ہمارے منبر ۔ زید غوری

مولانا اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ کی شہادت کے بعد کا ذکر ہے، میں حسب معمول جمعے کی تیاری میں مصروف تھا کہ اچانک مسجد کے سپیکر سے ایک نئی آواز آئی. آواز کے کچے پن اور لڑکھڑاہٹ سے معلوم ہو رہا تھا کہ کوئی نوآموز آج اس منبر پر جلوہ افروز ہے اور کچھ عجیب کرنے والا ہے. خیر میں اپنی تیاری میں مصروف رہا اور کان اس آواز کے فرمودات پر دھر دیے.

پہلا جھٹکا اس وقت لگا جب حضرت نے مولانا اسلم شیخوپوری کے ساتھ رحمہ اللہ کی جگہ دامت برکاتہم العالیہ کہا. پھر تو بے جوڑ و بے وزن باتوں کا ایک عجب سلسلہ شروع ہوا جو قریب نصف گھنٹے تک جاری رہا جو اس بیچ یہ احساس بھی دلاتا رہا کہ آواز کے پیچھے کوئی کج فہم اور دماغی خلل سے دوچار بچہ ہے. اس بات پر حیرت بھی ہوئی کہ اس بھری مسجد میں ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے جو اس کو روکے .

موصوف نے آدھ گھنٹے میں اپنے الفاظ اور انداز سے واضح کر دیا تھا کہ فرقہ واریت، لسانی، نسلی اور طبقاتی تعصب سے بھرے پڑے ہیں اور اسی کو ہوا دینے کے لیے یہاں موجود ہیں. علمی پسماندگی کا عالم یہ تھا کہ شہادت کے دو سال بعد بھی رحمہ اللہ کی جگہ مدظلہ اور دامت برکاتہم لگا رہے تھے. اور کچه ایسی باتیں مولانا سے منسوب کیں کہ مولانا سے معمولی واقفیت رکهنے والا بهی بلاتوقف سمجھ جائے کہ یہ سراسر مولانا پر افترا ہے.

پورا مہینہ یعنی چار جمعوں تک یونہی چلتا رہا. پھر بالآخر ان کو ایک دن روک لیا اور سمجھایا کہ یہ سب نہ کریں اور مولانا کے نام کے ساتھ رحمہ اللہ کا لفظ لگائیں.

یہ شہر کراچی کی ایک مسجد کا حال تھا. ایسی ہزاروں مسجدیں پورے ملک میں موجود ہیں جن کے منبروں سے یہ زہر عوام کے ذہنوں میں انڈیلا جا رہا ہے اور اس کے سد باب کی کوئی صورت و سعی نہیں کی جا رہی .

پاکستان کے کسی شہر، گاؤں، دیہات یا قصبے میں چلے جائیں اور منبر سے اٹھنے والی صدائیں سن لیں جو یقینا صرف ان الفاظ کافر، مشرک، خارجی، واجب القتل، زندیق اور گستاخ پر مشتمل ہوں گی. ملک میں برپا فساد اور قتل غارت گری کے اور اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی ہے، پر بہت کم لوگ ہیں جن کا دھیان اس طرف گیا ہوگا.

یہ لمحہ فکریہ ہے. ہم اس منبر کی اس نسبت کو بھول گئے جو اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے. ہم نے اپنے کانوں کی لذت کی خاطر یہ عظیم منصب کسی بھی لاعلم کے سپرد کردیا اور اس کا تقدس پامال کر.دیا. جن منبروں سے محبت، جوڑ، بھائی چارے کی آواز اٹھتی تھی اور اٹھنی چاہیے تھی وہاں سے قتل کے فتوے صادر اور فساد کا پرچار ہو رہا ہے. یہ منبر عوام الناس میں بیداری شعور کا نہایت عمدہ اور سہل راستہ ہیں پر آج انہی سے شعور اور احساسات کا قتل عام ہو رہا ہے.

پاکستانی معاشرے میں لوگ جن چند لوگوں کی پیروی کو فخر سمجھتے ہیں ان میں سے ایک منبر پر بیٹھنے والا شخص بھی ہے پر جب یہ شخص ہی اپنے فرض منصبی کو نہیں پہچانے گا تو کوئی دوسرا شخص کیسے اس سے رہنمائی لے گا اور حقیقت تک رسائی پائے گا؟

ان باتوں کے لکھنے کی وجہ گزشتہ ایک دو ماہ کے وہ خطبات ہیں جو عمان میں بحثیت خطیب دیے اور سنے. دوران خطبہ جہاں بارہا احساس ندامت ہوا وہیں یہ بات بھی عیاں ہوئی کہ ضروری نہیں معاشی استحکام  ہی کلی طور پر امن و امان کا سبب ہو. ان کے پرامن ہونے میں معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ منبر کا صحیح اور مثبت استعمال بھی ہے.

یہاں کی عوام میں شعور ان منبروں سے ہی آیا ہے اور یہ لوگ اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں.

اب ایک نظر گزشتہ دو ماه کے خطبات کے عنوانات پر ڈالیں …..

1 ) عید کے دن کے فضائل اور روزے داروں پر اللہ کے انعامات اور بشارتیں

2 ) شوال کے 6 روزوں کی فضیلت اور اس کے فوائد

3 ) نوجوانوں کی تعطیلات میں اوقات کی حفاظت اور ان اوقات کا صحیح استعمال

4 ) غیر ملکیوں کےساتھ نرمی، حسن سلوک اور ان کی معاونت جس طریقے سے بھی ہو.

5 ) زوجین کے حقوق اور ان کو بآسانی ادا کرنے کا طریقہ

6 ) ملکی قوانین کا احترام اور اس کے فوائد

7 ) فریضہ حج کے متعلق احکامات اور اس کی ترغیب

8 ) ذی الحجہ کے دس ایام کی فضیلت خصوصا یوم عرفہ کے فضائل .

قابل تحسین بات یہ ہے کہ سلطنت اس معاملے کو اپنی ذمے داری سمجھتے ہوۓ خود دیکھتی ہے اور ہر جمعے کا خطبہ اسی کی طرف سے خطیب کو ملتا ہے جس کا پڑھنا ضروری ہے اور جو خطیب ایسا نہ کرے اس کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے.

اب سوال ہے کہ کیا وطن عزیز میں یہ ممکن ہے؟ جواب ہے: جی ہاں بالکل ممکن ہے. جب حکومت کی طرف ایک جسمانی مرض (پولیو) کے لیے ورکرز ایک ایک دروازے پر جاسکتے ہیں تو ایک ذہنی مرض (تعصب) جو ہمیں وقت سے بہت پیچھے دھکیل رہا ہے اور کسی حد تک ہم مسلمانوں کی تباہی کا سبب بهی ہے، کیوں اس کے لیے حکومتی نمائندے تمام مساجد تک نہیں جاسکتے؟

وفاقی حکومت کو چاہیے کہ تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرے کہ وہ علما کا ایک پینل اپنے صوبے میں تشکیل دیں جو غیر جانبدار ہو اور معاشرتی مسائل پر گہری نظر رکھتا ہو. وہ پینل وقت اور موقع دیکھ کر اس حوالے سے جمعے کے خطبے کا عنوان اور اس کی حدود متعین کرے اور خطبا کو پابند کریں کہ خطبہ ان حدود سے باہر نہ ہو. خلاف ورزی کے مرتکب پر قانونی کاروائی کی جائے. ممکن ہے ابتدا میں کچھ دشواریاں ہوں پر اس راستے سے کسی حد تک ہم ایک باشعور اور تنگ نظری سے پاک معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائیں گے

Advertisements
julia rana solicitors london

پر کوشش شرط ہے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply