اشتراکیت اور مذہب۔۔۔ ڈاکٹر مجاھد مرزا

ایک دوست نے استفسار کیا ہے:

  1 – کيا  کميونزم  ميں  لا د ينيت لازم ہے ؟

  2 – کيا  يہ  سچ ہے کہ تصورِ خدا شامل کر لو تو کميونزم  اسلام نظر آتا ہے؟

میں نے سوچا کہ انہیں انفرادی طور پر جواب دینے کی بجائے یہ بہتر ہوگا کہ اس جواب کو باقیوں تک بھی پہنچایا جائے۔

اصطلاح کمیونزم کا منبع “کمیون” ہے جو بذات خود سماجی اصطلاح “کمیونٹی” سے ماخوذ ہے یعنی “برادری”، لیکن عمرانیات میں لفظ “کمیون” زمانہ قدیم کے انسانوں کے ان گروہوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جن کے دور حیات میں نجی ملکیت کا کوئی تصور نہیں تھا اور چونکہ نجی ملکیت نہیں ہوتی تھی اس لیے جھگڑے اور جنگیں بھی نہیں تھیں۔ معاملات ادلے بدلے پہ چلتے تھے۔ ان ادوار میں مذاہب بھی انتہائی بالیدہ شکل میں نمودار نہیں ہوئے تھے، اس لیے زوج کا مطلب صرف جوڑا ہوتا تھا، نکاح یا بیاہ نہیں۔ جب نجی ملکیت نہیں تھی تو زور زبردستی اور عورت یا مرد کے ایک دوسرے کی ملک املاک ہونے کا ٹنٹا بھی نہیں تھا۔ بچے قبیلے کے بچے ہوتے تھے،جن کی پرورش ، پرداخت اور تربیت سبھوں کی ذمہ داری ہوا کرتے تھے (اسی امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے، کمیونزم کے مخالف رجعت پرستوں نے یہ غلط پرچار عام کیا تھا کہ کمیونسٹوں کی (جنسی اخلاقیات) نہیں ہوتی)۔

کہیں بہت بعد میں نجی ملکیت کے رواج پا جانے سے کمزور طاقتوروں کی املاک بھی بنے، وسائل پر قبضوں کی خاطر جنگیں بھی ہوئیں، ذرائع پیداوار میں بچے یعنی محنت کرنے والے وسائل پیدا کرنے والی عورت کو بھی “ذریعہ پیداوار” سمجھ کر ملکیت بنا لیا گیا اور اس پر تصرف کی خاطر مردوں کی بالا دستی پر مبنی اخلاقیات گھڑی گئیں، جب کہ خود مرد اخلاقیات کے اصولوں پر کاربند ہونے سے گریزاں رہا یا منافقانہ رویہ اختیار کرتا رہا۔

انسانوں کی بھلائی اور خوشحالی کا تعلق چونکہ ذرائع پیداوار اور پیداوار سے حاصل وسائل یعنی دولت اور اشیاء کی منصفانہ یا کم از کم مناسب تقسیم سے تھا۔ جس کے لیے فلسفیوں نے بھی کوشش کی اور سب سے اہم کردار انبیاء نے ادا کیا جو نبی تو تھے سو تھے لیکن وہ سب سماجی مصلح، اخلاقی رہنما اور الوہی اصولوں پر کاربند لوگوں کی اجتماعیت پسندی کو فروغ دینے والے بھی تھے۔

نبیوں کی بعثت کا دور تمام ہونے کے بہت دیر بعد ایک جرمن فلسفی اور ماہر معیشت کارل مارکس نے کمیونزم کے تصور کو فروغ دینے کا جوا اپنی گردن پر رکھ لیا تھا۔ اس کی مشہور زمانہ کتاب “داس کیپیٹال” (سرمایہ) اس تصور کی وضاحت پر مبنی تھی۔ یاد رہے اسی کتاب کی بناء پر اشتراکیت مخالف شاعر علامہ اقبال نے اس کے بارے میں کہا تھا کہ وہ یعنی کارل مارکس پیغمبر تو نہیں ہے لیکن کتاب وہ بھی مرتب کیے ہوئے ہے۔ مارکس نے صرف یہی کتاب نہیں لکھی تھی بلکہ کمیونزم کی بنیاد” کمیونسٹ مینی فیسٹو” بھی اپنے دوست اور ساتھی فریڈرک اینگلز کے ساتھ مل کر لکھا تھا۔ اس چھوٹے سے کتابچے سے دنیا میں مروج بہت سے معاملات کی ہئیت بدلی جانے لگی تھی۔ اس کتابچے میں “لادینیت” کا کہیں ذکر نہیں ہے باوجود اس کے کہ یہ کمیونزم کا منشور و دستور ہے۔

اشتراکیت کے مخالفین کے لیے عام لوگوں کو کمیونزم کے تصور سے دور رکھنے کے لیے جو بنیاد میسّر آئی تھی وہ کارل مارکس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر استعمال کیے جانے والے فقرے “مذہب افیون ہے” سے تھی۔ افیون کی تاثیر کیا ہے؟ یہ اگر زیادہ مقدار میں لی جائے تو زہر ہے لیکن خاص مقدار میں استعمال کیا جائے تو دوا۔ دوا کے طور پر اس کے اثرات میں درد کا رفع کیا جانا اور کچھ زیادہ ہی پر سکون کر دینا ہے، اس قدر پر سکون کہ انسان ضروری کام بھی کرنے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ اس پہ جو بھی گذر جائے، وہ جب تک افیون کے زیر اثر ہوتا ہے، صابر و شاکر ہی رہتا ہے۔ ہر ظلم اور زیادتی کا مقابلہ یا مداوا خود کرنے کی بجائے اس کی ذمہ داری بھی خدا پہ ڈال دیتا ہے۔

ان زمانوں میں یورپ میں کلیسا کی چلتی تھے اور برصغیر میں مذہبی خانوادوں کی۔ کلیساؤں نے اپنے معتقدین کے عطیات کی شکل میں زمینوں کے بہت بڑے بڑے قطعات ہتھیائے ہوئے تھے اور مذہبی خانوادوں نے اپنے مریدین کے عطیات کی شکل میں جاگیریں بنائی ہوئی تھیں۔ یہ دونوں مذہبی ٹھیکیدار اپنے مفادات کے لیے باعقل ہوتے ہوئے یعنی افیون استعمال کیے بغیر کام کرتے تھے، جبکہ لوگوں کی اکثریت کو مذہب کے نام پر توکل اور مقدر پر مبنی افیون کی گولیاں کھلاتے تھے۔ مارکس کے کہنے کامطلب یہی تھا کہ مذہب کے استدلال اور فہم کی بجائے ان لوگوں کے وضع کردہ مذہب کی شکل میں مذہب کو سینے سے لگانا ایسے ہی ہے جیسے افیون کھا کر انٹا غفیل ہو جانا۔

مارکس کے بہت بعد کمیونزم کے عملی شکل اختیار کیے جانے کے بعد کا ایک واقعہ اشتراکیت اور لادینیت کے باہم ہونے کے جھوٹ کی قلعی کھول دینے کے لیے کافی ہے۔ ایک معروف خاتون کمیونسٹ رہنما نے ولادیمیر لینن کو شدّومد کے ساتھ قائل کرنے کی کوشش کی کہ مذہب اور خدا کے تصور کو قانونی طور پر رد کر دیا جائے،لینن اس کے حق میں نہیں تھے، عورت بضد تھی۔بحث بہت طول پکڑ گئی تھی۔ لینن نے خاتون سے کہا تھا،”فرض کر لیتے ہیں کہ آپ مزدور ہیں اور میں آجر اور یہ تیسرے شخص جو بیٹھے ہیں یہ لادین دانشور ہیں۔ انہوں نے آپ کو خدا کے نہ ہونے کا قائل کر لیا ہے۔ آج رات آپ کے بچے کو شدید نمونیہ ہو جاتا ہے۔ آپکے پاس دوائی کے لیے روبل نہیں ہیں۔ آپ مجھ سے مانگنے آتی ہیں، میں آپکی منت و سماجت، آہ وزاری کے باوجود نہ صرف ٹکا ساجواب دے دیتا بلکہ دھتکار بھی دیتا ہوں۔ پیسے نہیں ہیں، خدا کو آپ نہیں مانتیں کہ دوا نہیں تو دعا پہ تکیہ کر لیں۔ ایسے میں آپ کیا کریں گی؟ چوری، ڈاکہ، جسم فروشی یعنی کوئی بھی غیر سماجی عمل۔”

اصل میں روس کی کمیونسٹ پارٹی نے تب ملک میں کلیسا کے بہت زیادہ اثر کو ختم کرنے کے لیے اپنے اراکین کو مذہب کے پرچار سے منع کیا تھا نا کہ مذہب سے۔ یہ اور بات ہے کہ مذہبی نہ ہونا ایک فیشن بن گیا تھا۔ ویسے بھی روس میں مذہبی ہونا کیا ہوتا ہے، ہر اتوار کو گرجا میں جا کر موم بتی روشن کر دینا۔ چالیس دن کے روزے رکھ لینا جس میں آپ دودھ اور گوشت سے تیار کردہ اشیاء اور زیادہ الکحل والے مشروبات کے علاوہ باقی سب کچھ استعمال کر سکتے ہیں۔ کمیونسٹ حکومت ختم ہونے کے بعد روس میں عیسائی ہونا بھی اسی شدت سے فییشن میں ڈھلا ہے۔ اس کے برعکس تاجکستان اور ازبکستان کے کمیونسٹ رہنما گھروں میں نمازیں بھی پڑھتے تھے اور کچھ تو روزے بھی رکھتے تھے،لیکن چونکہ مذہب سے وابستہ شخص کو بالعموم رجعت پسند خیال کیا جاتا تھا چنانچہ پارٹی میں اس کی ترقی نہیں ہوا کرتی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی سے باہر کے کروڑوں لوگ تب بھی “یا میرے حدا” کہا کرتے تھے اور کرسمس و ایسٹر بھی مناتے تھے۔ عیدین سے نہ وسطی مرکزی ریاستوں میں منع کیا جاتا تھا نہ چین میں کیا جاتا ہے۔ اس سے بھی بڑھ کر مشرق وسطٰی کی کمیونسٹ پارٹیوں میں تو مذہب مخالف ہونے کا کوئی تصور ہے ہی نہیں البتہ مذہب کے بارے میں لبرل ہونا ایک انفرادی عمل ضرور ہے۔

مجھے یاد ہے کہ 1998 میں میں نے پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کے اندرونی حلقوں میں پڑھے جانے کی خاطر ایک مبسوط مضمون لکھا تھا، جس میں ثابت کیا گیا تھا کہ مذہب پر بہتر طریقے سے کاربند شخص چاہے وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو یا یہودی زیادہ بہتر ،زیادہ بااعتماد اور زیادہ فعال کمیونسٹ کارکن ہو سکتا ہے کیونکہ وہ نظم و ضبط کا زیادہ عادی ہوتا ہے(یہ مقالہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے نظریے کا ہمنوا بنائے جانے کی حکمت عملی کے ضمن میں لکھا گیا تھا)۔ جب کامریڈوں نے ناک بھوں چڑھائے تو میں نے انہیں باور کرایا تھا کہ اس مضمون میں میں نے خود سے کوئی بات نہیں کی بلکہ تمام کے تمام حوالے یا تو مسلمان ملکوں کی کمیونسٹ پارٹیوں سے ہیں یا پھر لینن اور مارکس سے مگر کامریڈ حضرات “لیکن،چونکہ، چنانچہ” کرتے رہے تھے۔

برصغیر کے کمیونسٹوں کا مذہب گریز رویہ درحقیقت ایک تو وہاں کے سماج میں بچوں کو استدلال اور منطق کے ذریعے مذہب پر کاربند ہونے کے لیے قائل کرنے کی بجائے بلاجواز سختی اختیار کرکے زبردستی مذہب دوست بنائے جانے کا ردّعمل لگتی ہے دوسرے عمومی جہل اور ملّا کے دوہرے جہل کی مخالفت کا شاخسانہ۔

جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے، یہ سوال اپنی ہئیت میں اس لیے درست نہیں ہے کہ خدا کا تعلق الوہیت سے ہے اور الوہیت کا مذہب سے جب کہ کمیونزم کا تعلق سب سے پہلے معیشت سے ہے اور معیشت کی پیشرفت یا دگرگونی سے وابستہ سماج سے۔ اگر معیشت پامال ہوگی تو لوگوں کے دو طرح کے رویے زیادہ راسخ ہونگے، انتہائی مذہب پسندی یا یکسر مذہب گریزی، دونوں ہی کو بنیاد پرستی پہ محمول کیا جا سکتا ہے۔ رہی اسلام کی بات، میں چونکہ مذہبی عالم نہیں ہوں اس لیے کچھ زیادہ کہہ نہیں سکتا لیکن جاویداحمد غامدی سے بہت پہلے ہوئی ایک گفتگو میں ان کا کہنا یہ تھا کہ اسلام دنیاوی نظام نہیں ہے بلکہ یہ آخرت بہتر بنانے کی خاطر اختیار کیے جانے والے اصولوں پر مبنی ہے۔ زیادہ آسانی کے لیے اشتراکیت کی مختصر ترین تعریف درج کی جا رہی ہے:”کار بقدر استطاعت، اجرت بقدر ضرورت” یعنی آپ جو کام کر سکتے ہیں وہی آپ کریں گے لیکن آپ کو اجرت اتنی ملے گی جتنی کسی بھی انسان کی ضرورت ہوتی ہے مثال کے طور پر ایک شخص ڈرائیور ہے،اس کی ایک بیوی تین بچے ہیں، دوسرا شخص بہت بڑے کارخانے کا ڈائریکٹر ہے لیکن اس کی ایک بیوی اور ایک بچہ ہے۔ ڈرائیور اور اس کی بیوی دونوں کو مثال کے طور پر پچاس ہزار روپے ماہوار ملیں گے جبکہ ڈائریکٹر اور اس کی بیوی کو ملا کر تیس ہزار روپے ماہوار کیونکہ ضرورتیں سبھی کی ایک جیسی ہوتی ہیں البتہ خواہشوں کو لگام نہ دین تو ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا۔ نہ تو دنیا میں کمیونزم اپنی کلاسیکل شکل میں رائج کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی میرے خیال کے مطابق جنت میں کام اور معاوضے کا کوئی تصور ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ڈاکٹر مجاھد مرزا معروف تجزیہ نگار اور کالم نویس ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply