راستہ ہوتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب نے آج نہ صرف اپنے دفاع کو مضبوط کیا ہے بلکہ ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ معاہدہ اس بات کا اعلان ہے کہ اب خطے میں طاقت کا نیا محور وجود میں آ چکا ہے، اور یہ محور اسلام آباد اور ریاض کے درمیان قائم اس اعتماد اور عزم پر کھڑا ہے جو وقت کے ہر امتحان میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں