ماں بنام خودکش بمبار۔۔واجد محمود خٹک

میرے پیارے بیٹے!

مجھے نہیں معلوم جب تجھے یہ خط ملے گا (یا ملے گا بھی نہیں) تو تم کس حال میں ہوگے۔

یقین مانو جس دن سے تیرا خط ملا ہے رو رو کر میرا برا حال ہو گیا ہے۔ تم کو نہیں معلوم جب تم پیدا ہو رہے تھے تو کتنا مسئلہ ہو گیا تھا۔ دائی کہ رہی تھی کہ میں موت کے منہ میں جاتے جاتے بچ گئی تھی۔ میں نے موت سے لڑ کر تم کو زندگی دی۔ پتہ نہیں تم ایک ماں کی ممتا کو کیا سمجھتے ہو؟

پیارے بیٹے! وہ دن مجھ پہ قیامت بن کے ٹوٹا تھا جب تیرے بابا کوئلے کی کان میں مزدوری کرتے ہوئے فوت ہو گئے تھے۔اس کے بعد جو حادثہ تیری بہن کے ساتھ ہوا اس کا درد ابھی بھی سینے میں محسوس ہو رہا ہے۔ اب مجھے نہیں لگتا کہ فقط بارہ سال کی عمر میں تیری لاش دیکھنے کی مجھ میں ہمت ہوگی۔ اور ہاں مجھے یہ بھی یقین نہیں کہ تیری کوئی لاش ہوگی بھی کہ نہیں؟ بیٹا، قاری صاحب نے تم کو یہ نہیں بتایا کہ قیامت صرف ایک بار ہی قائم ہوگی؟ تم ایسا کرکے دوبارہ مجھ پہ قیامت کیوں ڈھا رہے ہو؟

پیارے بیٹے میری تم کو اس طرح مرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں۔ اپنے قاری صاحب سے پوچھو کہ کیا تم میری اجازت کے بغیر ان کے بنائے اور بتائے ہوئے جہاد پہ جا سکتے ہو؟اور یہ کہ میری اجازت کے بغیر میدان جنگ میں تم شہید ہوگے یا حرام موت مرو گے؟ تمہارے قاری صاحب مجھے ایک بزدل انسان دکھائی دے رہے ہیں۔وہ ماؤں کے لخت جگر آگ کا ایندھن بنا رہے ہیں اور ان کو احساس بھی نہیں۔ اس کو اس درد کا کیا پتا جو ایک ماں کی ممتا میں ہوتی ہے۔ اس کرب کا اس کو کوئی احساس نہیں جو ایک ماں اپنے جگر گوشے کے لئے اپنے دل میں محسوس کرتی ہے۔ میں یہی کہ سکتی ہوں کہ کاش تمہارے قاری صاحب کسی بچے کی ماں ہوتی، پھر شاید اس کو اس درد اور کرب کا احساس ہوتا جس سے میں اور مجھ جیسی کئی اور مائیں گزر رہی ہیں۔

قاری صاحب تم کو اللہ کی ناراضگی کا بتاتے ہیں۔ لیکن کیا اس نے یہ بتایا ہے کہ اللہ اپنے بندوں سے بہتر (۷۲) ماؤں جتنا پیار کرتے ہیں؟ اب خود سوچو کہ میں اگر ایک ماں تمہاری اس طرح کی موت برداشت نہیں کر سکتی تو کیا اللہ تعالیٰ برداشت کر سکیں گے؟کیا وہ چاہیں گے کہ اس کا ایک  بندہ اس طرح کی موت مرے؟ اپنے قاری صاحب کو بتا دینا کہ میری ماں کو جنت کا سرٹیفیکٹ نہیں چاہیئے۔ اسے جنت چاہیئے۔اپنی ایک چھوٹی سی جنت، جس میں نہ تو دودھ اور شہد کی نہریں ہیں، نہ ہی خدمتگار نورانی مخلوق۔ اس کو سمجھا دینا کہ کسی ماں کے لئے جنت اس کی اولاد اور اپنا گھر ہوتی ہے۔اس کی اولاد ہی اس کے دل کا سکون اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔

اور ہاں قاری صاحب سے پوچھنا کہ انہوں نے اب تک خود کیوں فدائی حملہ نہیں کیا؟ کیا ان سے ان کے رب ناراض ہیں یا کوئی اور مصلحت ہے؟ اگر رب ناراض نہیں تو پھر کیوں اب تک ان سے اتنے دور ہیں؟ قاری صاحب کے اپنے بچے بھی تو فدائی نہیں بن رہے۔ کیا قاری صاحب کو ان کی آخرت سنوارنے کا خیال نہیں آرہا؟ ان کے بچے تو طاغوتی علوم بھی حاصل کر رہے ہیں۔ قاری صاحب سے پوچھنا کہ کیا دوسروں کے بچوں کی طرح ان کے اپنے بچے بھی واجب القتل ہیں؟ قاری صاحب سے یہ بھی دریافت کرنا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے دین کی بقا اور سر بلندی کے لئے کس موقع پر اور کتنے بچوں کو قتل کیا تھا؟

اپنے قاری صاحب کو بتا دینا کہ جو فدائی پچھلے مہینے انہوں نے کالے کوٹوں والوں سے بدلا لینے کے لئے بھیجا تھا، اس نے دوسرے لوگوں کے ساتھ ساتھ چائے بیچنے والے آٹھ اور دس سال کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی بدلا لے لیا ہے۔ اس بدلے کی آگ میں ساتھ والے گاؤں کی مسجد کے امام صاحب اور ان کا تین سال کا نواسہ بھی جھلس کر راکھ ہو گئے ہیں۔ قاری صاحب کو یاد دلا دینا کہ جو فدائی حملہ گاؤں کے ملک کے خلاف مسجد میں کیا گیا تھا اس میں پینتیس نوجوان لڑکوں اور بچوں کے چھیتڑے اڑ گئے تھے۔پورا گاؤں کا گاؤں اجڑ گیا، ویران ہو گیا۔ تم کو پتا ہے اب تو کوئی والی بال بھی نہیں کھیلتا۔کیونکہ کوئی بھی کھیلنے والا باقی نہیں رہا ہے۔خود سوچو جب ایک چھوٹے سے گاؤں سے ۳۵ جنازے ایک ساتھ اٹھ جائیں تو وہاں والی بال کھیلنے کے لئے کوئی باقی بچا ہوگا کیا؟ قاری صاحب صاحب سے یہ بھی پوچھنا کہ لکی مروت میں جو والی بال کے میچ میں فدائی حملہ کیا تھا اور گاؤں والوں کو سو (۱۰۰) جنازوں کا تحفہ دے کر اسلام کی کتنی سربلندی ہوئی؟ طاغوتی قوتوں کا کس حد تک قلع قمع کیا گیا؟

میرے بیٹے یہ تم کس کے ہاتھ لگ گئے ہو؟ میں نے تم کو وہاں اس لئے نہیں بھیجا تھا کہ تم فدائی بن جاؤ۔میں تو چاہتی تھی کہ تم علم حاصل کرکے ایک اچھے انسان بنو۔ ان لوگوں کو اسلام کی وہ تعلیمات سمجھاؤ جو یہ بھول گئے ہیں۔ ان کو یہ سمجھاؤ کہ اسلام تو بے جا پانی ضائع کرنے اور بہانے کی اجازت نہیں دیتا، کجا کہ کسی کا خون بہانے کی۔

میرے بچے مجھے ایسی جنت نہیں چاہئے جو دوسروں کی لاشوں پر گزر کر ملے۔مجھے ایسی جنت کی کوئی ضرورت نہیں جس کے لئے ماؤں کو رلانا پڑے، بہنوں کی سروں سے چادریں گرانا پڑے، اور بچوں کو یتیم کرنا پڑے۔ میرے بیٹے تم خود یتیم ہو اور تم سے بڑھ کر اس بات کا اندازہ کس کو ہو سکتا ہے کہ یتیم کی زندگی کس طرح گزرتی ہے۔ کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری وجہ سے کئی بچے تمہارے ہی طرح محرومیوں کا شکار ہوں؟ کیا تم گوارہ کر سکتے ہو کہ تمہاری باجی جیسا سلوک دوسرے لڑکیوں کے ساتھ بھی ہو؟کیا تم چاہتے ہو کہ تمہاری بیوہ ماں کی طرح دوسری مائیں، بہنیں اور بیٹیاں کرب اور عذاب میں اپنی زندگیاں گزاریں؟

میرے بیٹے تم کس کے سہارے اپنی بیوہ ماں کو چھوڑ کے جا رہے ہو؟ تم کو پتا ہے میں گاؤں کی عورتوں کو کتنے فخر سے کہتی ہوں کہ میرا بیٹا اب بڑا ہو گیا ہے۔ اب ما شاء اللہ جوان ہے۔ اب مجھے کسی کی پرواہ نہیں۔ کیا تو چاہتا ہے کہ میرا یہ فخر خاک میں مل جائے؟

تمہاری گڑیا رانی تم کو یاد کر رہی تھی۔کچھ دنوں سے بیمار ہے مگر میرے پاس پیسے نہیں تھے کہ دوائی لا دیتی۔ تمہاری چچی کہ رہی تھی کہ شہر میں ایک ہسپتال میں مفت دوائی دیتے ہیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ جب تم آؤ گے تو اس کو لے کر چلے جائینگے۔لیکن تم نہ تو پچھلے ہفتے آئے، نہ اس ہفتے۔ کچھ دنوں میں نہ آئے تو اس کا کیا ہوگا؟۔

اور ہاں تم تو کہا کرتے تھے کہ میں تیرے لئے ایک پیارا سا گھر بناؤں گا۔ اب جب گھر بنانے کے قابل ہونے لگے ہو تو میرا بنا بنایا گھر اجھاڑنے کی باتیں کر رہے ہو؟ پیارے بیٹے گھر آ جاؤ۔ مجھ پر رحم کرو۔ میری ممتا پر رحم کرو۔ اپنی بیمار بہن اور بھائی کا سوچھو۔ کیا تمہارے لئے تمیاری حوریں ہم سے زیادہ اہم ہیں؟ یاد رکھو کہ اپنے ہاتھ دوسرے انسانوں کے خون سے تر کر تم کبھی بھی ان حوروں کو حاصل نہیں کر سکو گے۔ یاد رکھو کہ اگر تم نے ایسا کیا تو اپنے پروردگار کے حضور سب سے پہلے میں تمہارے خلاف گواہی دوں گی۔تمہاری پیاری ماں ان مظلوم اور بے سہارہ بے چاری ماؤں کے صف میں کھڑی ہوگی جن کو تم رلاؤ گے۔جن سے تم اپنی محرومیوں کا بدلہ لو گے۔ یاد رکھو اگر تم نے ایسا کیا تو میں کبھی بھی تم کو معاف نہیں کروں گی۔

پیارے بیٹے تم کو اپنے مرے ہوئے بابا کا واسطہ مجھ سے دور نہ جاؤ۔ تم کو میری چادر اور عزت کی قسم واپس آ جاؤ میرے پاس۔ تم کو اس خون کے ہر قطرے کی قسم جو تمہارے نا مکمل جسم کو میرے پیٹ کے اندر زندہ رکھے ہوئے تھے۔تم کو میرے سینے کے دودھ کی گھونٹ گھونٹ کی قسم جن نے تمہاری زندگی کو جلا بخشی۔ نہ جاؤ، واپس آجاؤ۔ مجھے نہیں چاہیئے تیری شفاعت، تیری جنت اور تیری آرام اور سکون کی زندگی۔ واپس آجاؤ،کہ یہی آرام اور سکون کی زندگی کی لالچ دوسرے کئی لوگوں کی آرام اور سکون کی زندگی کو تباہ و برباد کر دے گی۔واپس آجاؤ، کہ میں نہیں چاہتی کہ تو اپنی جنت کے لئے دوسرے لوگوں کی جنت کی سی زندگیوں کو تایک جہنم میں تبدیل کرو۔واپس آجاؤ کہ میں نہیں چاہتی کہ تجھ جیسے کئی اور بچے بھی اسی راہ کے مسافر بنیں۔

واپس آجاؤ کہ مجھے تمہارا اس طرح مرنا اور مارنا بالکل بھی منظور نہیں۔ واپس آجاؤ، اپنے لئے، اپنی ماں کے لئے، کئی ماؤں کے لئے، ان کے بچوں کے لئے تاکہ ہم سب اپنی اپنی جنتیں یہی بنائیں۔

         تیری واپسی کی منتظر

Advertisements
julia rana solicitors

         تیری روتی ہوئی ماں

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply