جنگ کو کیسے روک سکتے ہیں؟ ۔داؤد ظفر ندیم

جنگ کو کیسے روک سکتے ہیں ، اس کے بارے آئن سٹائن نے جولائی 1932 میں سگمنڈ فرائیڈ کو ایک تاریخی خط لکھا تھا جس کا جواب سگمنڈ فرائیڈ نے ستمبر 1932 میں دیا۔ ان خطوط کی تلخیص محترم داؤد ظفر ندیم کے قلم سے پیش خدمت ہے

جولائی 1932ء 30

ڈیئر پروفیسر فرائیڈ

انٹر نئیشنل انسٹٰی ٹیوٹ آف انٹلکچوئل کو آپریشن کی تجویز نے مجھے آپ سے وہ سوال پوچھنے کا بہت عمدہ موقع فراہم کیا ہے جو یقیناً انسانی تہذیب و بقاء کو پیش آنے والے مسائل میں اہم ترین ہیں۔ لیگ آف نیشنز نے مجھے تبادلہ خیالات کے لیے اپنی پسند کادانشور منتخب کرنے کا موقع بھی دیا جسے میں نے آپ کی صور ت میں استعمال کیا ۔ سوال یہ ہے کہ”کیا انسان کو جنگ کی لعنت سے نجات دلانے کا کوئی طریقہ ہے؟”

جہاں تک میرا اپنا تعلق ہے میری موجودہ تخقیق کا مقصد یہی ہے کہ میں اس مسئلے پر مزید علم حاصل کروں تاکہ اس کا کوئی پائیدار حل نکل سکے۔ مزید برآں آپ انسانی جبلت پر اپنی گہری نگاہ کی روشنی میں جنگ کی وجوہات کا احاطہ کر سکیں اور تدارک کی تدبیر بتا سکیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ لازماً ہمیں ایسے طریقے بتائیں گے جو غیر سیاسی ہوتے ہوئے ہمیں ان رکاوٹوں کو عبور کر نا سکھا ئیں گے جنہیں ہم مدد کے بغیر پار نہیں کرسکتے۔

میرے پاس اس مسئلے کا ایک سطحی ساحل موجود ہے جو در حقیقت انتظامی نوعیت کا ہے۔ میرے خیال میں عالمی برادری کی رضامندی سے ایک ایسا قانونی یا عدالتی ڈھانچہ قائم کیا جانا چاہیے جو دو اقوام کے درمیان پیدا ہونے والے کسی بھی تنازعے کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرے ۔ اس ادارے کے ہر فیصلے کا احترام تمام اقوام عالم پر لازم ہو۔

اس ٹریبیونل کے پاس اتنے اختیارات اور طاقت ہو کہ اپنے تمام فیصلوں کو منوا سکے اور نافذ العمل کر سکے ۔ عالمی امن اور تحفظ عامہ کے لیے ضروری ہے کہ ہر قوم اپنی آزادی و خودمختاری کا کچھ حصہ تج دے اور ایسے ادارے کی حاکمیت کو تسلیم کرے بصورت دیگر کوئی اور راستہ امن عالم کی منزل تک نہیں پہنچ پائے گا۔

گزشتہ عشرے کے دوران ہونے والی ایسی تمام کوششیں رائیگاں گئیں جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ کوئی طاقتور نفسیاتی عامل ان کے خلاف متحرک ہے جو ان تمام مساعی کو ناکام بنا رہا ہے۔ حکمران طبقات کی ہوس جاہ و طاقت  کی ہر اس کوشش کا خاتمہ کر دیتی ہے جس کی مدد سے قومی خودمختاری میں کمی ممکن ہو ۔ دوسری طرف وہ افراد مصروف کار ہیں جن کے معاشی اقتصادی مفادات امن سے متصادم ہیں۔ یہ افراد اسلحہ ، گولہ ، بارود اور مہلک ہتھیار بناتے اور بیچتے ہیں۔

لیکن ایک اور سوال بھی یہاں اہم ہے کہ محض چند افراد کی تحریک اکثریت کو کیونکر قائل کرسکتی ہے۔ اکثریت میں ان سپاہیوں کو بھی شامل کرتاہوں جنہوں نے جنگ و جدل کو پیشے کے طور پر اپنایا ہے اور وہ اپنے فرائض کو ایک عظیم مقصد کی تکمیل سمجھتے ہیں۔ مزید برآں تعلیمی ادارے ، مذہبی عناصر اور پریس بھی حکمران طبقات کے تصرف میں ہیں جن کی مدد سے وہ عوام الناس کے جذبات کو بھڑکاتے اور انہیں اپنے مقاصد کا آلہ کار بناتے ہیں۔

آخر انسانوں کو اتنی آسانی سے کیونکر اکسایا جاسکتاہے کہ وہ عقل و خرد کھو بیٹھیں اور اپنی زندگی تک کو داؤ پر لگانے سے گریز نہ کریں؟ انسانی جبلتوں کا کوئی بہت بڑا ماہر ہی اس کا علاج تجویز کرسکتاہے۔

کیا انسان کے ذہن کو اس طرح سے کنٹرول کرنا ممکن ہے کہ اس کے اندر سے نفرت و تشدد کے جذبات نکالے جاسکیں۔ یہاں میرا اشارہ اس نام نہاد دانشور طبقے کی طرف بھی ہے جو خود بھی ان جذبات کا نہایت آسانی سے شکار ہوجاتاہے۔اس طبقے کو زندگی کا کوئی براہ راست شعور نہیں ہوتا اور اس نے زندگی کو صرف اخباروں اور کتابوں کے اوراق پر برتا ہوتاہے۔

میں جانتا ہوں کہ تشدد کے جذبات دیگر لبادوں میں بھی فعال رہتے ہیں مثلاً خانہ جنگیاں، نسلی تصادم اور فرقہ ورانہ فسادات وغیرہ ۔ لیکن یہاں میرا مقصد انسانوں کے درمیان ہونے والی سب سے ظالمانہ، متشدد اور خونریز کارروائی کو روکنا ہے جو دو اقوام یا ممالک کے درمیان مسلح تصادم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔

میں جانتا ہوں کہ بطور نفسیات دان آپ کے پاس اس فوری اور تکلیف دہ مسئلے کا واضح یا پوشیدہ حل موجود ہے۔ یہ یقیناً ایک بہت بڑی خدمت ہوگی کہ آپ اپنی تازہ ترین دریافتوں کی روشنی میں اس مسئلے کا کوئی حل تجویز کریں جو کسی قابل عمل طریقہ کار کی راہ ہموار کر سکے۔

مخلص

البرٹ آئن سٹائن

سگمنڈ فرائیڈ کا جواب۔۔۔

 

ڈیئر پروفیسر آئن سٹائن

جب مجھے معلوم ہوا کہ آپ ایک ایسے مسئلے پر مجھ سے تبادلہ خیالات کرنا چاہتے ہیں جس میں نہ صرف آپ خود گہری دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ جو دوسروں سے بھی اسی قدر توجہ کا متقاضی ہے تومیں فوراً رضامند ہوگیا۔ مجھے امید تھی کہ آپ یقیناً کسی ایسے مسئلے کا انتخاب کریں گے جس پر آپ ماہرطبیعیات کی حیثیت اور میں ماہر نفسیات کی حیثیت سے مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے ایک ہی منزل اور نتیجے پر پہنچیں گے۔ بہر حال جب آپ نے اس مسئلے کا انتخاب کیا کہ انسانیت کو جنگ کی لعنت سے بچانے کے لیے کیا کیا جاسکتاہے تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کیونکہ میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ”ہم” (دانشوراور مفکرین) جنگ کے مسئلے کا کوئی حل پیش نہیں کرسکتے کیونکہ یہ ایک عملی مسئلہ ہے جس کا حل صرف سیاستدانوں اور حکمرانوں کے پاس ہے۔ لیکن جب میں نے آپ کا نکتہ نظر پڑھا تو مجھے احساس ہواکہ مجھ سے صرف یہ پوچھا جارہا ہے کہ نفسیات دان کی حیثیت سے میں جنگ و جدل کو کم کرنے کے لیے کیا تجاویز پیش کرسکتاہوں۔

اگر ہم اپنے دور کا حوالہ دیں تو میں بھی اسی رائے کا اثبات کروں گا جو آپ نے حال ہی میں پیش کی ہے۔ جنگیں صرف اس صورت میں رک سکتی ہیں اگر انسانیت باہم متحد ہو کر ایک مرکزی ادارے کا وجود عمل میں لائے جسے ان تمام تنازعات پر فیصلہ دینے کا اختیار ہو جو اس کے دائرہ سماعت میں لائے جائیں۔ اس کے لیے دو عوامل ناگزیر ہیں، نمبر ایک، ایک سپریم ایجنسی یا ادارے کا قیام اور دوسرے اسے ضروری اختیار ات اور طاقت کی تفویض کیونکہ ایک کے بغیر دوسرا بے کار ہے۔ لیگ آف نیشنز یقیناً اسی نوعیت کا ادارہ ہے لیکن یہ ضروری اور لازمی طاقت سے محروم ہے۔

معاشرہ دو عناصر پر قائم رہتاہے، پہلی تشدد کے خلاف دفاع اور دوسری آپس کے جذباتی روابط ہے۔ باہمی جذباتی روابط کا انحصار بھی کچھ نظریات یا عقائد پر ہوتاہے اگر وہ مضبوط ہو ں اور معاشرے کے تمام ارکان میں یکساں طورپر پائے جائیں تو معاشرہ بے حد مضبوط ہوسکتا ہے۔

آج بھی ایسا کوئی نظریہ نہیں پایا جاتا جو کسی مضبوط بندھن کا کردار ادا کرسکے۔ یوں بھی عملی تشدد کو محض خیالات کی طاقت سے نہیں روکا جاسکتا۔ ہم اس وقت تک خام خیالی اور غلط فہمی کا شکار رہیں گے جب تک یہ نہ جان لیں کہ ایک دور میں قانون محض بدترین تشدد ہی تھا اور آج بھی یہ تشدد کے سہارے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔

آپ نے ایک اور خیال کا اظہار  بھی کیا ہے کہ انسان کے اندر تخریب اور نفرت کی جبلت موجود ہے جو جنگ و جدل کے حامیوں کو بہت سازگار آتی ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر آپ سے کلی اتفاق کا اظہار کروں گا۔ ہم (ماہرین تحلیل نفسی) اس نوعیت کی جبلت کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور گزشتہ کئی برس تک اس کے مطالعے میں مصروف رہے ہیں۔ میں آپ کی اجازت سے اس ضمن میں اپنے نظریات پیش کرنا چاہوں گا جو جبلت تخریب کے مظاہر پر روشنی ڈالتے ہیں۔

ہمارے مفروضے کے مطابق انسانی جبلتیں صرف دو قسم کی ہیں۔ پہلی وہ جو اس کے وجود کو قائم اور باقی رکھنے کے لیے  ضروری ہیں۔  جنہیں ہم”ایروٹک ۔۔  کہتے ہیں

ایروٹک کا مفہوم وہی ہے جو افلاطون   نے اپنے مکالمے سمپوزیم میں لفظ ایروز کو عطا کیا ہے۔ جنس اور اس کے متعلقات بھی ایروز میں شامل ہیں ۔

دوسری طرف وہ جبلت ہے جو تخریب اور قوت کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ کہہ کر ہم نے کوئی نئی بات نہیں کی یہ دونوں جبلتیں محبت اور نفرت کے جذبات ہی کا دوسرا نام ہیں جن سے کشش اور مدافعت کے رد عمل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ دونوں جبلتیں زندگی اور نظام کائنات کو جاری وساری رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک جبلت دوسری کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی اور یہ دونوں ہمیشہ اکٹھی پائی جاتی ہیں۔ البتہ ان کی مقدار میں فرق ہوسکتاہے، بلکہ ہوتاہے کبھی ایک جبلت کا پلہ بھاری ہوجاتاہے کبھی دوسری کا۔

جس جبلت کی مقدار زیادہ ہو وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ایروز کا مقصد زندگی اور وجود کو قائم رکھنا ہے جس کے لئے وہ تشدد اور طاقت کا استعمال بھی کرتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ محبت کی جبلت کو بھی قوت اور ملکیت کے لیے طاقت درکار ہوتی ہے تاکہ یہ اپنے محبوب کو حاصل کر سکے اور اس پر غلبہ پاسکے۔ ان دونوں جبلتوں کو جدا کرنے کی ناکام کوششیں ہی ہمارے لئے کئی مشکلات کا سبب بنی اور یہی وجہ ہے کہ غالباً ہم اتنی دیر تک انہیں پہچان نہ سکے۔

میں یہاں ایک اور بات کہنا چاہتاہوں جو ایک اور طرح کی پیچیدگی کا باعث بنتی ہے وہ یہ کہ ہمارا کوئی بھی عمل زیادہ تر ایروز اور جبلت تخریب کی آمیزش سے وجود میں آتاہے۔ یقیناً کسی عمل کے وقوع پذیر ہونے میں دونوں جبلتوں کی آمیزش کا کوئی نہ کوئی فارمولا ضرور ہوتا ہوگا۔ اس کا اندازہ سب سے پہلے آپ کے مضمون کے ایک ماہر ، گونٹجن یونیورسٹی میں فزکس میں پروفیسر جی سی لچن برگ، جو ماہر طبیعیات سے بڑھ کر ماہر نفسیات تھے ، نے لگایا تھا۔ محرکات کا ایک دائرہ بنایا تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ مختلف محرکات عمل کو 32مختلف طریقوں سے ترتیب دیا جا سکتاہے۔
چنانچہ جب انسان کچھ بھی کرنے کا ارادہ کرتے ہیں مختلف منفی اور مثبت محرکات ان کے پیچھے سرگرم عمل ہوتے ہیں۔ یہی حال بعینہ جنگ کا ہے۔ جب انسان جنگیں لڑتے ہیں تو مختلف قسم کے مقاصد ان کے پیش نظر ہوتے ہیں۔ انہیں یہاں گننے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن ہوس تخریب و تشددان میں سے اولین ہوتے ہیں۔ پر تشدد نظریاتی تحریکیں درحقیقت نظریے کے فروغ کی بجائے جبلت تشدد کو تسکین فراہم کرتی ہیں۔ ہوتا صرف یہ ہے کہ نظریاتی محرکات شعور میں کار فرما ہوتے ہیں اور پس پردہ تشدد کی جبلت لاشعور میں سرگرم عمل ہوتی ہے۔

یہ جبلت صرف انسان ہی میں نہیں بلکہ ہر زندہ مخلوق میں موجود ہے اور اس کا مقصد زندگی کو ختم کرکے مادے کو دوبارہ سے مردہ اور غیر نامیاتی حالت میں لے جانا ہے۔ چنانچہ اسے محض تخریب کا نام دینے کی بجائے جبلت موت کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ اس کے برعکس جبلت حیات زندہ رہنے کے لیے سرگرم رہتی ہے۔ جبلت موت خصوصی ہتھکنڈوں سے لیس ہو کر کسی جاندار پر حملہ کر تی ہے۔ جاندار جو اپنی زندگی برقرار رکھنا چاہتا ہے اس کا مقابلہ کرتاہے اور اس پر قابو پالیتا ہے لیکن جبلت مرگ کا کچھ حصہ جاندار کے اندر بھی سرایت کرجاتا ہے ۔ بہت سے نارمل اور متعدد مریضانہ رویے جبلت مرگ کی داخلیت کا مظہر ہیں۔ مثلاً ضمیر ہی کو لیجئے، یہ محض خارجی تشدد کو داخلی تشدد میں بدلنے کا نام ہے۔ اگر جبلت مرگ خود جاندار ہی کو ہدف بنائے تو یہ یقیناً اس کے لیے بے حد نقصان دہ ہوگا۔ اس کے برعکس اگر وہ اس تشدد کو کسی بیرونی شے پر مرتکز کردے تو نتائج بے حد بہتر ہوں گے ۔ یہ جنگ و جدل ، قتل و غارت اور خونریزی کے حق میں ایک حیاتیاتی دلیل ہے۔

انسان کے پاس اپنی پر تشدد جبلت سے چھٹکارہ پانے کا کوئی طریقہ نہیں۔ ہمیں بتایا جاتاہے کہ زمین کے کچھ ایسے ٹکڑے بھی ہیں جنہیں جنت بر روئے ارض کہا جا سکتاہے جہاں دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور انسانوں کے پاس ہر شے اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے چنانچہ وہ تشدد، ظلم ، تعدی اور مار پیٹ کے نام سے بھی ناواقف ہیں۔ شاید میں اس کہانی پر ایمان نہ لاسکوں پھر بھی میں ان خوش نصیب انسانوں کے متعلق مزید جان کر بہت خوش ہوں گا۔ روس کے کمیونسٹوں کا بھی یہی خیال ہے کہ انسان کی تمام مادی ضرورتوں اور احتیاجوں کی تشفی کرکے تشدد اور تخریب کا مکمل خاتمہ کردیں گے۔ وہ ایسا معاشرہ قائم کریں گے جو مکمل مساوات پر مبنی ہو گااور مفادا ت کا تصادم نہ ہونے سے باہمی جھگڑوں کا قلع قمع ہوجائے گا۔ میرے خیال میں یہ محض خام خیالی اور غلط فہمی ہے۔کمیونسٹوں کا یہ گروہ خود بھی جدید ترین اسلحے سے لیس ہے اور اپنے گروہ کو متحد رکھنے کے لیے ان کے پاس سب سے کار آمد ہتھیار نفرت ہے جو وہ دوسرے افراد اور گروہوں کے لیے رکھتے ہیں یا پیدا کرتے ہیں۔

انسان کی تخریبی جبلت کو ختم کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں، زیادہ سے زیادہ یہ کیا جا سکتاہے کہ اس کا رخ کسی اور جانب اس طرح موڑ دیا جائے کہ یہ جنگوں کی صورت میں اظہار نہ کر پائے۔ تحلیل نفسی کا نظریہ جبلت جنگ سے بچاؤ کا ایک بالواسطہ طریقہ وضع کر سکتاہے اگر ہم جنگ کی تباہ کاریوں سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں جنگ کے مخالف یعنی ایروز کو مستحکم کرنا ہوگا۔ ہر وہ چیز جو انسانوں کے درمیان جذباتی روابط کو فروغ دے ، تشدد کے امکانات کو کم کرتی ہے یہ روابط دو طرح کے ہوسکتے ہیں، پہلے جنسی اور دوسرے سماجی۔ مؤخرالذکر کی اہمیت یہاں زیادہ ہے ۔ افراد کی مشترکہ دلچسپی سماجی جذباتی روابط کو مضبوط کرتی ہے۔ انسانی معاشرہ بڑی حد تک سماجی جذباتی روابط ہی پر استوار ہوتاہے۔

جہاں تک اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق آپ کے خیالات کا تعلق ہے تو میں یہی کہوں گا کہ انسانوں میں قائدین اور مقتدیوں میں تقسیم ہونے کا رجحان پایا جا تا ہے۔ مؤخر الذکر یعنی عوام تعداد میں بہت زیادہ ہوتے ہیں انہیں کسی رہنما، قانون ساز اور حاکم کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے ایما پر فیصلے کر سکے۔ ان کا خاص الخاص وصف اطاعت اور تابع فرمانی ہوتاہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے کے بالا تر طبقات پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے۔ ان لوگوں کو جو شعور سے بہرہ ور ہیں اور دوسروں کو قیادت فراہم کرسکتے ہیں تربیت دی جانی چاہئے کہ وہ کس طرح عوام پر اثر انداز ہوں۔ کیونکہ وہی لوگ ایسا کرسکتے ہیں جو کسی سے خوفزدہ اور ہراساں نہ ہوں اور بے سہارا عوام کی رہنمائی کرسکیں۔ لیکن بد نصیبی سے ریاستی پابندیوں اور مذہب کی چیرہ دستیوں نے ایسے دماغ پید ا ہی نہیں ہونے دیئے۔

انسانیت کے لیے مثالی صورت حال یہ ہوتی کہ تمام انسان اپنی جبلتوں پر فتح پاکر خود کو عقل کی حاکمیت میں دے دیتے۔ ان انسانوں میں کسی جذباتی رشتے یا ربط کے بغیر بھی گہرا ترین اتحاد اور اتفاق پایا جاتا۔ لیکن فی الوقت یہ سب کچھ خواب یا یو ٹوپیا سے بڑھ کر نہیں۔ بلاشبہ جنگ کےتدارک کے لیے بالواسطہ ذرائع موجود ہیں لیکن یہ فوری نتائج پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کی مثال میں ایک ایسی سست رفتار چکی کی مدد سے پیش کروں گا جو اتنی کم رفتار سے آٹا پیستی ہے کہ لوگ روٹی کے انتظار میں بھوکے مر جاتے ہیں۔

اس کے باوجود میں اختتام سے پہلے ایک اور بات ضرور زیر بحث لانا چاہوں گا جنگ انسانوں کو زندگی سے محروم کرتی ہے۔ انہیں اپنی مرضی کے خلاف دوسروں کو قتل کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ ان قیمتی املاک کو نیست و نابود کر دیتی ہے جو برس ہا برس کی انسانی محنت کے بعد وجود میں آئی تھیں۔ مزید برآں ازمنہ قدیم کی طرح جنگ اب شجاعت و جوانمردی کے اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ تباہی و بربادی کا پیش خیمہ ہے۔ مستقبل کی جنگیں یقیناً لڑنے والے دونوں فریقوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیں گی۔ مجھے حیرت ہے کہ ان تمام حقائق کے باوجود انسانیت جنگ کو مستقل طور پر مسترد کیون نہیں کر دیتی ؟

دو نکات پر بحث یقیناً ممکن ہے وہ یہ کہ کیا معاشرے کے پاس افراد کی زندگی کو ختم کرنے کا حق ہونا چاہئے اور دوسرے یہ کہ جب تک کچھ ممالک اور کچھ اقوام اپنے جارحانہ عزائم کو ترک نہیں کرتے دوسروں کے پاس بھی ان کے شر سے بچنے اور اپنے دفاع کے لیے طاقت ہونی چاہیے۔ شاید ہم جنگ کے خلاف احتجاج اسی لیے کرتے ہیں کہ اس کے بغیر رہ نہیں سکتے۔ ہم فطرتاً امن پسند ہیں اور اس کے لیے ہمارے پاس جواز موجود ہیں۔

صد ہا سال سے انسانیت تہذیبی ارتقا کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ اس تہذیبی ارتقاء کے ہم پر بہت سے احسانات ہیں۔ ہم آج جو کچھ بھی ہیں اسی کی بدولت ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہی تہذیب ہمارے بہت سے مسائل کا سبب بھی ہے اور اس نے ہماری زندگی کو کرب و آزار سے بھر رکھا ہے۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ تہذیب کا مقصد شاید نسل انسانی کو ختم کرنا ہے کیونکہ یہ کئی طرح سے جنسی عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہے۔ اس نے انسان کی نفسیات پر بھی گہرے اور دور رس اثرات مرتب کیے ہیں۔ تہذیبی عمل کے دوارن جبلی عزائم آہستہ آہستہ پس پردہ جانے لگتے ہیں اور ایک موقع ایسا آتا ہے کہ جبلت پر مکمل پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ وہ محسوسات جو ہمارے آباؤ اجداد کے لیے نہایت خوش گوار اور نشاط خیز تھیں ہمارے لیے بے معنی یا غالباً شدید نا پسندیدہ اور ناقابل برداشت ہوں۔ ہمارے اخلاقی اور جمالیاتی ذوق کی ترویج و تشکیل کے پیچھے بھی عضویاتی اور نامیاتی وجوہ موجود ہیں۔ اس کے دو نفسیاتی خطوط خصوصاً قابل ذکر ہیں، اولاً وعقل و دانش کی بالا دستی جس نے جبلی زندگی کو زیر کر لیا اور ثانیاً تشدد کی داخلیت جس کے اچھے اور برے نتیجے ہمارے سامنے ہیں۔ جنگ دراصل ان نفسیاتی بندشوں کے خلاف شدید ترین رد عمل ہے جو تہذیب نے ہم پرعائد کی ہیں۔

عقلی اور جذباتی ردعمل کے علاوہ امن پسند” مزاج” بھی جنگ کے خلاف ہیں۔ جنگ کے مظالم اور تباہ کاریاں ہماری برداشت سے باہر ہیں۔ ہم محض جمالیاتی بنیادوں پر نہیں بلکہ اخلاقی بنیادوں پر بھی جنگ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ایک مہذب طرز عمل اور مستقبل کی جنگ کے بدترین نتائج کا خوف یقیناًجنگ و جدل کے خطرے کو کم کر سکتاہے ۔ لیکن یہ کس طرح اور کب ممکن ہوگا اس کا اندازہ لگانا آسان نہیں۔ تاہم ہم یہ ضرور کہہ سکتے ہیں وہ تمام عوامل جو تہذیب کو مضبوط بناتے ہیں، جنگ کا خطرہ یقیناًکم کر سکتے ہیں۔

ہر چند میں نے آپ کو مایوس کیا، پھر بھی مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے درگزر فرمائیں گے۔ آداب و تسلیمات کے ساتھ۔
آپ کا مخلص

Advertisements
julia rana solicitors london

سگمنڈ فرائیڈ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply